- ضلع خیبرمیں سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں تین دہشت گرد ہلاک، دو ٹھکانے تباہ
- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
ایم کیو ایم کے تحریک سے جماعت بننے کا وقت آگیا
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ نے 22 سال بعد پارٹی میں بہت بڑے پیمانے پر تنظیم نو شروع کردی ہے۔
رابطہ کمیٹی کو تحلیل کردیا گیا ہے جبکہ الطاف حسین تنظیمی ڈھانچے میں مزید تبدیلیوں کیلیے قریبی دوستوں سے مشورے کر رہے ہیں، کل جنرل باڈی اجلاس میں مزید فیصلے سامنے آنے کی توقع ہے۔ اجلاس میں جماعت کے تنظیمی ڈھانچے کا بھی اعلان کیا جائیگا۔ عبوری رابطہ کمیٹی میں پارٹی کے پرانے کارکنوں عامر خان، خالد مقبول کو شامل کیا گیا ہے۔ ابھی دیکھنا ہوگا کہ الطاف حسین پارٹی کو رابطہ کمیٹی کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کرتے ہیں یا پرانا تنظیمی ڈھانچہ بحال کرتے ہوئے چیئرمین، سیکریٹری و دیگر عہدے پیدا کیے جاتے ہیں۔
پارٹی میں تبدیلیوں کے فیصلے انتخابی نتائج اور بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے کی شکایت پر کیے گئے۔ متحدہ کو نائن زیرو پر کارکنوں کی طرف سے رہنمائوں سے بدتمیزی کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایم کیو ایم میں اس سے قبل 1991 میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ پارٹی میں بھتہ خوری، لینڈ مافیا کے حوالے سے سخت اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔
کراچی سے تحریک انصاف نے ایک قومی اور3 صوبائی نشستیں جیتیں جو نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کیلیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ پیپلزپارٹی کی طرح ایم کیو ایم بھی تحریک انصاف کی طاقت کا درست اندازہ نہیں لگا سکی۔ الطاف حسین اس بات پر بھی خفا ہیں کہ رابطہ کمیٹی صورتحال کو ٹھیک طور پر کیوں نہ سمجھ سکی۔ قائد متحدہ رہنمائوں کی طرف سے میڈیا میں پارٹی کا ٹھیک امیج پیش نہ کرنے پر بھی نالاں ہیں۔ ابھی آنے والے چند دنوں میں ہونیوالی تبدیلیوںکو دیکھنا ہوگا اور لگتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کو ایم کیو ایم تحریک سے جماعت بن جائے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔