پنجاب کی سرداری، سردار عثمان بُزدار کے نام

تنویر قیصر شاہد  پير 27 اگست 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

یہ سطور لکھتے وقت پنجاب کابینہ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ مشورے میں برکت تو ہوتی ہے لیکن اِتنی رازداری میں نجانے کیا حکمت پوشدہ ہے!!سنا ہے متوقع وزیروں کے انٹرویو کیے جارہے ہیں۔25جولائی کے عام انتخابات کے بعد بھی پنجاب واحد صوبہ تھا جس کے وزیر اعلیٰ کا نام مسلسل تین ہفتوں تک صیغہ راز میں رکھا گیا۔پی ٹی آئی کے چیئرمین صاحب نے اس سلسلے میں اپنی مُٹھی سختی سے بند کیے رکھی تھی۔ لاہور سے دونام وزارتِ اعلیٰ کے لیے اُمیدوار تھے: میاں اسلم اقبال اور عبدالعلیم خان۔ میاں اسلم اقبال گزشتہ ایک دَور میںصوبائی وزیر تھے اور اب پچھلے کئی برسوں سے مسلسل پی ٹی آئی کے متحرک کارکن رہے ہیں۔

تازہ انتخابات میں اُنہوں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم پی اے کی سیٹ بھی جیتی ہے۔ شنید ہے کہ اُنہیں وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے ایک بڑے سرمایہ دار بھی بھاگ دوڑ کررہے تھے۔ علیم خان پنجاب میںپی ٹی آئی کے جانی مانی شخصیت اور پارٹی کے لیے اہم خدمات انجام دینے والوں میں شامل ہیں۔ کپتان کے مقربین میں سے بھی کہے جاتے ہیں۔ بد قسمتی اُن کی یہ بنی کہ وہ ’’نیب‘‘ کو بھی مطلوب ہیں۔ وہاں سے اُنہیںکلین چِٹ نہیں مل سکی۔یوں وہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے آؤٹ کر دئیے گئے۔پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے اُمیدواروں میں سے ایک نام شاہ محمود قریشی کا بھی تھا۔ اُن کی زبردست خواہش تھی کہ پنجاب کی پگ اُنہی کے سر رکھی جائے۔

قدرت کو مگر کچھ اور ہی منظور تھا۔پچیس جولائی کے انتخابات میں شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی کی نشست تو جیت گئے مگر صوبائی اسمبلی کی سیٹ کھو بیٹھے۔ یوں اُن کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات بھی معدوم ہو گئے۔ جنوبی پنجاب کے دونام اور بھی سامنے لائے گئے، لیکن وزارتِ اعلیٰ کا ہما اُن کے سر بھی نہ بیٹھ سکا۔ ایک گہری اور پُراسرار خاموشی چاروں طرف چھائی رہی تھی۔ عمران خان صاحب نے جس روزقومی اسمبلی سے وزیر اعظم کا ووٹ لیا، اُسی شام ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اُن کی طرف سے یہ اعلان بھی سامنے آگیا کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ کون ہوگا۔

یہ نام تھا: سردار عثمان خان بُزدار کا!!جنوبی پنجاب کے انتہائی پسماندہ علاقے، تونسہ شریف، کے ایک گاؤں (بارتھی)سے اُن کا تعلق ہے۔ بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی سے سیاسیات کے مضمون میں ڈگری یافتہ۔ حالیہ انتخابات سے چند دن پہلے ہی پی ٹی آئی میں شامل ہُوئے تھے۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ہی اُنہوں نے تازہ صوبائی انتخاب جیتا۔ کبھی پیپلز پارٹی میں بھی رہے۔ تحصیل ناظم بھی منتخب ہُوئے۔ اُن کے والد صاحب بھی دوتین بار پنجاب کے رکنِ اسمبلی رہے ہیں۔ عمران خان نے اُن کے نام کا اعلان کرتے ہُوئے کہا: ’’سردار عثمان بزدار خود بھی غریب ہیں اور غریب علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے گھر میں تو بجلی بھی نہیں ہے۔

اُنہیں معلوم ہے کہ غربت کیا ہوتی ہے، اس لیے وہ خطے میں غریبوں کو اوپر اُٹھائیں گے۔ میں نے خوب سوچ بچارکے بعد، میرٹ پر، یہ فیصلہ کیا ہے۔‘‘ جونہی عثمان بزدار کا نام سامنے آیا، میڈیا میں اُن کے خلاف کئی باتیں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایک ایسا شخص جو خود بھی ایم پی اے اور تحصیل ناظم رہا ہو اور جس کے والد صاحب (سردار فتح محمد بزدار) بھی دوتین بار ایم پی رہے، اگر اس کے باوجود وہ اپنے گھر اور اپنے علاقے میں بجلی تک نہیں لگا سکا تو اُس کی لاپروائی کی  کوئی حد ہی نہیں۔ ایسا شخص صوبے کی کیا خدمت کر سکے گا؟ یہ بھی کہا گیا کہ سردار عثمان بزدار دو عشرے قبل اپنے علاقے میں ہونے والے ایک سانحہ میں بھی ملوث رہے ہیں۔

سردار بزدار صاحب کا جب کہ یہ کہنا تھا کہ یہ سب باتیں بے بنیاد اور پروپیگنڈہ ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے نَو منتخب اسپیکر، چوہدری پرویز الٰہی، نے کہا: ’’عثمان بزدار صاحب پر کوئی کیس نہیں ہے۔ وہ قبائلی سردار ہیں۔ قتل اور دیگر جھگڑوں میں تو وہ صلح کرواتے ہیں۔‘‘ مخالفین کی طرف سے پھر یہ کہا گیا کہ وہ 2016ء میں ’’نیب‘‘ کو بھی مطلوب رہے ہیں۔ ضرور کوئی بات ہوگی۔ ’’نیب‘‘ کی طرف سے مبینہ طور پر جب یہ بات کہہ دی گئی کہ بزدار صاحب کو کلیئر کر دیا گیا تھا، تب اُن کی گلو خلاصی ہُوئی۔ کئی مزید لایعنی باتوں کو بھی دانستہ ہوا دی گئی۔ تنگ آ کر بزدار صاحب نے یوں ٹویٹ کی: ’’میڈیا پر میرے متعلق جو پروپیگنڈہ جاری ہے، مَیں اس کی مذمت کرتا ہُوں۔میرا دامن اللہ کے فضل وکرم سے پاک صاف ہے۔میرے اوپر نیب کا کوئی مقدمہ نہیں ہے۔‘‘جہاں تک اُن پر عائد سنگین الزامات کا تعلق ہے، شہباز شریف پر بھی سنگین تہمتیں ( مثلاً: ماڈل ٹاؤن کا خونی سانحہ) عائد کی جاتی رہی ہیں۔ تو کیا الزامات کے ان طوفانوں میں شہباز شریف نے وزارتِ اعلیٰ چھوڑ دی تھی؟ ان سب مخالفانہ اور غیر موافقانہ باتوں کے، عمران خان صاحب بزدار صاحب کے حق میں ڈٹے رہے ۔

اِنہی مخالفانہ مہمات کے دوران 19اگست2018ء کی سہ پہر پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی میں میدان سجا۔ ایک طرف پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی جانب سے سردار عثمان بزدار اُمیدوار تھے اور دوسری طرف مقابلے میں نون لیگ کے میاں حمزہ شہباز(جناب شہباز شریف کے فرزند بھی) کھڑے تھے۔ ووٹنگ ہُوئی۔ نتیجہ نکلا تو سردار عثمان خان بزدار جیت گئے تھے۔ اُنہوں نے186 جب کہ حمزہ صاحب نے159ووٹ لیے تھے۔ 27 ووٹوں کے فرق سے پنجاب بھر میں سردار بزدار کی سرداری قائم ہو گئی تھی۔ تونسہ شریف کے شریف لوگوں کو عید سے تین دن پہلے عید کی خوشیاں مل گئی تھیں۔

بزدار صاحب اور اہلِ جنوبی پنجاب ہم سب کی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ وہ نہیں جیتے بلکہ پی ٹی آئی اور کپتان صاحب جیتے ہیں۔ فی الحقیقت کپتان کا عزم اور استقلال فتح سے ہمکنار ہُوا ہے۔پی ٹی آئی کی مسلسل تگ ودَو سے پنجاب میں شریف خاندان کا کئی سالہ اقتدار ختم ہو گیا۔ بزدار صاحب نے وزیر اعلیٰ منتخب ہوتے ہی، اسمبلی کے فلور پر، جو مختصر خطاب کیا، وہ سادگی اور اخلاص کا نمونہ کہا جاناچاہیے۔ اس خطاب میں جہاں جنوبی پنجاب کی محرومیوں اور عسرتوں کا سادہ الفاظ میں ذکر کیا گیا، کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے کی بات کی گئی، وہاں عمران خان اور پی ٹی آئی کی مہربانیوں اور اعتبار کا آہنگ بھی سنائی دیا۔

اُمید کی گئی ہے کہ عثمان بزدار صاحب کا وزیر اعلیٰ بننا دراصل جنوبی پنجاب صوبہ بنائے جانے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ سرائیکی دانشور، قوم پرست اور سرائیکی صوبے کے داعیان (مثال کے طور پر عاشق خان بزدار، محمود نظامی، ڈاکٹر نوید،اشرف خان بزدار) عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے پر نہایت خوش ہیں۔عاشق خان بزدار(جنہوں نے ’’اساں قیدی تخت لاہور دے‘‘ ایسی متنازع کتاب بھی لکھ رکھی ہے) کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار صاحب سرائیکی اور قبائلی علاقے کے تمام مسائل سے خوب آگاہ ہیں، اس لیے اُن کا انتخاب علاقے کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ سردار بزدار صاحب کے کندھوں پر بڑی بھاری ذمے داریاں ڈال دی گئی ہیں۔

اُن کے انتخاب پر تنقید اور تنقیص ابھی رُکی نہیں ہے۔یہ درفنطنی بھی چھوڑی گئی ہے کہ سردار عثمان بزدارصاحب کو اسپیکرچوہدری پرویز الٰہی اور(نامزد) گورنر چوہدری محمد سرور کے درمیان بٹھا کر اُن کی وزارتِ اعلیٰ کو آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہ ’’خانصاحب نے پنجاب اور کے پی کے میں دانستہ غیر معروف اشخاص کو وزرائے اعلیٰ کے منصب پر بٹھایا ہے تاکہ (کسی رکاوٹ کے بغیر) اپنے مقاصد کی تکمیل کی جا سکے۔‘‘ اگر واقعی معنوں میں یہ ’’آزمائش‘‘ ہے تو یہ آزمائشی ہوائیں عثمان بزدار کو اونچا بھی اُڑا سکتی ہیں۔ اُن کی خفی اور خفتہ صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار آنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔