دیارغیر میں معروف گلوکاروں کے ڈیرے

قیصر افتخار  منگل 28 اگست 2018
عیدالاضحی اورجشن آزادی کی تقریبات میں شاندارپرفارمنس پرشرکاء جھومتے رہے۔ فوٹو: فائل

عیدالاضحی اورجشن آزادی کی تقریبات میں شاندارپرفارمنس پرشرکاء جھومتے رہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں کہ مذہبی اورقومی تہواروں کومنانے کی خوشی تواپنے گھر، شہراورمُلک میں ہی زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ جس روایتی اندازسے تہواروں کو منایا اورخوشیوں کودوبالا کیا جاتا ہے، اس کا مزہ اپنے گھراورملک سے دورکہاں؟ لیکن فنون لطیفہ سے وابستہ فنکاروںکی اکثریت اب مذہبی اورقومی تہواروں کو دیارغیرمیں منانے کوہی ترجیح دینے لگی ہے۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان کے حالات اورمعاشی بحران ہے۔

ایک دورتھا جب موسمی تہواروں، عیدوں اورجشن آزادی کے علاوہ قراردادپاکستان کے دنوں کو بڑے جوش وجذبے کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ اس موقع پرملک بھرمیں خصوصی تقریبات کاانعقاد کیا جاتاتوپھرمیوزک کے شعبے سے وابستہ نامورگلوکاروںاورسازندوں کی خدمات حاصل کرکے ان تہواروں کو یادگاربنایا جاتا لیکن اب صورتحال خاصی بدل چکی ہے۔ جب سے پاکستان میں میوزک پروگراموں کے انعقاد اوراوقات کارکے حوالے سے ’’اقدامات‘‘ کئے گئے ہیں، میوزک کے شعبے سے وابستہ فنکاربے روزگاراورایک وقت کی روٹی کیلئے پریشان دکھائی دینے لگے تھے۔

چند گلوکاروں کے علاوہ بڑی تعداد میں گلوکار، سازندے، ساؤنڈانجینئرز اور دیگر فاقے کرنے پر مجبورتھے۔ مگرپھرامریکہ، کینیڈا، یورپ، برطانیہ، مڈل ایسٹ، آسٹریلیا اورافریقہ میں کام کرنے والے پروموٹرزنے تہواروں کومنانے کیلئے ایسے گرینڈ ایونٹس کا انعقاد شروع کیا کہ بے روزگاری اورمالی مشکلات سے دوچارفنکاربھی بیرون ممالک کا رخ کرنے لگے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ  فنکاروں کی اکثریت اپنی نجی مصروفیات کی وجہ سے بیرون ممالک نہ جائیں توالگ بات ہے، وگرنہ زیادہ ترتواب بیرون ممالک میں پرفارم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

رواں ماہ کے دوران عیدالاضحی اورپاکستان کی جشن آزادی کے تہوارگزرے ہیں۔ دونوں ہی تہواروں میں پرفارمنس کیلئے پاکستان کے معروف فنکار ، جن میں استاد غلام علی خاں، راحت فتح علی خاں،  عابدہ پروین،  عاطف اسلم، شازیہ منظور، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی، شفقت امانت علی خاں، علی حیدر، سجاد علی ، ندیم عباس لونے والہ ، شجاعت علی خاں اور دیگرپرفارم کرنے کیلئے دنیا کے مختلف ممالک میں موجود تھے جس کی بڑی وجہ ایک طرف تووہاں موجود کمیونٹی کی جانب سے ان تہواروںکو بھرپورانداز سے منانے کیلئے گرینڈ ایونٹس کا انعقاد اب زیادہ ہونے لگا ہے اوردوسری جانب معروف فنکاروں کے علاوہ غیرمعروف فنکاروں اورسازندوں کو بھی ان تقریبات کا حصہ بنایا جارہا ہے۔

دیکھا جائے تویہ رجحان ایک طرح سے بہترہے ، کیونکہ اپنے ملک میں جس طرح کے حالات چل رہے ہیں اورپھرمیوزک کے شعبے کوخاص طورپرنظرانداز کرنے کا جوسلسلہ جاری ہے، اس میں گلوکاروںاور سازندوں کے پاس دوسراکوئی راستہ نہیں تھا۔ مگراس صورتحال میں اب اپنے ملک میں ہونے والے پروگرام اس طرح سے ناظرین اورشائقین کی توجہ کا مرکز نہیں بن پا رہے ، جس طرح سے ماضی میں ہوا کرتے تھے۔

ایسے  حالات میں میوزک کے شعبے پرخاص نظررکھنے والے سنجیدہ حلقوںکا کہنا ہے کہ بلاشبہ ہمارے فنکارکسی کے تعارف کے محتاج نہیں اوران کے چاہنے والے دنیا بھرمیں بستے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے گلوکاروں کی اکثریت اب دنیا کے بیشتر ممالک میں بڑے بڑے میوزک کنسرٹس میں پرفارم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف  تووہ اکیلے پرفارم کر رہے ہوتے ہیں تواکثرمقامات پران کے ساتھ بھارتی میوزک انڈسٹری کے بڑے بڑے نام شامل ہوتے ہیں۔

دیکھا جائے تویہ سب بہت اچھا بھی ہے لیکن تکلیف دہ امر یہ ہے کہ پاکستانی گلوکاروں کی پرفارمنس پرجہاں لوگوں کی بڑی تعداد رات بھرجھومتی رہتی ہے، وہیں اپنے ملک کے باسی ان عمدہ پرفارمنس کوترستے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب گزشتہ برسوں کے دوران پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر بہت سے گلوکار اب توپاکستان واپس آنے کا نام بھی نہیں لیتے، بلکہ بہت سے فنکاروں نے تومغربی ممالک کی شہریت کیلئے بھی درخواستیں دے رکھی ہیں۔ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

خاص طورپرنئی حکومت جہاں ملک کے تمام شعبوں کی بحالی اورترقی کیلئے منصوبہ بندی کرنے جارہی ہے، وہیں فنون لطیفہ کے شعبوں سے وابستہ بڑے فنکاروں کی بقاء اورترقی کیلئے اقدامات بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگرابھی اس بارے میں نہ سوچا گیا تومعروف گلوکاروں کی اکثریت کواپنی ہی جنم بھومی پرآنے کیلئے ’’ویزہ ‘‘لینا پڑے گا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کسی بھی ملک اورقوم کی پہچان اس کے فن اورثقافت سے ہوتی ہے۔ اس لئے اپنے ملک کے فن اورفنکاروںکو بچانے اورانہیں بیرون ممالک تک محدود رہنے سے دوررکھنے کیلئے ایسی پالیسی ترتیب دی جائے، جس کی بدولت فنکاروںکو پاکستان میں رہتے ہوئے کسی قسم کی دشواری اورعدم تحفظ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ہمیں فنکاروں کے بیرون ممالک پرفارم کرنے سے اعتراض نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی فنکاراپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ سفیر اگراپنے ملک میں میوزک انڈسٹری کے بحران میں کمی کے آثارنہ دکھنے کی وجہ سے بیرون ممالک منتقل ہونے کی بات کرنے لگے توپھرپاکستان میں فنون لطیفہ کے شعبے سے وابستہ لوگ اسی راستے کواپنانے لگیں گے۔ ہمارے ملک کے باصلاحیت فنکارکہنے کوہونگے ، پاکستانی لیکن ان کے فن سے صرف وہی لوگ محظوظ ہوتے رہیں گے جویورپ، امریکہ اوردیگرممالک میں بستے ہیں۔ اس لئے حکومت کواس شعبے کی بہتری کیلئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔