خیبر پختو نخو ا، امید اور خو ف

طلعت حسین  جمعـء 24 مئ 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official

www.facebook.com/syedtalathussain.official

پا کستان میں سیاسی فضا امید اور خو ف میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طرف انتخا بی نتا ئج کی آتش جواں ہے۔ احتجاجی د ھر نو ں کے باوجود یہ توقع کی جا رہی ہے کہ گزشتہ دور کی نحوستیں ختم ہو جائیں گی اور ہماری قوم اچھی حکومت کے قصے صر ف خلافت راشد ہ کے دور سے کشید نہیں کرے گی بلکہ حقیقت میں د یکھ پا ئے گی۔

مگر دوسر ی طر ف یہ خد شہ، کہ اگر انتخابات میں ک یے گئے وعد ے وفا نہ ہوئے تو کیا ہو گا، ہر دل میں موجود ہے۔ بر ے تجربات سے گندھے ہو ئے ذہن خوشخبری کی تراوٹ کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ مسلسل دھچکوں سے بنی ہوئی قومی نفسیات پرسکون پانیوں میں بھی ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔

اندھیروں اور اجالوں کا تانا بانا شاید ہی کسی صوبے میں اتنا نمایاں ہو جتنا خیبر پختو نخوا میں ہے۔ یہاں پر توقعات کی فہرست طویل ہے جس کو بنانے میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جیسی اتحادی جماعتوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس زخم خوردہ صوبے کی پہلی ضرورت ایک ایسے امن کا قیام ہے جو سیاسی طور پر سب کو قابل قبول ہو‘ فوری طور پر قابل عمل بھی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے خو ن خر ابے کے خا تمے کا باعث بھی بن سکے۔ پاکستان تحریک انصا ف اور جماعت اسلامی مل کر طالبا ن سے بات چیت کا آغاز کرنا چاہتی تھیں۔

اب سیاسی طاقت حاصل کرنے کے بعد انھیں اس نیت کو نتیجہ خیز بنانا ہے۔ مرکز سے آنے والی آواز بھی امید افزا ہے۔ میاں محمد نواز شریف بھی اسی رخ سے مذاکرات کو دیکھ رہے ہیں جس پر صو بے کی یہ مقتدر جماعتیں جانا چاہتی ہیں۔ بات چیت کے اس عمل کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ اسکولوں اور کالجوں کو تباہ کرنے والے مارکیٹو ں کو بموں سے اڑانے والے، فوجیو ں کے سر قلم کر نے والے، اور پاکستا ن کے قیمتی اثاثو ں پر منظم حملہ کرنے والے تمام گروپ صرف اسی و جہ سے لڑائی لڑ رہے ہیں کہ پاکستان امریکا سے تعاون ختم کر دے ۔

اس تعاون سے مراد کیا ہے‘ اس کا جواب ابھی کسی کے پا س نہیں لیکن یہ سوچا جا سکتا ہے کہ شاید یہ گروپ بھی سی آئی اے کی سرگرمیو ں سے لے کر افغانستا ن میں نیٹو کی کارروائیو ں کو مکمل طور پر ختم ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ بات چیت کے عمل کی شروعات اور اس کی کامیا بی اس مفروضے کے صحیح ہو نے سے مشروط ہے۔ مگر اس ضمن میں یہ یاد دہانی کروانی ضروری ہے کہ افغانستان کی حد تک امریکا اور نیٹو کی کارروائیاں اختتا م پذیر ہو رہی ہیں۔

محدود پیمانے پر جھڑپیں اگرچہ جاری ہیں مگر رسمی طور پر با ت چیت کے ایک جامع عمل کا آ غاز بھی ہو چکا ہے۔ افغان طالبا ن اور سابق شمالی اتحاد کے درمیان امریکا کی مشاورت سے بات چیت شروع ہے (کرزئی صاحب کی ہندوستا ن یاترا کے پیچھے اصل غصہ بات چیت کے اسی عمل کے آ غاز پر ہے جس میں ان کو اپنا کوئی واضح کردار نظر نہیں آتا لہٰذا وہ اپنا مال یورپ اور اپنی سیاست ہندوستان منتقل کر رہے ہیں) اگلے چند ہفتو ں میں یہ سلسلہ زور پکڑ ے گا۔

عین ممکن ہے کہ افغا نستا ن کے اندر باقاعدہ امن مذاکرات شروع ہو جائیں جس میں قیدیوں کے تبادلے افغانستا ن کے آئین کی تابعداری اور مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں طالبان کی شرکت وغیرہ طے پا جائے۔ اس تناظر میں جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کا یہ مطالبہ کہ افغانستان میں مداخلت ختم ہونی چاہیے عملاً منظور ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ جب امریکی فوجوں اور جنگی سامان کا انخلا بھی شروع ہو نے کو ہے تو مقامی طور پر پاکستانی طالبان سے بات چیت کا ماحول سازگار ہو جانا چاہیے۔

مقا می طالبان کو پاکستا ن کی سرزمین پر اب اپنی کارروائیاں منسوخ کر دینی چاہئیں مگر ایسا نہیں ہوا سب کچھ جوں کا توں ہے۔ کو ئٹہ اور پشاور میں ہونے والے واقعات نے یہ ثا بت کر دیا ہے کہ افغانستا ن میں بدلتا ہوا ماحول پا کستان کے اندر طالبان سے بات چیت کے راستے کو ہموار نہیں کر پا رہا ۔

اب اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلا می، پاکستانی طالبان کے ساتھ بات چیت کا مرکزی نقطہ کس معاملے کو بنا ئیں گی؟ امریکی افواج کا انخلاء اور افغانستا ن میں ہونے والی امن بات چیت اگر کافی نہیں ہے تو پھر ملک کے اندر حملے رکوانے کے لیے کن امور پر سمجھوتا ہو گا؟ دونوں جماعتوں کے نمایندگان ان سوالو ں کو ٹال دیتے ہیں اور حیر ت انگیز طور پر اعتماد کے ساتھ مستقبل کا مثبت نقشہ کھینچتے ہیں۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو اب ان پتھروں میں سے دودھ کی نہر نکالنی ہو گی۔

پاکستان تحریک انصاف ابھی تک پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان اقدامات کی سربراہی عمران خاں خود کر رہے ہیں۔ انھوں نے بستر علالت سے اٹھنے کے بعد پہلا خطاب کراچی کے کارکنوں کے بجائے اسلام آباد ڈی چوک کے مظاہرین سے کیا۔ اس سے ان کی سیاسی ترجیحات کی ایک جھلک ملتی ہے۔ اگر یہ ترجیحات یونہی رہیں تو مرکز میں نواز لیگ کی تحریک انصاف سے ٹھنی رہے گی۔

خیبر پختونخوا اور فاٹا میں امن کے نکات پر ہم آہنگی اور تعاون بری طرح متاثر ہو گا وہ اہداف جو ابھی سے لوگوں کے ذہنوں میں وعدوں کے ذریعے راسخ کیے جاچکے ہیں۔ ماضی کی طر ح نظروں سے اوجھل بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس صوبے میں حالات کو تبدیل کرنے کے لیے جس فہم و فراست کی ضرورت ہے اس کا مظاہرہ ابھی تک نہیں ہوا۔

امید کی فضاؤں میں فکر کا یہ بادل بھی منڈا لا رہا ہے کہ تمام تر مینڈیٹ کے باوجود فروعی معاملات کہیں ذہنو ں پر قابض نہ ہو جائیں اگر ایسا ہوا تو یہ خیبر پختونخوا کے لیے دہشت گردی کے سانحے سے بڑا دھچکا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔