خطہ پوٹھوہار کے دومایہ ناز فرزند

نصرت جاوید  جمعـء 24 مئ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بہت سے اخباروں میں بیرونی صفحات پر خبر دی گئی ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے چینی وزیر اعظم کے اعزاز میں جو ظہرانہ دیا، اس میں سینیٹر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان صاحب بھی نمایاں طور پر شریک تھے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے ان کی ایوانِ صدر سے دوری کی خبریں بڑے تواتر سے شایع ہو رہی تھیں۔

وہ خود خاموش رہے پھر لال حویلی کے مفکر کی مانند تنہا اینکر پرسنز کے ساتھ بیٹھ کر پروگرام کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ چونکہ ان ٹاک شوز میں انھوں نے خود کو بڑا بردبار رکھا اور اکثر سوالوں کا جواب فلسفیانہ مسکراہٹوں کے ساتھ No Comments کہہ کر ٹالتے رہے، اس لیے مولوی مدن والی بات نہ بن پائی۔ بالآخر موصوف نے کالم نگاری کی طرف رجوع کر لیا۔ جب ان کا کالم چھپتا ہے تو میں بڑے شوق سے ایک سے زیادہ بار پڑھنے کی کوششں کرتا ہوں۔ چونکہ میرا علم بہت سطحی ہے، اس لیے ان کے فرمودات کو اکثر سمجھ نہیں پاتا۔

ہاں کبھی کبھی شبہ ہوتا ہے کہ وہ قوم کو جاگیردارانہ تسلط سے آزاد کرانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ عدلیہ کے بارے میں Mother of all Trials کا ذکر کرتے ہوئے بھی وہ کچھ انہونیوں کی طرف اشارے کرتے رہے ہیں۔ فخرو بھائی اور ان کا الیکشن کمیشن روز اول سے ان کی زد میں رہے۔ سینیٹر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان صاحب کا اپنا ایک ٹویٹر اکاؤنٹ بھی ہے۔ اس کے ذریعے وہ عموما اشعار کے ذریعے اپنے دل کی بات کہہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک اجڈ رپورٹر ہوتے ہوئے میں استعاروں اور تلمیحات میں کہی باتیں سمجھ ہی نہیں پاتا۔

بہر حال ان کی ایک طویل وقفے کے بعد ایوانِ صدر آمد ایک خبر بنی تو کم از کم ایک رپورٹر نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ سینیٹر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان صاحب کو آصف علی زرداری چینی وزیر اعظم کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں بلانے کے لیے ایک خاص وجہ سے مجبور ہوئے۔ 11 مئی کے نتائج آ جانے کے بعد سے اسلام آباد میں یہ افواہ گردش کرنا شروع ہو گئی تھی کہ پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ایوانِ بالا کے رکن بنے لوگوں میں سے اکثر اب زرداری صاحب کے خلاف بغاوت کے لیے تیار ہے۔

شاید وہ انفرادی کے بجائے اجتماعی طور پر کوئی فاروڈ بلاک بنا کر زرداری صاحب کے لیے مشکلیں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ گزرے چند مہینوں سے سینیٹر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان صاحب کا روٹھ کر ایک کونے میں بیٹھ جانا شاید ان کے لیے اس ممکنہ بلاک میں نمایاں جگہ بنا سکتا ہے۔ اسی لیے تو گھبراہٹ میں صدر زرداری کو سینیٹر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان یاد آ گئے۔ انھیں ایوانِ صدر بلوا کر لوگوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ پیپلز پارٹی کے سارے سینیٹر اکٹھے ہیں۔ ان میں سے کوئی فاروڈ بلاک نکالنے کی توقعات نہ باندھی جائیں۔

میں آصف علی زرداری کو صرف ایک صحافی کے طور پر جانتا ہوں۔ سینیٹر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر سے تو ان کی بڑی گہری دوستی رہی ہے۔ ان دونوں کی باہمی قربت کا اندازہ لوگوں کے ایک ہجوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جو آصف علی زرداری کے والد کی موت کا پرسہ دینے ایوانِ صدر کے ایک بڑے ہال میں بیٹھا ہوا تھا۔ صدر مملکت کی وہاں آمد سے پہلے سامنے کی دیوار کے قریب دو کرسیاں لگائی گئیں۔ اپنی آمد کے بعد ایک پر زرداری بیٹھے دوسری پر سینیٹر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان۔

گویا ان دونوں نے ایوانِ صدر میں موجود لوگوں سے سگے بھائیوں کی مانند حاکم علی زرداری کی وفات کا پرسہ لیا۔ اس سے زیادہ قربت کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود میں یہ بات کہنے سے ہرگز نہیں گھبراؤں گا کہ آصف علی زرداری کی ذات اور سیاست میں ہزاروں خامیاں ہو سکتی ہیں مگر وہ کسی فارورڈ بلاک سے گھبرانے والے نہیں۔

کافی سخت جان ہیں۔ اپنے اچھے وقتوں کے مقابلے میں بُرے دنوں کا مقابلہ ہنستے مسکراتے کیا کرتے ہیں۔ ویسے بھی اگر کوئی فارورڈ بلاک بنا تو اس کا فائدہ نواز شریف کی حکومت کو ملے گا۔ خواجہ آصف اور شہباز شریف نندی پور پاور پلانٹ کی تکمیل نہ ہونے کی جو وجوہات گنواتے رہے انھیں بس یاد کر لیجیے اور خود ہی یہ فیصلہ بھی کہ سینیٹر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان ایوانِ بالا میں ان دونوں کی حکومت کی کیا مدد فرما سکتے ہیں۔

سینیٹر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان کی طرح خطہ پوٹھوہار کے ایک اور ہونہار بروا جناب شیخ رشید بھی اس تقریب میں مدعو تھے۔ ان کی باتیں بھی خبریں بنانے میں بڑی مدد گار ثابت ہواکرتی ہے۔ موصوف بہت خوش تھے کہ اب قومی اسمبلی میں نشستیں حاصل کرنے کے حوالے سے ان کی جماعت جس کا نام میں فی الوقت بھول رہا ہوں گجرات کے چوہدریوں اور خیبرپختون خوا کے سرخ پوشوں کے مقام و مرتبے کے برابر آ گئی ہے۔ ایسے بلند مقام پر فائز ہو جانے کے بعد انھوں نے ایک Statesman ہونے کی ٹھان لی ہے۔

اس حوالے سے انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان پل کا کردار ادا کریں۔ وہ کامیاب ہو گئے تو عمران خان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن جائیں گے اور پیپلز پارٹی کا سیاسی قد کاٹھ مزید چھوٹا ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی میں بیٹھے اس کے اراکین بس حاضریاں لگا کر گھر چلے جایا کریں گے اور سندھ میں متحدہ کی حمایت کے بغیر صوبائی حکومت بھی زیادہ دنوں تک نہ چلا پائیں گے۔ رہی نواز شریف کی مسلم لیگ کی بات تو اس کو قومی اسمبلی میں ناکوں چنے چبوانے کے لیے وہ اکیلے ہی کافی ہیں۔

گزشتہ اسمبلی کو ٹی وی اسکرینوں پر بڑی تحقیر سے موصوف ’’لُولوں، لنگڑوں اور بہروں‘‘ کی اسمبلی کہا کرتے تھے۔ اب وہ خود اسمبلی کے رکن بن گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے 20 سے زیادہ پہلی بار کسی اسمبلی میں پہنچنے والے لوگوں کی توانائیاں ان کے ساتھ ہیں۔ راولپنڈی کے عوام ان کی ایک کال پر اسلام آباد کی ناکہ بندی کر سکتے ہیں۔ اب میاں صاحب من مانیاں نہ کر پائیں گے۔ بالآخر مجبور ہو کر لال حویلی پہنچ جائیں گے اور اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے ہوئے شیخ صاحب کو اپنی پاکستان مسلم لیگ میں ضم کر دینے کے بعد کابینہ کا وزیر بنانے کے لیے التجائیں کرتے نظر آئیں گے۔ المختصر آصف علی زرداری اور نواز شریف اب اپنی سیاسی بقاء کے لیے خطہ پوٹھوہار کے دو مایہ ناز فرزندوں کے محتاج بن چکے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔