سب کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 24 مئ 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہم اور ہماری طرح سوچنے والے ایک عرصے سے جمہوریت کی مالا جپنے والوں اور حکمرانوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی خدمت، عوام کے مسائل کو حل کرنا، عوام کی بدتر زندگی میں بہتری لانا اور حکومتی فیصلوں میں عوام کو شریک کرنا ہے۔ لیکن پاکستان کی پوری جمہوری تاریخ جمہوریت کے ان مقاصد سے متصادم رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ نے جمہوریت کو کمائی کا طریقہ سمجھ لیا ہے ۔

جمہوریت کو چلانے کے لیے ہر جمہوری ملک میں ایک آئین بنایا جاتا ہے جس میں اور بہت ساری احتیاطوں کے یہ احتیاط بھی برتی جاتی ہے کہ ریاستی اداروں کو باہمی تصادم سے بچانے کے لیے ان کے دائرہ کار، ان کی حدود کا تعین کردیا جاتا ہے۔

ہماری جمہوری تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے اپنی انتہائی خراب کارکردگی سے ایسے حالات پیدا کیے کہ فوجی مداخلت کی راہ ہموار ہوئی۔ یہی نہیں بلکہ سیاسی دشمنیاں اس حد تک بڑھیں کہ خود سیاست دانوں نے کھلے عام فوج کو سیاسی مداخلت کی دعوت دی۔ یہی نہیں بلکہ فوجی مداخلت پر مٹھائیاں باٹیں اور نہ صرف فوجی حکومتوں کا حصہ بنے بلکہ سیاسی پارٹیاں بناکر فوجی آمروں کی خدمت میں پیش کیں۔ جس کا نتیجہ فوجی آمریت کی طوالت کی شکل میِں نکلا۔

آج ہمیں اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کی ملک ایک بار پھرانتشار کی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے، اپنے سیاسی مفادات میں اندھے لوگ اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے کہ ان کی آپس کی لڑائیاں انھیں کس طرف لے جارہی ہیں؟ پچھلے دنوں ہمارے آرمی چیف جنرل پرویز اشفاق کیانی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جو پراسرار اشارے دیے ہیں کیا وہ ملک میں پھیلتی بڑھتی انارکی کے حوالے سے انتباہ کی حیثیت رکھتے ہیں؟ اس تقریر میں کیانی صاحب نے جمہوریت کے حوالے سے وہی بات بڑے شائستہ انداز میں دہرائی ہے جس کا اظہار ہم ایک عرصے سے اپنے کالموں میں کرتے آرہے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’جمہوریت عوام کی خوشحالی سے مشروط ہوتی ہے‘‘ میں حیران ہوں کہ کیانی صاحب کے اس کمنٹ کو ملک کے بدترین حالات میں اسے ایک انتباہ سمجھوں یا جمہوریت کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر فوج کی تشویش سے تعبیر کروں؟

مسلم لیگ ن کو مرکز میں اتنی نشستیں مل چکی ہیں کہ اسے کسی سیاسی جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں۔ پنجاب میں اسے دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہوچکی ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں ہوتا یہی ہے کہ جیتنے والی جماعت بلا خوف وخطر مرکز اور صوبے میں اپنی حکومتیں بناتی ہے اور ٹھاٹھ سے حکومت کرتی ہے، لیکن میں اسے شریف برادران کی شرافت کہوں، ان کا عجزکہوں، قوم وملک سے ان کی والہانہ محبت کہوں کہ یہ لوگ اتنی سیاسی طاقت رکھنے کے باوجود نہ صرف ’’سب کو‘‘ ساتھ لے کر چلنے کی باتیں کررہے ہیں، بلکہ اس حوالے سے عملی اقدامات کرتے بھی نظر آرہے ہیں۔

مثلاً اپنے سب سے بڑے حریف عمران خان کی عیادت کے لیے جانا اور انھیں قومی مسائل کے حل میں ساتھ چلنے کی پیشکش کرنا اور عمران خان کی طرف سے میاں صاحب کے ساتھ چلنے پر رضامند ہونا، مولانا فضل الرحمن سے شہباز شریف کا بہ نفس نفیس ملنا اور 8،9 نشستوں کے باوجود انھیں اپنی حکومت میں شمولیت کی پیشکش کرنا اور مولانا کی روایات کے مطابق حکومت میں شامل ہونے کی پیشکش کو قبول کرنا، چھوٹی چھوٹی غیر معروف جماعتوں کو خوش دلی سے اپنی بڑی جماعت میں ضم کرنا، درجنوں آزاد امیدواروں کو اپنی جماعت میں شامل کرنا، یہ سارے اقدامات مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ ظرفی اور ملک وملت سے ان کی محبت، جمہوریت کے استحکام کی ایسی علامتیں ہیں جن کی توصیف ہی کی جاسکتی ہے۔

پیپلزپارٹی انتخابی شکست کے باوجود اب بھی بڑی جماعتوں میں شامل ہے۔ سندھ میں سندھی قوم پرستوں سے اس کی لڑائی بہت پرانی ہے، پیپلزپارٹی نے سندھ میں 68 نشستیں حاصل کی ہیں، یوں وہ سندھ کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے، لیکن سندھ کے قوم پرست اس پر دھاندلی کا الزام لگاکر اس کے خلاف مظاہرے، دھرنے اور ہڑتالیں کررہے ہیں۔ حیرت ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرنے والے میاں صاحبان سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف دھرنوں اور ہڑتالوں کی حمایت کررہے ہیں اور فنکشنل لیگ کو جو پیپلزپارٹی کی مخالف ہے اور پیپلزپارٹی سے بہت کم نشستیں رکھتی ہے اپنی حکومت میں شامل کررہے ہیں! کیا ان اقدامات سے ’’سب کو ساتھ لے کر چلنے‘‘ کی نیک خواہش میں مدد مل سکتی ہے؟

اگر میاں برادران ملک وقوم کی بھلائی اور عوام کے مسائل کے حل کی بات کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تو یہ ایک مثبت رجحان ہے، لیکن یہ ایک ایسا کٹھن اور مشکل کام ہے کہ اسے انجام دینے کے لیے عداوت، تعصبات، دشمنی، جانبداری، امتیازات، کجروی، زبان، قومیت کے تعصبات، ذاتی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہوکر آگے بڑھنا پڑے گا۔ اس کے باوجود اس تقسیم شدہ متعصب معاشرہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی ملیں گی، قدم قدم پر منفی رجحان رکھنے والی طاقتیں ہوں گی۔ جو بھی ہو، جیسی بھی ہو، جمہوریت کو کسی بڑے حادثے سے بچانے کا شاید یہ آخری موقع ہے۔
اب میاں صاحبان کی سیاسی بصیرت، جمہوریت سے لگاؤ اور قومی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی والہانہ خواہش کی تکمیل کے لیے ایک سنہری موقع بھی ہے، لیکن اس موقع سے فائدہ اسی وقت اٹھایا جاسکتا ہے جب ذاتی اور جماعتی مفادات اور بورژوا سیاست سے بالاتر ہوکر واقعی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی اہلیت اور خلوص کا مظاہرہ کریں اور یہ ثابت کریں کہ جمہوریت عوامی خوشحالی سے مشروط ہوتی ہے نہ کہ ایلیٹ کی خوشحالی سے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔