سنجے دت کی سزا، آسمان کس پر ٹوٹا؟

ایس نئیر  جمعـء 24 مئ 2013
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

بھارت کی فلم انڈسٹری کے میگا اسٹار سنجے دت ساڑھے تین برس کی سزا پوری کرنے کے لیے جیل پہنچادیے گئے۔ جیل میں ان کو وہی کھانا ملے گا جو عام قیدیوں کو مہیا کیا جاتا ہے اور ان سے مشقت بھی لی جائے گی۔ بھارتی فلم انڈسٹری، بھارت کی ان صنعتوں میں شمار کی جاتی ہے جن سے حکومت کو اربوں کا ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ فلموں کے معیار سے قطع نظر بہ لحاظ تعداد بالی ووڈ، دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے۔ ایک کامیاب فلم اب صرف بھارتی مارکیٹ میں ہی باکس آفس پر سو کروڑ سے دو سو کروڑ تک کا بزنس چند ہفتوں میں ہی کرلیتی ہے۔ اسی تناسب سے بالی ووڈ کے اداکار اپنا معاوضہ بھی مقرر کرتے ہیں جو کروڑوں میں وصول کیا جاتا ہے۔ اس طرح بعض میگا اسٹارز پر اربوں روپے کا سرمایہ ’’گردش‘‘ کر رہا ہوتا ہے۔

یہ بہت بڑا رِسک ہے، جسے بھارتی فلمساز اور بڑے بینرز کے پروڈکشن ہائوسز اٹھانے پر مجبورہوتے ہیں، لیکن بھاری منافع کے ساتھ سرمایے کی واپسی اتنی پرکشش ہے، جو انھیں بخوشی یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ کرتی ہے۔ مثلاً تین بھارتی سپر اسٹار سلمان خان، شاہ رخ خان اور عامر خان اس وقت 10 کروڑ سے زائد فی فلم معاوضہ وصول کر رہے ہیں، پھر ان اداکاروں کی فلموں میں 70 سے 100 کروڑ کے درمیان سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ فلم کی تکمیل سے قبل یا آدھی فلم بن جانے کے بعد ان میں سے کوئی بھی اداکار موت سے ہمکنارہوجائے، معذور ہوجائے، بیمار ہوجائے یا زخمی ہوجائے تو فلمساز کا سارا سرمایہ منجمد ہوجاتا ہے۔

اب سنجے دت اس وقت کتنی فلموں میں کام کر رہا تھا؟ اس پر کتنا سرمایہ لگا ہوا تھا؟ مجھے اس کا علم نہیں۔ لیکن جن فلمسازوں نے اپنی فلموں میں سنجے دت کو مرکزی کردار میں کاسٹ کیا ہوا تھا، ان کی فلمیں سنجے دت کی واپسی تک رک جائیں گی اور سرمایہ منجمد ہوجائے گا۔ گویا 93 میں ہونے والے ممبئی بم دھماکوں کے کیس میں ملوث سنجے دت جو پہلے ہی اٹھارہ ماہ کی سزا اس کیس میں کاٹ چکے ہیں، اب بقیہ سزا پوری کرنے کے لیے جب جیل یاترا پر روانہ ہوئے تو ان فلمسازوں کے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا جنھوں نے سنجو بابا کو اپنی فلم میں کاسٹ کرکے ان پر سرمایہ کاری کی ہوئی تھی۔ سنجے دت کو اپنے جرم کی سزا تو ملنی ہی تھی اور اسے ملی بھی، لیکن یہ فلم ساز ایسے جرم کی سزا بھگتیں گے، جو انھوں نے کیا ہی نہیں اور یہی وہ انصاف کی شہرہ آفاق تعریف ہے کہ ’’انصاف، قانون کے مطابق ہر صورت میں کیا جائے، خواہ آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے‘‘۔ آسمان کس کے سر پر ٹوٹا؟ عدالت کو اس سے کوئی غرض نہیں۔

جن معاشروں میں قانون کی بالادستی قائم ہو، قانون کی نظر میں ہر شخص برابر ہو، وہاں ایسے ہی فیصلے کیے جاتے ہیں، ہر قسم کی مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر۔ پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آسمان کس کے سر پر ٹوٹتا ہے۔ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے یا نہیں؟ فیصلہ انصاف کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟ قانون کی اسی حکمرانی اور بالادستی نے آج بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کے منصب پر فائز کر رکھا ہے۔ سیکڑوں زبانوں، درجنوں قومیتوں، مختلف مذاہب اور ایک دوسرے سے یکسر مختلف رسم و رواج اور کلچر رکھنے والے سوا ارب انسانوں کو صرف ایک ہی چیز نے متحد کر رکھا ہے اور وہ ہے انصاف اور قانون کی حکمرانی۔ اور قانون کی اس بالادستی کا ماخذ ہے بھارت کا جمہوری نظام، جس کا تسلسل گزشتہ 66 برس سے تاحال جاری ہے۔ یہ اسی جمہوریت کا ثمر ہے کہ وہاں ایک انتہائی طاقتور متوسط طبقہ وجود میں آچکا ہے، جو تین عشرے قبل تک ناپید تھا۔

یہ متوسط طبقہ کسی بھی ریاست کے معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، جس پر ریاست کی پوری معیشت کھڑی ہوتی ہے۔ بھارت میں غربت بھی بے پناہ ہے، لیکن خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے تو امریکا میں بھی موجود ہیں۔ غربت ہر معاشرے میں موجود ہوتی ہے، لیکن کس حد تک؟ دیکھا یہ جاتا ہے کہ متوسط طبقہ کتنی بڑی تعداد میں موجود ہے۔ اگر متوسط طبقہ کی ایک بڑی تعداد ریاست میں موجود ہے اور اس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے بتدریج خط غربت سے اوپر آرہے ہیں اور خط غربت پر زندگی بسر کرنے والے اوپر سفر کرکے نچلے متوسط طبقے میں اور نچلا متوسط طبقہ، متوسط طبقے میں مسلسل شامل ہو رہا ہے۔ یعنی رفتہ رفتہ ریاست کے عوام کی فی کس آمدنی بڑھ رہی ہے اور وہ بتدریج خوشحال ہوتے جارہے ہیں۔ گویا ریاست خوشحالی کی طرف گامزن ہے۔

جب عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہونے لگتا ہے تو عوام کا معیار زندگی خود بخود بلند ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بھارت کے متوسط طبقے کی آمدنی اتنی ہوچکی ہے کہ وہاں کا سائیکل رکشہ چلانے والا جو انتہائی غریب کہلاتا ہے، ہفتے میں ایک فلم ضرور دیکھتا ہے۔ فلم، کرکٹ اور سیاست۔ یہ تین چیزیں وہاں کے عوام کی زندگیوں میں رچ بس چکی ہیں۔ آج کل آپ آئی پی ایل کے مقابلے دیکھ لیں اسٹیڈیم بھرے نظر آتے ہیں۔ کیا ہمارے عوام کی قوت خرید اتنی ہے کہ بیس ہزار ماہانہ آمدنی رکھنے والا ایک خاندان مہینے میں ایک مرتبہ اپنی فیملی کے ساتھ سینما ہال میں ٹکٹ خرید کر فلم دیکھ سکے یا کرکٹ اسٹیڈیم میں ٹکٹ خرید کر کرکٹ میچ دیکھ سکے؟ جن معاشروں میں صرف دو طبقے موجود ہوں انتہائی امیر اور انتہائی غریب وہاں اسٹیڈیم، سینما ہال اور بازار ویران ہی نظر آتے ہیں۔ جن ریاستوں کے معاشی منیجرز بجائے اکنامسٹ کے، بینکرز ہوں وہاں معیشت کا یہی حال ہوتا ہے، جو ہمارا ہے۔

ایک اکنامسٹ روزگار کے نئے نئے وسائل پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ جب کہ ایک بینکر محدود آمدنی رکھنے والے کو مہنگی اشیاء خریدنے پر راغب کرتا ہے اور اس کے لیے وہ خریدار کو قرض کی پیشکش کرکے سود کی مد میں اپنے بینک کے لیے منافع حاصل کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں انصاف اور قانون کے دہرے معیار موجود ہوں، جو عام آدمی کو تو گرفت میں لاتے ہوں اور سنجے دت جیسی سلیبرٹی کو دیکھ کر قانون اپنا منہ دوسری طرف کرلے تو ایسی ریاستیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی بارگاہ میں ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہیں۔ دوسری طرف من موہن سنگھ انھی اداروں سے پوچھتا ہے کہ ہمارے پاس تین سو ارب ڈالرز کے ریزرو موجود ہیں اگر ہم ان کی سرمایہ کاری کریں تو انٹرسٹ ریٹ ہمیں کیا ملے گا؟ ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں بشرطیکہ کوئی جسٹس سنہا، سٹنگ وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دینے کی جرات رکھتا ہو، خواہ اس کے ردعمل میں ایمرجنسی کے نفاذ کا آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے۔ اور اب خدا کا شکر ہے کہ عدلیہ کی جانب سے اس کی شروعات ہوچکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔