انسان کی بشری کمزوریاں اور نفسیات (پہلا حصہ)

الطاف حسین  جمعـء 24 مئ 2013

انسان پر اپنے اردگرد کے ماحول کے اثرات کس طرح پڑتے ہیں اور جس رنگ میں انسان جاتا ہے وہی رنگ اس پر چڑھ جاتا ہے اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جب انسان مشکل حالات سے پرسکون حالات میں اور پریشان کن حالات سے آرام دہ حالات میں داخل ہوتا ہے تو عموماً اپنے ماضی کے حالات کو بھول جاتا ہے اور پھر وہ جن پرسکون حالات، آرام دہ حالات میں جاتا ہے وہ رنگ اس پر غالب آنے لگتا ہے۔

اگر زندگی اتنی سہل اور آسان ہو کہ انسان کو اگر پیاس لگے تو اپنے اطراف موجود کارکنوں کو نوکروں کو دیکھے اور صرف اشارہ کرے تو پانی کا گلاس اس کے سامنے فوراً ہی آجاتاہے اور جب یہ عادت پڑجائے تو پھر انسان پیاس لگنے کے باوجود اگر اردگرد نوکر چاکر نہ ہوں تو پیاسا رہنا ہی پسند کرتا ہے کہ بس جیسے ہی نوکر آئے گا یا نوکر چاکر آئیں گے تو میں پانی مانگ کر پی لوں گا، یعنی پھر وہ پانی کا گلاس بھرنے کی تکلیف اٹھانا بھی پسند نہیں کرتا اور پھر وہ اس زندگی کو اس رہن سہن کے طریقوں کو Taken for Granted  کی صورت میں اس طرح لے لیتا ہے کہ جیسے یہ حالات یہ سکون اور یہ سہولتیں اسے ہمیشہ میسر رہیں گی اور اگر اس کے حالات تبدیل ہوجائیں پرسکون اور آرام دہ حالات سے واپس کٹھن، مشکل اور پریشان کن حالات آجائیں۔

تمام کاروبار ختم ہوجائے، تمام املاک فروخت ہوجائیں اور انسان قرضوں کے بوجھ تلے اتنا دبتا چلا جائے کہ اس کی باقی ماندہ جائیداد حکومت یا انتظامیہ یا حکومتی ادارے ضبط کرلیں اور اسے سڑک پر نکال پھینکیں تو عموماً ایسے لوگ آرام دہ پرسکون زندگی کے ماحول کے اس طرح اسیر ہوجاتے ہیں، آرام دہ ماحول کے پرسکون رہن سہن کے طریقوں کے اس طرح عادی ہوجاتے ہیںکہ ان کی محنت مشقت کرنے کی عادت سرے سے ختم ہوجاتی ہے، تو آپ نے کہانیوں میں ناول کے اندر افسانوں میں ایسے بہت سے سچے واقعات پڑھے ہوں گے کہ دیکھو کوئی کسی کو اس طرح بتاتا ہے، دیکھو فٹ پاتھ کے اوپر میلی چادر کے اوپر بیٹھا آدمی جسے چلتے پھرتے راہ گیر اس کی حالت دیکھ کر چند سکے چادر پر پھینک جاتے ہیں، تو پتہ ہے یہ آدمی کون ہے ؟ تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ آدمی تھا جس کے کل محلات تھے، بہت بڑا کاروبار تھا اور آج یہ بھیک مانگنے پر مجبور ہے کیونکہ وہ پرسکون حالات کا اسیر ہونے کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے۔

کسی اور وجہ سے مجبور نہیں ہوتا وہ اگر چاہے تو چادر لپیٹ کر بھیک مانگنے کے بجائے محنت، مزدوری اور مشقت کرکے بھیک کے بجائے اپنی محنت کی روزی روٹی کماسکتا ہے، تین وقت کی نہ سہی دو وقت کی روٹی کھا کر پیٹ بھر سکتا ہے لیکن یہاں صرف اس کی آرام دہ پرسکون زندگی عیش و آرام والی زندگی کا ہی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ جیسا کہ میں نے کہا کہ وہ عادی ہوجاتا ہے اس ماحول کا وہاں اس ماحول میں رہنے کے ساتھ ساتھ اس کی انا بھی اس مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ کام کرتے ہوئے تو اسے شرم آتی ہے کہ…. میں اس مقام پر رہنے والامیرے ہزاروں، سیکڑوں میرے نوکر چاکر تھے اور میں آج خود محنت مزدوری کروں۔

تو اس کی انا بھی اس کے آڑے آجاتی ہے اور وہ بھیک مانگنے کو زیادہ بہتر جانتا ہے نسبتاً محنت و مشقت کرنے کے لیکن جو اپنی انا کے یعنی عیش و آرام کی زندگی میں جس مقام پر وہ تھا اور اس مقام پر رہ کر اس کی انا جہاں پہنچ گئی تھی اگر وہ اس کا اسیر نہیں ہوتا ہے اور انانیت کا شکار نہیں ہوتا ہے اور انا کا اسیر، انا کا غلام نہیںبنتا ہے تو ایسا آدمی پریشان کن حالات میں قدم رکھنے کی باوجود بھیک مانگنے کے بجائے محنت و مشقت کرکے حق حلال کی روزی خواہ وہ دو وقت کی روٹی اسے میسر کراسکے، وہ محنت و مشقت کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔

انسانی نفسیات Human psychology جو ہے، انسانی نفسیات کے تحت عموماً ایسا ہی ہوتا ہے خواہ مقام کتنے ہی ایک دوسرے سے مختلف کیوں نہ ہوں، مثال کے طورپر انسان جب کسی تحریک کا کارکن بنتا ہے تو وہ دریاں بچھانے، زمین میں گڑھے کھودنے، تنظیم کے کسی بھی جلسے کے انتظامات ہوں کسی بھی پروگرام کے انعقاد کا مسئلہ ہو، اس میں کام کرتے ہوئے نہ تو اپنے کپڑوں کی پرواہ کرتا ہے نہ ہی اسے یہ محنت کا کام کمتر درجے یا حقارت کا نظر آتا ہے، لیکن عموماً دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جب کارکن ترقی پاکر کسی ذمے داری کے منصب پر فائز ہوتا ہے اور کچھ عرصے اس منصب پر رہنے کے بعد مزید اس بڑے منصب پر پہنچتا ہے تو اب اس کا ذہن یہ بنتا ہے کہ اسے اب اگلے مناصب کی اگلی سیڑھی پھر اس کے بعد اس کی اگلی سیڑھی پر جانا ہے۔

کبھی وہ پلٹ کے یہ نہیں سوچتا کہ مجھے واپس نیچے سیڑھی پر بھی جاکر واپس کارکن کی سطح پر آنا ہے اور جب الیکشن کی بنیاد پر نئے ذمے دار آتے ہیں پرانی ذمے داریوں پر کام کرنے والوں کی اکثریت کارکن کی حیثیت میں واپس آکر وہ دوبارہ کام کرنے کے لیے اس طرح تیار نہیں ہوتی جو کل تک گڑھے کھودنے دریاں بچھانے کے لیے تیار رہا کرتی تھی اور یہ ہی محنت کے کام کرکرکے انھوں نے آگے مناصب حاصل کیے کیونکہ مناصب کے بڑھتے بڑھتے اس کی انا بھی بڑھنے لگی ہے اور پھر انا اس درجے پر پہنچ جاتی ہے کہ جہاں وہ کارکن بن کر کام کرنے میں اپنی ذلت رسوائی اور بے عزتی تصور کرتا ہے۔

زبانی طور پر تو ہر جگہ ہر ذمے دار یہ ہی کہتا ہے اور یہی کہتا نظر آتاہوگا کہ میں تو صرف ایک ادنیٰ کارکن ہوں لیکن اس کے منہ سے زبانی ادا کیے جانے والے یہ کلمات کی عملی تصویر عملی شکل میں سامنے دیکھنے میں نہیں آتی، اگر وہ اونچے منصب سے کارکن کے منصب پر واپس آئے تو اور کسی Organisation۔ پرائیویٹ Organisation میں مناصب ملنے کی یہ صورتحال ہو یا کسی اور منصب پر کام کرنے کے لیے عموماً انسان جس منصب پر پہنچ جاتا ہے وہ اسے اپنے لیے حتمی سمجھنے لگتا ہے اور اس سے نیچے آکر کسی اور منصب پر کام کرنے کے لیے عموماً تیار نہیں ہوتا، اب تحریک اور نظریہ جو ہے وہ تو سرے سے چلا جاتا ہے اب اس کا نظریہ وہ منصب اور پوزیشن بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ اگر نظریہ اس کے ذہن پر حاوی ہو تو وہ کارکن بنائے جانے پر بھی یہ سمجھے کہ نظریاتی تحریک میں عہدے وقتی ہوتے ہیں، نظریہ یا نظریے کا حصول ہی پہلی اور آخری منزل ہوتی ہے۔

ہر تحریکی اور نظریاتی ساتھی کی یہ سوچ ہوجاتی ہے کہ تحریک مجھے کل فلاں منصب پر بٹھائے۔ آج تحریک نے مجھے کارکن کی صف میں بٹھایا تو تحریک ہی نے مجھے منصب پر بٹھایا تھا۔ تحریک ہی نے کارکن سے منصب دیا، منصب سے تحریک مجھے کارکن پر لے آئی، لہٰذا ہر دونوں صورتوں میں مجھے کام کرنا چاہیے، کارکن کے عہدے پر رکھا جائے یا کسی ذمے داری کے عہدے پر رکھا جائے کیونکہ مقصد میرا عہدوں یا مناصب کا حصول نہیں، نظریے مشن و مقصد کی کامیابی کا حصول میرا مشن ہے۔ میرا نظریہ ہے میری سوچ ہے میری فکر ہے میرا ایمان ہے۔ اسے کہتے ہیں انسان کی بشری کمزوریاں HUMAN WEAKNESSES، انسان کی فطری کمزوریاں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔