کاروباری برادری چراغ پا منی بجٹ کیخلاف ہر قدم اٹھانے کا اعلان

نگراں حکومت مینڈیٹ سےتجاوزکررہی ہے،152ارب کے ٹیکس اقدامات تھوپنےکی کوشش خلاف قانون ہے،ملک گیراحتجاج،عدالت بھی جائیں گے


Business Reporter May 25, 2013
منی بجٹ ایف بی آر کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے، ہارون اگر، زبیر موتی والا، فباٹی، بقاٹی، کاٹی، نکاٹی، سائٹ ودیگر ایسوسی ایشنزکے نمائندوں کیساتھ پریس کانفرنس۔ فوٹو: فائل

کراچی چیمبرآف کامرس اورساتوں ٹاؤن انڈسٹریل ایسوسی ایشنز نے مجوزہ منی بجٹ کوتسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نگراں حکومت نے 152 ارب روپے کا مجوزہ منی بجٹ تاجربرادری پر تھوپنے کی کوشش کی تونہ صرف کراچی بلکہ ملک بھر کے تاجروصنعتکار ہر راست اقدام کرنے پر مجبور ہوجائیں گے جس میں احتجاج، ہڑتالوں کے علاوہ عدالت سے رجوع کرنا بھی شامل ہے۔

رپورٹس کے مطابق صدر مملکت نے ابھی تک مذکورہ منی بجٹ سے متعلق آرڈیننس کی دستاویز پر دستخط نہیں کیے۔ کراچی چیمبر آف کامرس کے صدرہارون اگر نے کاروباری برادری کے دیگر نمائندوں کے ساتھ جمعہ کو پریس کانفرنس میں کہا کہ نگراں حکومت کا مینڈیٹ صرف شفاف انتخابات کا انعقاد تھا لیکن مالی سال 2013-14 کے وفاقی بجٹ سے 14 یوم قبل صدارتی آرڈیننس کے ذریعے منی بجٹ لانے کی کوششیں کر کے نگراں حکومت اپنے حد سے تجاوز کر رہی ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ مجوزہ منی بجٹ کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی۔ بزنس مین گروپ کے وائس چیئرمین زبیرموتی والا نے کہا کہ وفاقی سطح پر بجٹ پیش کرنا صرف نئی منتخب حکومت کا حق ہے لہٰذا نگراں حکومت ملک کے اقتصادی پالیسیوں میں مداخلت کرنے کے بجائے خوش اسلوبی کے ساتھ اقتدار حقداروں کے حوالے کرکے رخصت ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ تاجربرادری کا متفقہ طور پریہ طویل دورانیہ سے مطالبہ رہا ہے کہ سیلزٹیکس کی شرح کو16 فیصد سے گھٹاکرسنگل ڈیجٹ پر لایا جائے جس سے نہ صرف بے قاعدگیاں ختم ہوں گی بلکہ ریونیو کے حجم میں بھی اضافہ ہوسکے گا، نگران حکومت اورایف بی آرکی جانب سے ٹیکسوں میں وسیع البنیاد اضافے سے پاکستان بھرکی تاجروصنعتکاربرادری کوشدید دھچکا لگا ہے، نگراں حکومت کاتجویزکردہ منی بجٹ درحقیقت سال2013-14کا قبل از وقت بجٹ ہے جسے کراچی چیمبر اورشہرکی پانچوں ٹاؤن ایسوسی ایشنز، درآمدوبرآمدکنندگان کی تنظیمیں خلاف قانون تصور کرتے ہوئے مسترد کرتی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ نگراں حکومت کا منی بجٹ در اصل ایف بی آرکی سال 2012-13کے ریونیو اہداف کے حصول میں ناکامی پرپردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔

رجسٹرڈٹیکس دہندگان پرجنرل سیلزٹیکس اورود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں فوری اضافہ حقیقت میں ریونیواہداف کے حصول کاایک شارٹ کٹ ہے جو ایف بی آرکی ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے میں ناکامی ظاہر کر تاہے، متوقع صدارتی آڈیننس کے ذریعے نگران حکومت کے تجویز کردہ منی بجٹ سے ٹیکسوں میں ریلیف کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، ٹیکسیشن کے یہ سخت اقدامات مینوفیکچرنگ، ایکسپورٹ کے علاوہ دیگر شعبے کی صنعتوں اور کاروباری سرگرمیاں تباہ کرنے کے مترادف ہیں، پاکستا ن بھر کی تمام بڑی ٹریڈ باڈیز اور چیمبرز کی بجٹ تجاویز اور جی ایس ٹی کو 8 تا 9 فیصد کرنے کے مطالبے کے برعکس ایف بی آر نے جی ایس ٹی کو 17 فیصد بڑھانے کی تجویز دی ہے جس کے سبب ٹیکس چوری میں اضافہ ہو گا اور نئے لوگ جو ٹیکس کے دائرہ کار میں آنا چاہتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہوگی، جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ کرنے سے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ نہیں ہوگا، تمام رجسٹرڈ سیل ٹیکس دہندگان کوودہولڈنگ ایجنٹ بنانے سے سسٹم مزید پیچیدہ ہو جائے گااور بلیک اکنامی کے پروان چڑھنے کا سبب بنے گا۔



ایف بی آر کے ان دیدہ ودانستہ اینٹی بزنس اقدامات سے معیشت تباہ ہوگی، بلیک اکنامی پروان چڑھے گی، اسمگلنگ میں اضافہ ہوگا، لوگ ٹیکس بچانے، انڈر انوائسنگ اور مس ڈکلیریشن کی طرف مائل ہونگے اور ایکسپورٹ میں بھی کمی آئے گی، بجلی کے گھریلوصارفین پر 10فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لاگو کرنا بہت زیادہ ہے جس کی ادائیگی گھریلو صارفین کے لیے نا قابل برداشت ہوگی اور اس سے بجلی کی چوری میں اضافہ ہوگا، زیرو ریٹڈ رجیم کے خاتمے سے ایکسپورٹ پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے لہٰذا زیرو ریٹڈ رجیم میںکسی بھی بڑی تبدیلی سے قبل تمام اسٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کی مشاورت کے ساتھ غوروخوض کے بعد پالیسی ترتیب دی جائے، ایکسپورٹرز پر ٹیکسوں کی شرح کو1فیصد سے بڑھا کر 1.5فیصد اور2فیصد کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ایکسپورٹر بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقت نہیں کر پائیں گے۔

کمرشل امپورٹر ز پر ودہولڈنگ ٹیکس کو 5فیصد سے بڑھا کر 6.5فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں جس کی وجہ سے خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور اسمگلنگ، انڈر انوائسنگ اور ٹیکس چوری کے راستے کھلیں گے، منی بجٹ اقدامات سے قبل ایف بی آر یا وزارت خزانہ نے اس حوالے سے تاجربرادری یا کسی بھی ٹریڈ باڈی سے رابطہ نہیں کیا، ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کر نے کے لیے ایف بی آر اپنی روایتی چال بازیوں اور حیلے بہانوں سے ایماندار ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے درپے ہے اور ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لیے ٹیکس نہ دینے والے ان دولت مند اور صاحب حیثیت لوگوں پر ٹیکس لگانے کے لیے ایف بی آر کی نیت اور کوششیں نظر نہیں آتی، دسمبر 2012کے بعد مختلف متنازع ایس آراوز تاجروں و صنعت کاروں پرجبری لاگو کر دیے گئے جس میں بڑے پیمانے پر ٹیکس ڈھانچے میں تبدیلی کے علاوہ سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیاہے۔

علاوہ ازیں ایف بی آر نے ان لینڈ ریونیوکے افسران کومینولی آڈٹ کیسزمنتخب کرنے کی کھلی چھٹی دے دی تاکہ وہ ڈیمانڈ ایشو کریں اور اپنے ٹیکس ریونیو اہداف کے حصول کے لیے ٹیکس دہندگان کے خلاف جس طرح چاہیں ایکشن لیں۔ اس موقع پرسائٹ ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین ڈاکٹر قاضی احمد کمال، فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن کے چیئرمین ہارون شمسی، بن قاسم ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر عثمان احمد، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری سے زبیر چھایا، نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری سے رشید فوڈروالا، سائٹ سپرہائی ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے صدر اسلم ریاض، پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن سے محمد عثمان کے علاوہ پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین جاوید بلوانی نے بھی خطاب کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں