ٹی وی کی واپسی

عبدالقادر حسن  جمعرات 30 اگست 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

نئے پاکستان کی ایک نئی خوشخبری یہ ملی ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کو آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اورلگتا یہ ہے کہ پاکستان کا یہ نیوز چینل اب آزادی کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی خبریں دے گا ۔

یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ٹیلی ویژن سے موثر ذریعہ ابلاغ کوئی دوسرا نہیں لیکن پاکستان ٹیلی ویژن والوں کو یا تو اس کا علم نہیں اور اگر ہے تو وہ اس قابل نہیں کہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور تیسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ حکومتی ادارہ ہونے کے ناطے اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں اور اس میں سے وہی برآمد ہوتا ہے جسے ہماری سرکار سننا اور دیکھنا چاہتی ہے چاہے اس سننے اور دیکھنے کو عوام پسند کریں یا نہ کریں لیکن حکومت اپنا راگ ہی الاپتی رہتی ہے۔

جب سے آزاد میڈیا چینلز کا آغاز ہوا تب سے یہ پلاننگ ہی نہیں کی گئی کہ سب سے زیادہ وسائل یافتہ ادارے کو ایک مکمل خود مختار ادارے کا درجہ دے دیا جاتا تا کہ وہ دور حاضر کے جدید تقاضوںکا مقابلہ کرتا اور اسکرین پر نمودار ہونے والے نئے چینلز کے شانہ بشانہ چلتا لیکن اس کے برعکس اس وقت کی حکومت نے میڈیا کو آزادی تو دے دی جس کے نتیجہ میں کئی نئے نیوز چینلز کا اجراء بھی ہوا اور وہ کسی بے لگام گھوڑے کی طرح حکومت پر ہی چڑھ دوڑے جس کو اس وقت کی حکومت نے خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت بھی کیا لیکن حکومت نے اپنے ادارے کو آزادی دینے کے بجائے اسے حکومت کا مطیع اور فرمانبردار رہنے کا حکم دیا جس کی وجہ سے پی ٹی وی رفتہ رفتہ اپنی افادیت کھو بیٹھا ۔وہی پی ٹی وی جس پر ڈرامے کا وقت شروع ہوتے ہی سڑکیں ویران ہو جاتی تھیں۔

وہ ڈرامے لکھنے والے لوگ اب بھی موجود ہیں جن میں میرے دوست امجد اسلام امجد اور اصغر ندیم سید جیسے ڈرامہ نگار شامل ہیں جو کہ اپنے وقت کے مشہور ڈرامے لکھ چکے ہیں لیکن اب پی ٹی وی وہ نہیں رہا یا یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ اسے بطور ایک قومی ادارہ رہنے نہیں دیا گیا جو بھی حکومت آئی اس نے حسب منشاء اپنے چاہنے والوں کو کچھ نہ کچھ عطاء کیا جس کی وجہ سے اس کی زبوں حالی بڑھتی گئی اور اب یہ وقت آگیا ہے کہ نئی نسل پی ٹی وی کے متعلق شاید کم ہی جانتی ہے کیونکہ ان کو ان کی پسند اور معیار کے کئی اور چینل دستیاب ہیں ۔

پی ٹی وی کا خبر نامہ اپنے اچھے وقتوں میں اس کی جان ہوتا تھا اور ڈرامہ دیکھنے کے بعد خبر نامہ دیکھنا از حد ضروری خیال کیا جاتا تھا جہاں سے حکومت کی کار گزاری کی مکمل خبریں مل جاتی تھیں اور کبھی کبھار اگرحکومت مہربان ہو گئی تو اپوزیشن کو بھی کچھ سیکنڈ کے لیے دکھا دیا جاتا تا کہ اس کی اشک شوئی بھی ہوتی رہے۔ خبرنامے کی خبروںکا انتخاب حکومت کے محدود اور مخصوص مفادات کے تحت کیا جاتا ہے لیکن اتنا تو ہو سکتا ہے کہ فنی اعتبار سے خبروں کا معیار برقرار رکھا جائے تا کہ وہ پرائیویٹ نیوز چینل کا مقابلہ کر سکیں۔

پی ٹی وی جیسا ادارہ ملکی سطح پر ایک ایسا ادارہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنی تاریخ کو مجسم رکھ سکتے ہیں۔ٹیلی ویژن کی ایجاد نے تاریخ کو مجسم کر دیا ہے اور ملکی سطح پر ہر شعبے میں ایسی شخصیات موجود ہیں جن کو ریکارڈ کیا جا سکتا ہے تا کہ مستقبل میں ہماری نئی نسلیں اس سے استفادہ کر سکیں اور ان کو معلوم ہو کہ کیسے کیسے نابعہ روزگار لوگ ان میں گزرے ہیں مگر ہمیں حکومت کی کوئی لایعنی سر گرمی دکھانی ہوتی ہے اس لیے وقت کم ہوتا ہے اور ہم نے ایسے لوگوں کے انٹرویو ضایع کر دیے ہیں کہ جن کو کھو دیا گیا تو پھر ان کا ثانی نہیں ملے گا۔

مجھے اپنے ٹی وی کے ماضی پر فخر ہے، ہمارے ٹی وی نے آمرانہ دور میں بھی کمالات دکھائے ہیں، بھارت کا ٹی وی ہمارے مقابلے میں طفل مکتب بن کر رہا ہے ۔ ہمارے موسیقی کے پروگرام، دستاویزی پروگرام اور ڈرامے تو قیامت برپا کرتے رہے ہیں۔ بھارتیوں کی وہ چیخ و پکار ہم سنتے رہے ہیں جو وہ پاکستان ٹی وی کی یلغار پر کیا کرتے تھے۔ بھارتیوںکو اپنی موسیقی کا بڑا زعم ہے مگر اس میدان میں بھی ہمارے ٹی وی نے بھارتی فنکاروں کو پچھاڑ دیا تھا اور ڈرامے میں تو ہماری اس قدربالادستی تھی جیسے ڈرامہ ہماری ایجاد ہے مگر وہی ڈرامہ لکھنے والے ہیں، وہی فنکار ہیں، وہی ٹی وی ہے مگر ڈرامے میں جان نہیں ہے ،کوئی وارث نامی ڈرامہ ٹریفک بند نہیں کرتا اور کوئی گلوکارہ سننے والوں کو مسحور نہیں کرتی۔

اس تابناک ماضی کی یادیں بہت تلخ ہیں اور یہ تلخی میرے جیسے اس دور کے وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے اس ادارے کا سنہری وقت دیکھا ہے اور اس میں کسی حد تک مشوروںکی صورت میں اپنا حصہ بھی ڈالا ہے۔

ہماری نئی حکومت نے خوش آیند اعلان کیا ہے کہ ٹی وی کے مزید دو نئے چینل کھولے جارہے ہیں اور اس کو آزادی دی جارہی ہے اس بات کا اعلان ہماری وفاقی کابینہ کے شاید سب سے کم عمر نوجوان وزیر جو کہ اتفاق سے میرے بھتیجے بھی ہیں اور اطلاعات کی وزارت کی ذمے داری بھی ان کے ذمے لگائی گئی ہے جس کی وجہ سے پی ٹی وی بھی ان کی عمل داری میں آگیا ہے، فواد چوہدری کے اس خوش آیند اعلان کو جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہے۔ فواد کا تعلق ایک جدی پشتی سیاسی گھرانے سے ہے اور سیاست واقعی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے، ان کے مرحوم چچا اور میرے بھائی چوہدری الطاف حسین پنجاب کے گورنر رہے ہیں اور جہلم کی سیاست ان کے خاندان کے دم قدم سے آباد رہی ہے ۔ گئے وقتوں میں میاں ممتاز دولتانہ اور میرا راولپنڈی کے سفر کا درمیانہ اسٹاپ جہلم میں چوہدری الطاف کا گھر ہوتا تھا ۔

بہر حال گئے وقتوں کی یادوں کو جتنا چھیڑا جائے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے ،کیسے کیسے لوگ چلے گئے اور ہم جیسے ان کی یاد میں آہیں بھرنے کے لیے رہ گئے ہیں۔بات پی ٹی وی کی ترقی سے شروع ہوئی تھی جس میں اس کی زبوں حالی کا ذکر بھی آگیا اور اس زبوں حالی کی وجہ اس کے سوا کیاہو سکتی ہے کہ ٹی وی کو جس لیڈر شپ کی ضرورت تھی وہ اس کے پاس نہیں تھی اس کے پروگراموں میں خون جگر شامل نہیں رہا۔

صرف نئے کیمرے اور مشینیں ہیں مگر ان کے پیچھے کام کرنے والے اور ان سے کام کرانے اور لینے والے لوگ نہیں ہیں۔ نفع نقصان کا حساب کتاب بہت کیا جاتا ہے لیکن معجزہ فن کی نام ونمود کی طرف کوئی نگاہ نہیں اٹھتی، شاید یوں بھی ہے کہ اب وہ لوگ رہے بھی نہیںجن کو قدرت نے کمال فن ودیعت کیا تھا اس لیے قصور کسی کا بھی ہو ہم سب کا ہے اور اس قصور کا ادراک فواد نے کیا ہے، وہ ایک مردے میں جان ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے، اللہ اسے کامیاب کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔