اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل۔۔۔۔

سلیم خالق  ہفتہ 25 مئ 2013
دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والا بھارت خود تماشا بن گیا۔   فوٹو : فائل

دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والا بھارت خود تماشا بن گیا۔ فوٹو : فائل

’’اچھا ہی ہواآئی پی ایل میں ہمیں نہیں بلایا جاتا ورنہ اب تک نجانے کتنے کیسز بنا دیے گئے ہوتے۔

ویسے ہی ہم پاکستانی کیا کم بدنام ہیں، بھارت کو تو ہم جیسے قربانی کے بکروں کی تلاش ہو گی جن پر اسپاٹ فکسنگ کیس کا تمام تر ملبہ ڈال دیا جائے،کسی پاکستان کے کھلاڑی پر الزام کو لوگ آنکھ بند کر کے یقین کر لیں گے‘‘۔ جب ایک معروف کرکٹر نے مجھ سے یہ باتیں کیں تو مجھے شدید حیرانی بھی ہوئی کہ کل تک تو یہ بھارتی لیگ میں نہ بلائے جانے پر افسردہ تھا اب موقف ہی تبدیل کر لیا، پھر میں نے سوچا کہ اس کی بات تو درست ہے جس طرح امپائر اسد رؤف کے حوالے سے نت نئی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

اگر کوئی پاکستانی کھلاڑی بھی بھارت میں موجود ہوتا تو اب تک اس کا تعلق کسی انڈر ورلڈ ڈان تک سے جوڑ دیا جا چکا ہوتا،آئی پی ایل میں شرکت کر کے دنیا بھر کے کرکٹرز کروڑوں روپے اپنے بینک بیلنس میں جمع کرا رہے ہیں، پہلے سے ہی ارب پتی کھلاڑی بھی کنٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے خوب کوششیں کرتے ہیں، انسان کی لالچ کبھی ختم نہیں ہوتا اس لیے ’’انڈین پیسہ لیگ‘‘ کوئی چھوڑنا نہیں چاہتا، پاکستانی پلیئرز کو پہلے ایڈیشن کے بعد نہیں بلایا گیا اس کی وجہ ممبئی حملے بنے، اس کا سب کو بیحد رنج ہے اور جب کبھی بورڈ سے پیسے بڑھوانے کی بات کرنی ہو یہی جواز بنایا جاتا ہے کہ ’’بھارتی لیگ میں ہمیں نہیں بلایا جاتا دیگر ممالک کے کھلاڑی خوب رقم کما رہے ہیں لہذا یہیں معاوضوں میں کچھ اضافہ کر دیں‘‘۔

حالیہ سینٹرل کنٹریکٹ سے قبل ہی ایسا کر کے مطالبات منوائے گئے لیکن ذرا تصور کریں کہ اگر ہمارے پلیئرز وہاں ہوتے تو اب تک کیا کچھ نہ کر دیا جاتا، بھارت میں سیلاب بھی آئے تو اسے پاکستانی سازش قرار دیا جاتا ہے، اس کیس میں بھی یہی ہوا اور میڈیا کی کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو بدنام کیا جائے، اسد رؤف کے حوالے سے تحقیقات نے اسے کسی حد تک کامیاب بھی کر دیا، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خاصے رنگین مزاج شخص ہیں اور ایسے انسان کا تنازعات میں پڑنا کوئی مشکل بات نہیں۔ اب بھی گوگل پر اگر ان کا نام لکھ کر سرچ کریں تو بھارتی ماڈل لینا کپور کے ساتھ ایسی تصاویر سامنے آ جائیں گی جنھیں دیکھ کر پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک جائیں۔

وہ انھیں اپنا پرستار قرار دیتے تھے اور لینا نے ان پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے، ویسے تصاویر سے بھی واضح تھا کہ معاملہ صرف پرستار ہونے کا نہیں ہے، اس کیس میں وہ گرفتار ہو سکتے تھے لیکن ماڈل نے پولیس میں درج شکایت واپس لے لی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسد رؤف اس سے سبق سیکھتے ہوئے محتاط رہتے مگر انھوں نے مزید کئی غلطیاں کیں جس نے مشکل میں ڈال دیا۔ اس وقت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہیں مگر انھوں نے کچھ ایسے افراد سے ضرور رابطہ رکھا جن سے نہیں رکھنا چاہیے تھا، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے بھارت بھی یہی چاہے گا کہ انھیں پھنساکر معاملے کا تعلق پاکستان سے جوڑ دیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسدکا بُرا وقت شروع ہو چکا کیونکہ آئی سی سی نے انھیں چیمپئنز ٹرافی کے امپائرز پینل سے بھی خارج کردیا ، اب الیٹ پینل میں جگہ بھی خطرے میں لگتی ہے۔

امپائر کی سفید شرٹ پر اگر ایک بار الزامات کا داغ لگ جائے تو وہ انمٹ ہوتا ہے ، ہمیشہ شکوک برقرار رہتے ہیں لہذا اسے مزید ذمے داریاں نہیں سونپی جاتیں، شائد اسی وجہ سے بعض ماہرین دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسد رؤف اپنا آخری انٹرنیشنل میچ سپروائز کر چکے ۔ ان کے ساتھی امپائر علیم ڈار کی مثال سب کے سامنے ہے، آج تک کسی تنازع میں ان کا نام سامنے نہیں آیا، بھارتی میڈیا علیم کے حوالے سے منفی خبریں تلاش کرتا رہتا ہو گا مگر انھوں نے کسی کو کوئی موقع نہیں دیا، میں نے خود ورلڈکپ 2011ء میں ان کی مصروفیات کو قریب سے دیکھا، فارغ وقت میں ان کے کمرے میں ساتھی غیر ملکی امپائرز ہوتے جن کی وہ پاکستانی کھانوں سے تواضع کرتے ہوئے ہنسی مذاق بھی کرتے رہتے تھے۔ پانچ وقت کے نمازی علیم ڈار کو ایک آئیڈیل پاکستانی قرار دیا جا سکتا ہے جن میں جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔

وہ ہمارے نوجوانوں کیلیے بہترین رول ماڈل ہیں، اگر اسد انہی سے کوئی سبق سیکھ لیتے تو آج مشکل میں نہ پڑتے۔ جن بھارتی صحافیوں کے ساتھ دوستی پر انھیں ناز تھا آج وہی ان کے حوالے سے یہ خبریں دے رہے ہیں کہ بکیز کی جانب سے امپائر کیلیے قیمتی تحائف سے بھرا پیکٹ دہلی ایئرپورٹ کے کارگو میں رکھا ہے۔ جس روز ’’ایکسپریس‘‘ میں اسد رؤف پر شکوک کے حوالے سے بھارتی میڈیا کی خبر شائع ہوئی، پی سی بی کے ایک اعلیٰ افسر سے بات ہوئی تو میں نے انھیں یہی بتایا کہ امپائر اب کسی بڑی مشکل میں پڑنے والے ہیں، کیا وہ بورڈ سے پوچھ کر بھارت جاتے تھے؟ اس کا جواب نفی میں ملا،ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ مستقبل میں میچ آفیشلز کو بھی دائرہ اختیار میں لانے کیلیے قانون بنایا جائے گا، اس کیس سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے دوری اختیار کرتے ہوئے اسد رؤف کو اپنی جنگ خود لڑنے کا مشورہ دیا، یہ بالکل درست بات ہے کیونکہ جب وہ آئی پی ایل سے دولت کمانے کیلیے جانے سے قبل کسی سے نہیں پوچھتے تو اپنا مسئلہ بھی خود حل کرنا چاہیے۔

کیس کے آغاز میں ہی جب پاکستان کا نام سامنے آیا تو پی سی بی نے اسی وقت بھارتی بورڈ کو تحقیقات میں تعاون کا یقین دلا دیا تھا مگر تاحال اس کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ آئی سی سی نے اسد رؤف کو چیمپئنز ٹرافی سے ہٹانے کا جواز میڈیا رپورٹس کو قرار دیا مگر ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس نے کسی اخبار یا ٹی وی کی رپورٹ پر کسی کیخلاف ایکشن لیا ہو، اس بار بھی معاملہ کچھ اور ہی لگتا ہے جو بتایا نہیں جا رہا، یقینی طور پر بھارتی بورڈ کے اینٹی کرپشن یونٹ نے کونسل کو کچھ معلومات دی ہو گی،صورتحال آئندہ چند روز میں ہی واضح ہوگی۔

حالیہ اسپاٹ فکسنگ کیس سامنے آنے پر میرے ایک دوست نے تبصرہ کیا تھا کہ ’’آئی پی ایل کرپشن کا ایک سمندر ہے، اس میں جال ڈالنے پر چند چھوٹی مچھلیاں ہی ہاتھ آ سکتی ہیں، بڑی مچھلی اگر پھنسنے لگی تو جال توڑ کر آگے نکل جائے گی‘‘ یہ بات کس حد تک درست ہے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ یقینی ہے کہ کئی بڑے کرکٹرز اور آفیشلز اس معاملے میں شامل ہیں، شری شانتھ ابتدا سے ہی تنازعات میں الجھتے رہے ہیں، مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے دورۂ بھارت میں انھیں لڑکیوں کے جھرمٹ میں گھرا دیکھا ۔

جب وہ انتہائی رعونت سے سپراسٹارز والی ادائیںدکھا رہے تھے، ساتھ موجود ایک صحافی نے کہا تھا کہ یہ بھارت کا شعیب اختر بنے گا،میں اس سے متفق نہیں کیونکہ شعیب میں لاکھ خامیاں ہوں گی مگر وہ کرپٹ نہیں تھے، شری شانتھ نے تو چند لاکھ روپے کے لیے اپنے ملک کا نام بدنام کر دیا،اس کیس میں گرفتار اہم شخصیت بھارتی اداکار وندو دارا سنگھ روز ’’شرفا‘‘ کے نام سامنے لا رہا ہے مگر پولیس ڈر کے مارے کسی کیخلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں،پختہ ثبوت کا انتظار کرنا فضول ہے کیونکہ کوئی بڑا آدمی اپنے غلط کاموں کا ثبوت نہیں چھوڑتا۔

اگر کسی سے ایسی غلطی ہو بھی جائے تو اسے بچانے کے لیے کئی بااثر حمایتی سامنے آ جاتے ہیں۔ وندو نے صدر بی سی سی آئی این سری نواسن کے داماد گروناتھ میاپن کے خلاف پختہ ثبوت دیے، اس کے باوجود پولیس نے تین روز تک ان پر ہاتھ نہ ڈالا اور وہ دور دراز کسی پہاڑی مقام پر چھٹیاں مناتے رہے، جب میڈیا کے دباؤ پر سختی کی گئی تو اپنے پرائیوٹ طیارے میں ممبئی آئے جہاں انھیں دھر لیا گیا۔ ایک عام شائق بھی ان کی تصاویر دیکھ کر اندازہ لگا لے گا کہ یہ تو وہی ہے جو چنئی کے میچز میں پلیئرز و دیگر اہم شخصیات کے ساتھ نظر آتا تھا، وہ خود کو ٹیم کا چیف ایگزیکٹیو کہتے تھے مگر جب فرنچائز کے دیگر اعلیٰ حکام کو یقین ہو گیا کہ اس کیس میں میاپن کا بچنا مشکل ہے تو فوراً وضاحت جاری کرتے ہوئے انھیں ٹیم مینجمنٹ کا اعزازی رکن قرار دے دیا۔

ایک معروف کرکٹ ویب سائٹ میاپن کے تصدیق شدہ ٹویٹر اکاؤنٹ کے پہلے صفحے کی تصویر شائع کر کے اس جعلسازی کا پردہ چاک کر چکی، چنئی کی ٹیم کے مالک بھارتی بورڈ کے صدر سری نواسن اور کپتان مہندرا سنگھ دھونی ہیں، حیران کن طور پر سری نواسن نے مشکل ترین حالات میں بھی دھونی کو بھارتی ٹیم کا قائد برقرار رکھا، ان کی اہلیہ ساکشی کی گرفتارشدہ اداکار وندو کے ساتھ کئی تصاویر میڈیا کی زینت بنیں، جس میں دونوں ساتھ بیٹھے میچ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ شری شانتھ کی گرل فرینڈ کا نام بھی ساکشی اور دونوں کا تعارف دھونی کی اہلیہ نے ہی کرایا تھا۔

ان خواتین نے ایک ہی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، یقینی طور پر تفتیشی ادارے بھی ان تمام پہلوؤں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے۔ ماضی میں بھارتی کپتان اظہر الدین کو فکسنگ میں نہیں چھوڑا گیا اور تاحیات پابندی کا شکار ہوئے، دیکھتے ہیں کہ اس بار کوئی بڑا نام سامنے آتا ہے تو کیا ہو گا، ویسے وندو نے ہربھجن سنگھ اور ویرت کوہلی کو بھی اپنی قریبی شخصیات قرار دیا ہے، آئندہ آنے والے دنوں میں بھارتی کرکٹ میں مزید کئی بھونچال آ سکتے ہیں۔

حالیہ کیس سے یہ بات سامنے آئی کہ پیسے کے ساتھ کھلاڑیوں کو خوبصورت لڑکیوں کی مدد سے بھی پھنسایا گیا۔ ایک اخبار میں دلچسپ رپورٹ شائع ہوئی جس سے بھارتی کھلاڑیوں کے دل پھینک ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اس میں ایک ایئر ہوسٹس نے بتایا کہ دوران فلائٹ ایک معروف نوجوان کرکٹر نے اس سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتے ہوئے میچ دیکھنے کی دعوت دی، جب خاتون نے اسے بتایا کہ انھیں کرکٹ کا کوئی شوق نہیں تو بھی اس نے ہمت نہ ہاری اور ایک کاغذ پر اپنا فون نمبر لکھ کر دیتے ہوئے کہا کہ جب کبھی ملاقات کرنی ہو فون کرنا، ایئرہوسٹس کے مطابق 5منٹ کے دوران براہ راست ’’ڈیٹ‘‘کی دعوت تک پہنچ جانے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی اخلاقی طور پر کس معیار کے ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق بکیز کی ایجنٹ کال گرلز ہی پلیئرز سے رابطہ کرتی ہیں، چند ایک مواقع پر تو خفیہ کیمروں سے نازیبا ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

پی سی بی نے سلمان بٹ،آصف اور عامر کے اسپاٹ فکسنگ کیس میں الجھنے کے بعد سخت اقدامات کیے، بعض کرکٹرز کو یہ پسند نہیں آئے تو کہا کہ ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے جیل میں قید ہوں، ویسے اصل جیل جانے سے بہتر یہی ہے کہ فائیواسٹار جیل میں رہیں جہاں تمام سہولتیں تو میسر ہوتی ہیں۔ اب کھلاڑی خاصے چالاک ہو چکے اور سٹے بازوں سے روابط کیلیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں، شری شانتھ نے بھی موبائل سافٹ ویئرز سے بکیز کے ساتھ پیغامات کا تبادلہ کیا مگر پھر بھی پکڑے گئے۔

میں نے کچھ عرصے قبل یہ نشاندہی کی تھی کہ پی سی بی کی جانب سے ٹورز میں کھلاڑیوں کو موبائل سمز دینے کا کوئی فائدہ نہیں، وہ اب واٹس ایپ، وائبر اور اسکائپ جیسے سافٹ ویئرز سے دوستوں و اہل خانہ سے رابطہ رکھتے ہیں جن کی تفصیل حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا، بکیز بھی اس کے ذریعے انھیں جال میں پھنسا سکتے ہیں، بورڈ نے اس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے نئے سینٹرل کنٹریکٹ میں شق شامل کر دی۔

جس سے پلیئرز کے موبائل فونز، لیپ ٹاپ اور آئی پیڈز کسی بھی بھی وقت چیک کیے جا سکتے ہیں، حکام اپنے طور پر تو اقدامات کر رہے ہیں مگر اب یہ کھلاڑیوں پر بھی منحصر ہے کہ وہ کس طرح اپنے آپ کو بُرے کاموں سے محفوظ رکھتے ہیں، فکسنگ سے نہ صرف وہ خود بلکہ اہل خانہ بھی ایسی اذیت کا شکار ہوتے ہیں جس کے اثرات کبھی ختم نہیں ہوتے، جائز طریقے سے جب کروڑوں روپے مل رہے ہیں تو غلط کاموں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، یہ بات سب نے ذہن میں بٹھا لی تو زندگی بھر چین کی نیند سو سکیں گے۔

حالیہ کیس نے بھارتی کرکٹ بورڈ کی بنیادیں ہلا دیں، تادم تحریر سری نواسن نے استعفیٰ تو نہیں دیا تاہم اس کیلیے ان پر خاصا دباؤ ہے۔ بھارت میں کرکٹ کو مذہب جیسا درجہ ملتا اور کھلاڑیوں کو پوجا جاتا ہے، اسی طرح فلم انڈسٹری بھی بیحد اہمیت رکھتی ہے، للت مودی کے ماسٹر مائنڈ نے ان دونوں چیزوں کو مکس کر کے آئی پی ایل تخلیق کی، یقینااس سے بھارتی بورڈ کو اربوں روپے ملے مگر اس کا وقار کھو گیا۔ اگر ایمانداری سے تحقیقات ہوں تو حالیہ کیس کے بعد آدھی بھارتی ٹیم فارغ ہو سکتی ہے، اس وقت پیسے کس کام آئیںگے۔

دو ماہ کا ایونٹ کوئی کرکٹ کی خدمت کیلیے نہیں کرایا جاتا، اس میں جائز طریقے سے جو پیسے آتے اس سے کئی گنا زیادہ ناجائز انداز سے آتے ہیں، کھلاڑی، آفیشلز، ٹیم مالکان سب کو حصہ ملتا ہے، یہ تو ان کی قسمت خراب تھی کہ دہلی پولیس نے دہشت گرد سمجھ کر بکیز کی کال ٹیپ کی تو چند کھلاڑیوں کے نام سامنے آ گئے تو یہ اسکینڈل بے نقاب ہوا، یقینا ً ان تمام باتوں سے ممبئی پولیس بھی واقف ہو گی مگر انڈر ورلڈ کے ڈر سے کسی پر ہاتھ نہ ڈالا۔ دہلی پولیس نے ماضی میں سابق جنوبی افریقی قائد ہنسی کرونیے کے بھی فکسنگ اسکینڈل کا پردہ فاش کیا تھا، کیس کس کروٹ بیٹھتا ہے جلد پتا لگ جائے گا مگر بھارتی بورڈ کو اپنا کھویا ہوا وقار واپس لانے میں بہت وقت لگے گا، جس طرح انگلینڈ اپنے کھلاڑیوں کی آئی پی ایل میں شرکت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔

آسٹریلیا ، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ بھی پلیئرز کو تنازعات سے بچانے کیلیے بھارت جانے پر پابندی لگا سکتے ہیں، مالی مفادات کی وجہ سے وہ خود تو ایسا کرنا نہیں چاہیں گے مگر عوامی دباؤ پر حکومت کے کہنے پر یہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ بغیر غیرملکی معروف کرکٹرز کے آئی پی ایل بھی سونی ہو جائے گی، بھارت میں ویسے ہی ایونٹ پر پابندی لگانے کا مطالبہ زور پکڑ چکا، سیاستدان ہاتھ دھو کر بی سی سی آئی کے پیچھے پڑچکے، عوامی سطح پر بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، ایسے میں اس نجی ٹی ٹوئنٹی لیگ کیلیے آنے والا وقت زیادہ اچھا نہیں لگتا۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔