بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ

نسیم انجم  اتوار 26 مئ 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ادھر انتخابات ہوئے، کامیابی کے شادیانے بجائے گئے، دھاندلی پر آواز اٹھائی جانے لگی اور ادھر یہ ہوا کہ لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوگیا۔ جن علاقوں میں 24 گھنٹوں میں تین گھنٹے بجلی جایا کرتی تھی وہاں ہر گھنٹے میں آدھے گھنٹے کا اضافہ کردیا گیا اور جن علاقوں میں دو یا تین گھنٹے دورانیہ کی لوڈشیڈنگ تھی وہاں چار، چار گھنٹے مسلسل لائٹ غائب رہنے لگی، اس طرح پورے دن رات میں بارہ، بارہ گھنٹے لائٹ جارہی ہے۔

لاہور کے شہری تو تھے ہی بجلی کے مارے ہوئے، کراچی میں بھی اب ایسا ہی حال ہے، شہری پریشان ہیں، کارخانوں، فیکٹریوں کا کام ٹھپ ہوچکا ہے، شاپنگ سینٹر میں بھی لوگ جاتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ گرمی کی وجہ سے اپنے آپ کو سنبھالیں یا اپنی نقدی اور قیمتی اشیاء کو کہ چور اچکے ہر لمحے ہمارے ساتھ ہیں، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مہد سے لحد تک یہ ہمارا پیچھا کرتے ہیں، آپ نے ایسی خبریں تو بارہا پڑھی ہوں گی کہ ننھے بچے کو دنیا میں قدم رکھے ہوئے زیادہ وقت بھی نہ گزرتا ہے کہ وہ بے چارہ ماں باپ کی آغوش سے دن دہاڑے چرا لیا جاتا ہے،

اگر ماں باپ قسمت کے دھنی ہوئے تو گمشدہ بچہ پولیس کی پرخلوص کوشش و محنت کے نتیجے میں مل گیا، ورنہ تو ساری عمر کے لیے گیا۔ ماں باپ عمر بھر رونے پر مجبور اور وہ شرفاء کا بچہ برے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا اور ان چور، ڈاکوؤں نے اسے اپنے ہی جیسا انسان بناکر دہشت گردوں اور خودکش بمباروں میں اضافہ کردیا۔ یہ معاملات تو دنیا کے اور جیتے جی لوگوں کے ہیں، مرنے کے بعد بھی جرائم پیشہ افراد نہ کہ کفن اتار لیتے ہیں لیکن اب تو ان کے روزگار میں اس قدر ترقی ہوئی ہے کہ مردے کو ہی لے اڑتے ہیں۔

یہ درندہ صفت انسان قدرتی آفات کا بھی انتظار کرتے ہیں، کہیں زلزلہ آیا یا برسات کی وجہ سے عمارات زمین بوس ہوگئیں، دیواریں گرگئیں کوئی بڑا حادثہ یا ہوائی جہاز کریش ہوگیا، ریل گاڑی پٹری سے اتر گئی اور خوب خوب جانی و مالی نقصان ہوا یہ لوگ خبر سنتے ہی اپنے اوزاروں اور ہتھیاروں کے ساتھ دوڑ لگا دیتے ہیں، لوگ امدادی کاموں میں مصروف نظر آتے ہیں ، لواحقین دعائیں کرتے اور آہ و زاری کرتے کرتے نڈھال ہوجاتے ہیں، یہ سفاک لوگ لاشوں کے ہاتھوں سے چوڑیاں اور گھڑیاں اتار کر جمع کرنا شروع کردیتے ہیں اور بعض تو ہاتھ کو ہی جسم سے علیحدہ کردیتے ہیں۔

روپیہ، پیسہ، موبائل اور دوسری اشیاء اکٹھی کرنے میں لگے رہتے ہیں، اپنا کام جلدی جلدی نمٹا کر رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ گویا ان بدقماش لوگوں کا ساتھ لازم و ملزوم ہوچکا ہے۔ گلی کوچوں میں راہ گیروں سے لوٹ مار کرتے نہیں تھکتے ہیں۔اگر ساتھ نہیں ہے تو اس بے وفا، ہرجائی کا نہیں ہے، جسے بجلی کہتے ہیں۔

اس بجلی نے لوگوں کو تباہ و برباد کردیا ہے، زندگی کا چین و سکون چھین لیا ہے، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کتنے جاں بہ لب مریض زندگی سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ مقررہ تاریخوں پر ہونیوالے آپریشن ملتوی ہوجاتے ہیں، زندگی کی خوشیاں ماند پڑجاتی ہیں اور لفٹ رک جاتی ہے، کمزور دل لوگ گھنٹوں لفٹ میں بند رہنے کے باعث دم توڑ دیتے ہیں، بچے، خواتین گھٹن، ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں، اسی لیے سمجھدار لوگ حفظ ماتقدم کے تحت لفٹ جیسی سواری کو لفٹ نہیں کراتے ہیں۔

ہمارے ملک کی تعمیر وترقی کا انحصار بجلی پر ہی منحصر ہوکر رہ گیا ہے۔ آج پوری دنیا میں زراعت کا شعبہ ہو، تجارت کا یا دفاتر اور تعلیمی ادارے ہوں بجلی کے بغیر ہر کام ادھورا رہ جاتا ہے، وقت کا زیاں اور ذہنی تکلیف علیحدہ۔

اب ہمارے ملک سے کون، کون سی چیزیں جانا باقی رہ گئی ہیں، بجلی گئی، اب اس ملک میں گیس کی بھی شدت سے کمی واقع ہوگئی ہے، جن گاڑیوں میں گیس کٹ گئی ہے ان کے مالکان کے دل سے پوچھیے کہ بنا گیس کے گاڑی کا، بلکہ گھر کی گاڑی کا چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ سی این جی پمپ کو دیکھ کر دل دکھ کر رہ جاتا ہے۔ بے چارے کیسے کیسے لوگ جن کے لیے لمحہ لمحہ قیمتی ہے وہ سی این جی کے حصول کے لیے لمبی لمبی قطاریں بھگتانے کے لیے دھوپ میں بیٹھے سوکھ رہے ہوتے ہیں، ذہنی دباؤ، جسمانی اذیت، قطار ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔

اکثر علاقوں میں، پنجاب کے خاص طور پر شہروں اور گاؤں میں چولہا جلانے کے لیے گیس نہیں ہے، اسی طرح سردیوں میں گیزر، گول گول رنگ برنگے خالی ڈبوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، گیس ہو تو گیزر میں پانی گرم آئے۔ گیس غائب ہوچکی ہے۔پانی کا حال بھی کچھ اچھا نہیں، پانی میں کلورین کی کمی یا نہ ہونے کی وجہ سے نیگلریا جیسی جان لیوا بیماری اپنے شکار کی تاک میں ہے ۔ پچھلے دنوں ندیم نامی 14 سالہ نوجوان اس بیماری کا شکار ہوچکا ہے۔ واٹر بورڈ نے ذمے داران کو پہلے ہی توجہ دلانی چاہی تھی تاکہ ایک شخص بھی موت کے منہ میں نہ جاتا، لیکن اب سرجوڑ کر بیٹھے ہیں اور تدارک کیا جارہا ہے۔

لوگوں کو اس بات کی بھی آگاہی دی گئی ہے کہ وضو کرتے وقت ناک کے لیے ابلا ہوا پانی استعمال کریں، ہمارے یہاں کے لوگ پینے کے لیے ابلا ہوا پانی استعمال نہیں کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہر سال چھوٹے بچے پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اسہال، ڈائیریا، ہیضہ، گدلے پانی کے ہی سبب ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان کی آبادی کا زیادہ حصہ ناخواندہ ہے تعلیم عام نہیں ہے، اسی وجہ سے شعور اجاگر نہیں ہوا۔ جہالت اور گمراہی نے عقل سلیم پر شب خون مارا ہے۔

جہل کی ہی وجہ سے وہ بہت سی اہم باتوں سے ناواقف رہتے ہیں اور تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آج کل گیارہویں بارہویں کے امتحانات ہورہے ہیں اور لائٹ کا یہ حال ہے کہ ٹک کر نہیں بیٹھتی ہے نتیجے میں طلبا بھی ثابت قدمی اور عزم مصمم پر عمل نہیں کرپاتے، لائٹ انھیں نچاتی ہے، بے چین رکھتی ہے، ان حالات میں پڑھائی کس طرح ممکن ہے؟

امتحانی مراکز میں نہ بجلی میسر ہے اور نہ ٹھنڈا پانی، شاید کسی ایک دو مراکز میں یہ سہولتیں ہوں، لیکن زیادہ تر کا یہی حال ہے۔ سخت گرمی، بجلی غائب اگرچہ چند منٹ کے لیے اپنا مکھڑا دکھانے آ بھی جائے تو پنکھے بجلی کا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔یہی طلبا آئندہ برسوں میں پاکستان کے استحکام کے لیے اپنے اپنے حصے کا کام ضرور انجام دیں گے۔

ان دنوں ایک اچھی خبر وہ بھی بجلی کے حوالے سے ہے، وہ یہ کہ چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے، انھوں نے کہا کہ حالات کچھ بھی ہوں پاک چین دوستی پائیدار رہے گی، پاکستان کو توانائی کے بحران میں مدد کرنے کی بھی بات کی ہے، دونوں ممالک ترجیحی بنیادوں پر بجلی کے منصوبے شروع کریں گے۔ چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے گوادر بندرگاہ سے ترقی کی راہیں کھلنے کے حوالے سے مثبت گفتگو کی جس سے پاکستانی قیادت اور عوام کو آئندہ مہینوں سے بجلی کے بحران سے نجات کی صورت نظر آئی ہے۔

پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے بے شمار وہ قدرتی وسائل عطا کیے ہیں جو دوسرے ممالک میں نہیں ہیں۔ لیکن پاکستان کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے ایسے حکمران میسر ہیں جنھوں نے وطن اور قوم سے محبت کرنے کے بجائے اپنی ذات اور اپنے چاہنے والوں کو فوقیت دیں۔

انھوں نے عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھا ان کی نظر میں صرف اپنے فائدے رہے، ان کی غفلت نے ملک کو بدترین حالات سے دوچار کر دیا ہے۔ حکومت سے عوام کی نفرت و غصہ گزشتہ حکومت کی بدترین ناکامی کا نتیجہ ہے۔ راجا پرویز اشرف کی بھی بحیثیت وزیر بجلی اور وزیر اعظم پاکستان کارکردگی اور اس کارکردگی کا انجام سب کے سامنے ہے۔ عزت بنانے اور وقار قائم رکھنے کے لیے بہت سی چھوٹی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں، تب نیک نامی ہاتھ لگتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔