کیا کچھ ایجاد ہونے کو ہے؟

سید بابر علی  اتوار 2 ستمبر 2018
مستقبل کی کچھ حیرت انگیز ایجادات۔ فوٹو : فائل

مستقبل کی کچھ حیرت انگیز ایجادات۔ فوٹو : فائل

اگر ہم ایک دو دہائی پیچھے نظر ڈالیں تو اس وقت آنے والی ٹیکنالوجی کے حجم اور سائز میں دورِحاضر کی نسبت زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرین اب بھی اس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ کسی طرح جدید آلات کو اتنا مختصر اور اور سہل بنا دیا جائے کہ انہیں کپڑوں کی طرح پہن کے روزمرہ کے کام سر انجام دیے جاسکیں۔

’’ویئرایبل‘‘ آلات کے شعبے میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں ایسے بہت سے آلات آچکے ہیں اور مستقبل میں ایسے آؒلات کی مارکیٹ میں آنے کی توقع ہے جو انسانوں کا طرززندگی یکسر تبدیل کردیں گے۔ اب اسمارٹ فون، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسی سہولت تقریباً دنیا کے ہر خطے میں کسی نہ کسی حالت میں موجود ہے۔ اگر آج سے نصف دہائی قبل دیکھا جائے تو انٹرنیٹ، موبائل کا تصور کرنا ہی ناممکن تھا لیکن آج ان کے بغیر کاروبار زندگی چلانا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔

ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیزرفتار ترقی دیکھ کر تو بہ ظاہر یہی لگتا ہے کہ جو آلات ہم دورحاضر میں استعمال کررہے ہیں وہ مستقبل میں آنے والی نسلوں کے کھلونوں سے زیادہ اہم نہیں ہوں گے۔ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کی جگہ لیپ ٹاپ نے لے لی، لیپ ٹاپ کی جگہ ہاتھ کی ہتھیلی میں سما جانے والے ٹیبلیٹ نے لے لی۔ کسی زمانے میں راستہ تلاش کرنے لیے ہم بھاری بھرکم نقشوں کے محتاج تھے، آج نہ صرف پوری دنیا ہماری انگلی کی نوک پر ہے بلکہ ہم گھر سے نکلتے وقت اپنے راستے میں چلنے والے ٹریفک کو براہ راست اپنے موبائل فون پر دیکھ سکتے ہیں۔

یہ موبائل فون آپ کے اخبار پڑھنے اور کتب بینی کا شوق پورا کرتا ہے تو دوسری جانب اسی چھوٹے سے موبائل پر دنیا بھر کے ٹیلی ویژن کی براہ راست نشریات اور فلم بینی بھی کی جاسکتی ہے۔ تاہم آنے والے سالوں میں ہم وہ سب دیکھ اور استعمال کرسکیں گے جو ابھی تک ہم فلموں میں دیکھ رہے ہیں۔ یہاں مستقبل میں ہونے والی کچھ اہم ایجادات کا ذکر کیا جارہا ہے۔

٭جیٹ پیک

1953 میں کامک بک کے مصور ایلک شومبرگ نے ایک سائنسی جریدے سائنس فکشن پلس کے سرورق کے لیے ایک تصوراتی تصویر بنائی جس میں ایک آدمی بستے کی طرح کی ایک مشین کمر سے باندھ کر اور خلابازوں جیسا ہیلمیٹ پہن کر ہوا میں اُڑ رہا ہے۔

اس سرورق کے بعد اس تصور کو فلم ’دی راکیٹر‘، دی جیٹ سن‘ اور ’آئرن مین‘ میں پیش کیا گیا۔ انسان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ پرندوں کی طرح ہوا میں اُڑنے لگے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے سائنس دانوں نے آخرکار تجرباتی مراحل پر جیٹ پیک تیار تو کرلیے، لیکن آزمائشی پرواز کے بعد اس میں کافی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

خلا نوردی کے مقاصد کے لیے تو  1984میں ہی جیٹ پیک استعمال ہورہے تھے، لیکن اب سائنس داں پانی پر چلنے کے لیے ہائیڈروجیٹ پیک کے نام سے ایک مشین بنائی ہے جس میں اسے اڑانے کے لیے گیس پروپیلنٹ کے بجائے پانی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ چند سال قبل جیٹ پیک ایوی ایشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے امریکا کے مجسمۂ آزادی کے اطراف پرواز کی جس کے بعد عام لوگوں کو بھی ڈھائی لاکھ ڈالر کے عوض دس منٹ ہوا میں پرواز کرنے کے پیش کش کی گئی۔ تاہم تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک جیٹ پیک کی کمرشیل بنیادوں پر فروخت شروع نہیں کی گئی ہے۔

اس بابت ماہرین ہوا بازی کا کہنا ہے کہ اگر عام افراد تک ان جیٹ پیک کی رسائی ہوگئی تو پھر زمین کی طرح فضا میں بھی بے پروا ڈرائیور فضا میں حادثات کا سبب بنیں گے، کیوں کہ ہوا میں اتنی تیزرفتار کو قابو کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہوگا اور اس سے دنیا بھر میں کمرشیل پرواز کرنے والے ہوائی جہازوں کی حفاظت کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ تاہم کچھ ادارے تجارتی بنیادوں پر جیٹ پیک کی تیاری میں سرگرم عمل ہیں اور امید ہے کہ نئے عشرے کے آغاز پر کم از کم ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اپنے ذاتی جیٹ پیک کی بدولت ہوا میں پرواز کر سکیں گے۔

٭اُڑنے والی کاریں

ہوا میں اڑنے والی کاروں کا تصور بہت پرانا ہے اور اس تصور کو مدنظر رکھتے ہوئے ماضی میں بیک ٹو دی فیوچر، بلیڈ رنر، فیوچراما اور دی ففتھ ایلیمنٹ جیسی سائنس فکشن فلمیں بھی بنائی گئیں۔

آج سے تقریبا 115برس قبل دنیا کے پہلے ہوائی جہاز نے پرواز بھری، جس کے بعد ہوا بازی کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دیا گیا اور پھر اس میدان میں ہونے والی پیش رفت نے نت نئے جہاز متعارف کرائے لیکن اب بھی اپنا ذاتی جہاز خریدنا لوگوں کے لیے ناممکنات میں سے ہے۔ ذاتی کار کی طرح ہوا میں پرواز کرنے والی گاڑی کی ایجاد سائنس دانوں کی اگلی منزل تھی، تاکہ بڑے شہروں میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرتے ہوئے سفر کو پُرلطف بنایا جاسکے۔

1926میں کار ساز ادارے فورڈ کے بانی ہینری فورڈ نے ایک سیٹ پر مشتمل فلائنگ ہوائی جہاز ’اسکائی فلائیور‘ کی تجرباتی طور پر تیاری کی، تاہم دوسال بعد ہی یہ جہاز تجرباتی پرواز کے دوران حادثے کا شکار ہوگیا، جس کے نتیجے میں اس پر سوار پائلٹ جاں بحق ہوگیا، حادثے کے بعد اس پراجیکٹ کو بند کردیا گیا۔ اگرچہ فلائیور فلائنگ کار نہیں تھی لیکن ذرایع ابلاغ نے اسے فلائنگ کار کے طور پر پیش کیا، کہ جلد ہی اس اڑنے والی کار کی کمرشل پیداوار شروع ہوجائے گی اور ذاتی کار ی طرح اس کی دیکھ بھال کی جاسکے گی۔

اس منصوبے کے بند ہونے کے بارہ سال بعد 1940میں ہینری فورڈ نے ایک پیش گوئی کی،’میرے الفاظ یاد رکھ لیں: موٹرکار اور ہوائی جہاز کے اشتراک سے بننے والی ایک کار جلد ہی آنے والی ہے، آپ لوگ ابھی اس بات کو سن کر مسکرا رہے ہیں، لیکن مستقبل میں ایسا ہی ہوگا۔‘ ہینری کی اس پیش گوئی کے ٹھیک نو سال بعد ایک امریکی ایروناٹیکل انجینئر مولٹ ٹیلر نے ’ایرو کار‘ کے نام سے ایک گاڑی تیار کی۔

ایرو کار کی کام یاب تجرباتی پرواز کے بعد امریکا کے محکمۂ ہوابازی نے اس کی تجارتی بنیادوں پر تیاری کی اجازت بھی دے دی، لیکن پڑے پیمانے پر ہونے والی تشہیر کے باوجود ٹیلر اس کار کی تجارتی بنیادوں پر پیداوار کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکا۔ اسی کے عشرے میں ہوائی جہاز بنانے والی کمپنی بوئنگ کے سابق انجینئرفریڈ بارکر نے فلائٹ انوویشنز ان کارپوریشن کے نام سے ایک کمپنی قائم کی اور ’اسکائی کمیوٹر‘‘ کے نام سے ایک پنکھے والے چھوٹے جہاز کی تیاری کا آغاز کیا۔

چودہ فٹ لمبے اس کارنما جہاز کا تجرباتی ماڈل 2008 میں 86 ہزار پاؤنڈ میں آن لائن خریدوفروخت کرنے والی کمپنی ای بے کو فروخت کردیا گیا۔ گذشتہ سال کینیڈا کی ایک کمپنی میکرو انڈسٹریز، ان کارپوریشن نے ’اسکائی رائیڈر ایکس ٹو آ‘ر کے نام سے ایک اڑنے والی کار کا تجرباتی ماڈؒل تیار کیا۔ یہ کمپنی 2019 میں اسکائی رائیڈر کی تجارتی بنیادوں پر فروخت کے لیے پُرعزم ہے۔ اڑنے والی کار کی تیاری میں پیش پیش ممالک میں امریکا، روس، کینیڈا اور چین شامل ہیں۔ امریکی ریاست میساچیوٹس میں قایم ہوائی جہاز تیر کرنے والی چینی کمپنی ٹیرا فیوجیا نے گذشتہ سال ہی دو نسشتوں پر مشتمل فلائنگ کار ’ٹرانزیشن‘ کی کام یاب پرواز کا اعلان کیا۔

کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کرس جاران کا اس بابت کچھ یوں کہنا ہے، ’ہم 2017 میں ہوابازی کے آلات، حفاظتی نظام سے لیس اس فلائنگ کار کی کام یاب تجرباتی پرواز کرچکے ہیں اور اس میں مزید بہتری لا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹرانزیشن کو 2019 کے وسط میں مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا، جب کہ مشہور ٹیکسی سروس اوبر بھی 2020 تک اڑنے والی کار کو مارکیٹ میں لانے کا اعلان کرچکی ہے۔ تاہم ہوا بازی کے ماہرین کے مطابق ٹرانزیشن ہو یا اسکائی رائیڈر فلائنگ کار میں سب سے اہم مسئلہ ان کے اڑان بھرنے اور زمین پر اترنے میں ہے کیوں کہ انہیں اس کام کے لیے جہاز کی طرح کافی جگہ درکار ہوگی، لیکن جیٹ پیک پر ہوا میں اڑنے کے ساتھ ٖفضا میں میں کار چلانے کے خواب کی تکمیل کچھ زیادہ دور نہیں۔

٭ اسمارٹ اور خودمختار کار

اپنے مالک کی حرکات و سکنات اور مزاج سے باخبر رہنے والی گاڑی کی تیاری میں مشہور کار ساز ادارہ بی ایم ڈبلیو اور آئی بی ایم ایک ساتھ سرگرم ہیں۔ اس بارے میں بی ایم ڈبلیو کے ایک ڈائریکٹر Klaus Fröhlich کا کہنا ہے،’ہم آٹو موبائل اور ٹیکنالوجی کے اشتراک سے ایسی کار تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں جو اپنے مالک کی عادت اور مزاج سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی دن بھر کی مصروفیات کا بھی حساب رکھے گی۔

یہ کار نہ صرف آپ کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرے گی بلکہ اپنی مصنوعی ذہانت کی بنا پر آپ کو مشورے بھی دینے کی اہل ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ کار مکمل طور پر خودمختار بھی ہوگی۔‘ برطانیہ بغیر ڈرائیور چلنے والی روبوٹ گاڑیوں کو سڑکوں پر لانے کی اجازت دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔

تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد 2019ء سے ہوگا۔ برطانوی حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق بغیر ڈرائیور گاڑیوں کو تجرباتی طور پر دو سال کے سڑکوں پر لانے کی اجازت دی گئی ہے۔ خودمختار گاڑیاں بنانے کی دوڑ میں جرمنی بھی آگے ہے، لیکن وہاں کا قانون کیٹیگری 5 (بغیر ڈرائیور) گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دیتا، تاہم رواں سال مارچ میں جرمن قانون میں ایک ترمیم کے بعد کیٹیگری 4 درجے کی کار چلانے کی مشروط اجازت دی گئی ہے، جس کے تحت کار خودکار طریقے سے ہی چلے گی لیکن اس میں ایک ڈرائیور کا ہونا ضروری ہے جو ناگہانی صورت حال میں کار کو سنبھال سکے، جب کہ امریکا میں بھی اسی نوعیت کی شرائط پر خود مختار گاڑیوں کو سڑک پر لانے کی اجازت دی گئی ہے۔

تاہم تجارتی بنیادوں پر ابھی تک کیٹیگری لیول 3تک کی گاڑیاں تیار کی گئی ہیں، جن میں ٹیسلا S8اورAudi کی A8 فروخت کے لیے پیش کردی گئی ہیں۔ جب کہ مرسیڈیز بینز کا تجرباتی ماڈل F015 اور Audi 7 سیلیکان ویلی میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ کاریں زیادہ سے زیادہ 125 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق زیادہ تر حادثات محدود نظارے کی وجہ سے پیش آتے ہیں مثال کے طور پر دھند جیسی صورت حال وغیرہ۔ ایسے میں تیزرفتاری سے سفر کرنے والے دوسری کاروں سے مناسب فاصلہ قائم نہیں رکھ پاتے۔ تاہم مصنوعی ذہانت رکھنے والی روبوٹک گاڑیاں ایسی غلطی نہیں کرتیں۔ مستقبل میں کاریں آپس میں بھی معلومات کا تبادلہ کریں گی اور آگے والی کار پیچھے آنے والی کاروں کو ٹریفک جام وغیرہ کے بارے میں آگاہ کر دے گی، جب کہ گوگل اپنی تیار کردہ روبوٹک گاڑی کو کافی عرصے تک پہاڑی علاقوں میں بھی آزماتا رہا ہے۔

تاہم اب تک ایسی گاڑی میں ایک ڈرائیور ہر وقت موجود رہتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ کنٹرول سنبھال سکے۔ ماہرین کے مطابق خودکار طریقے سے سفر کرنے والی کاریں انتہائی محفوظ ہیں، لیکن یہ بے صبرے لوگوں کے لیے نہیں ہیں۔ گوگل کی خودمختار کار ایک لیزر سینسر کی مدد سے اپنے ارد گرد کے ماحول کی تھری ڈی (سہہ جہتی) اسکیننگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس کے علاوہ ان گاڑیوں میں دیگر سینسرز بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ جرمنی کے فرانھوفر انسٹی ٹیوٹ فار کمیونی کیشن اینڈ انفارمیشن (FKIE) کی تیار کردہ خودکار گاڑی ایک یو ایس بی کیمرہ، ایک چھوٹے راڈار اور گلوبل پوزیشننگ سسٹم (GPS) سینسرز کے ذریعے اپنی پوزیشن کو برقرار رکھتی ہے۔ ان کاروں میں لگے سینسرز مختلف چیزوں کے بارے میں معلومات چھوٹے چھوٹے نقاط یا پکسلز کی صورت میں جمع کرتے ہیں۔ کمپیوٹر اس بات کا ادراک کرتا ہے کہ پکسلز کی مدد سے بننے والی تصویر میں سے کون سے حصے کس رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ اس طرح کمپیوٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ کار کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔

٭برقی دھاگا

امریکا کے ممتاز تعلیمی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف میساچیوٹس (ایم آئی ٹی) کی ایک تجربہ گاہ میں محقق جنگ تائی لی اور ان کی ٹیم ایسی ہی کچھ ایجادات پر کام کر رہے ہیں۔ لی ایک ایسی بیٹری بنانے کی تگ و دو میں ہیں جو مچھلی کی ڈور کی طرح پتلی اور طویل عرصے تک چلنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے تجربہ گاہ میں ایک خصوصی مشین نصب کر رکھی ہے، جس میں دھاگے کے طرح باریک نلکیوں میں سے ایل ای ڈیز کو گزارا جاتا ہے۔ اس بابت تائی جنگ کا کہنا ہے کہ اس دھاگے سے تیار ہونے والے لباس کو دفاعی اور صنعتی مقاصد میں استعمال کیا جاسکے گا، تاہم اس کی تجارتی بنیادوں پر فروخت میں ابھی دو سے تین سال کا عرصہ درکا ر ہوگا۔

٭ نینو روبوٹ

حال ہی میں سائنس دانوں نے ایسے روبوٹ ایجاد کیے ہیں جو کہ اپنا توازن قائم رکھنے چلنے ہموار اور غیرہموار راستوں سے گزرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ روبوٹ ماحول کی نگہداشت کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ تاہم امریکا، چین اور روس ایسے نینو روبوٹ کی تیاری میں مصروف ہیں جو جسامت میں تو ایک کیڑے جتنے ہو، لیکن اس سے ہونے والی تباہی ایک بڑے بم جتنی ہو۔

وزن میں ہلکے یہ نینو روبوٹ پوری عمارت کوایک وقت میں تباہ کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ امریکی سائنس داں کرزوائل کا کہنا ہے کہ اگر روبوٹ کی مصنوعی ذہانت پر موثر کنٹرول نہیں رکھا گیا تو پھر یہی روبوٹس انسان پر حاوی ہوجائیں گے جس کی واضح مثال حال ہی میں ہونے والا ایک مقابلہ ہے جس میں ٹیکنالوجی کمپنی آئی بی ایم کے ایک روبوٹ ’واٹسن‘ نے ذہانت کے مقابلے میں انسانوں کو شکست دے کر77 ہزار ڈالر کا انعام جیتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں روبوٹس میں میں ایسی چپ نصب ہوگی جس پر انسانی دماغ کا برقی آپریٹنگ سسٹم اور اس کی یادداشت کو منتقل کرنا ممکن ہوجائے گا اور یہ عام روبوٹ نہیں بلکہ روبوٹس کی شکل میں موجود انسان ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔