سانحہ گجرات

ایڈیٹوریل  اتوار 26 مئ 2013
 گجرات میں اسکول وین میں آگ لگنے سے خاتون ٹیچر سمیت 16 بچے جاں بحق اور9 بچے بری طرح جھلس گئے۔ فوٹو: رائٹرز

گجرات میں اسکول وین میں آگ لگنے سے خاتون ٹیچر سمیت 16 بچے جاں بحق اور9 بچے بری طرح جھلس گئے۔ فوٹو: رائٹرز

پنجاب کے معروف شہر گجرات میں اسکول وین میں آگ لگنے سے خاتون ٹیچر سمیت 16 بچے جاں بحق اور9 بچے بری طرح جھلس گئے۔ اس درد ناک سانحہ  نے نہ صرف گجرات بلکہ پورے ملک کی فضا کو سوگوارکر دیا ہے۔ ہنستے کھیلتے بچے ڈرائیور کی لاپروائی سے چند لمحوں میں موت کی وادی میں اتر گئے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اسکول  وین میں سوار بچوں نے راستے میں گیس اور پٹرول لیکیج کے بارے میں ڈرائیور کو آگاہ کیا تھالیکن اس نے لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنی ان سنی کر دی اور وین چلاتا رہا۔ اسی دوران گاڑی کی تاروں سے چنگاری نکلتے ہی آگ بھڑک اٹھی جس نے پوری وین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔معصوم بچے گاڑی سے نکلنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

ہمارے ملک میں ایسا دلخراش واقعہ پہلی بار رونما نہیں ہوا‘ اس سے قبل بھی متعدد حادثات ہوچکے ہیں، جو اپنی المناکی میں ایک سے بڑھ کر ایک تھے،لیکن شاید ہم ایسے حادثات برداشت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں، بڑے سے بڑے حادثے کے بعد معمولات زندگی دوبارہ سے اپنی ڈگر پر چلنے لگتے ہیں۔ بسوں اور ویگنوں میں گیس سلنڈر پھٹنے کے بھی متعدد واقعات ہو چکے ہیں‘جن میں بیسیوں افراد جاں بحق ہوئے۔کسی بھی حادثہ کے رونما ہونے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے فوری تحقیقات کا وعدہ کیا جاتا ہے مگر چند دن بعد روایتی بے حسی، لاپروائی اور تساہل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحقیقاتی فائل داخل دفتر کر دی جاتی ہے۔حکومت کی جانب سے  ان واقعات کے مستقبل میں انسداد کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئی۔

یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کی غیر قانونی سرگرمیاں بغیر کسی رکاوٹ کے جاری وساری ہیں۔ کئی واقعات میں مسافر بسیں پہاڑ سے کھائیوں میں گر گئیں جس سے درجنوں افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ ابتدائی تحقیقات میں ڈرائیور کی لاپروائی اور تیز رفتاری کو ذمے دار قرار دے کر معاملے کو ٹھپ کر دیا گیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق گجرات کا افسوسناک سانحہ بھی ڈرائیور کی بے حسی کے باعث پیش آیا۔ جب بچوں نے ڈرائیور کو گیس اور پٹرول لیکیج سے آگاہ کیا تھا تو اس کا فرض تھا کہ وہ فوراً وین روک کر اسے چیک کرتا‘ اس طرح اس دلخراش سانحہ سے بچا جا سکتا تھا۔ اس حادثے میں جاں بحق ہونے والی ٹیچر کا قربانی کا جذبہ بھی سامنے آیا جس نے انتہائی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے سات بچوں کی جان بچالی مگر اپنی جان نہ بچا سکی۔

افسوسناک امر یہ کہ بسوں‘ ویگنوں‘ اسکول وینز اور رکشوں کو انتظامیہ کی جانب سے کبھی چیک نہیں کیا گیا۔ متعدد ویگنوں اور اسکول وین کی حالت انتہائی خستہ ہوتی ہے اور قانوناً ان کے سڑک پر آنے پر پابندی ہونی چاہیے مگر انتظامیہ کی ملی بھگت سے ان کھٹارہ وہیکلز پر سرکاری فٹنس سرٹیفکیٹ کی مہریں لگی دکھائی دیتی ہیں۔اسی طرح گیس سلنڈرز کو بھی چیک نہیں کیا جاتا۔ڈرائیوروں کا حال اس سے بھی برا ہے۔ ڈرائیورز کی بھاری اکثریت ناخواندہ ہے، انھیں روڈ سنس ہے نہ وہ ٹریفک قوانین سے آگاہ ہوتے ہیں۔ان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں ہوتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ٹریفک پولیس کی نظروں کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے مگر وہ اس سے نظریں چرا لیتے ہیں۔ٹرانسپورٹ اتھارٹی عضو معطل ہے۔محکمہ ماحولیات کا بھی کوئی وجود نہیں ہے۔ان عوامل نے مل کر ٹریفک حادثات کو جنم دیا ہے ۔

جن اسکولوں یا کالجوں کی اپنی ٹرانسپورٹ ہے، اس کا معیار چیک کرنا اسکول یا کالج انتظامیہ کا فرض ہوتا ہے، لیکن جب سرکار اپنا فرض پورا نہیں کرتی تو نجی شعبہ کیوں کرے گا۔ اکثر دیکھنے میںآیا ہے کہ اسکول وین میں گنجائش سے کئی گنا زیادہ بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسے جاتے ہیں، بہت سے بچے تو وین سے باہر لٹکے ہوئے بھی دکھائی پڑتے ہیں جو انتہائی خطرناک طریقہ ہے اور کسی بھی وقت حادثے کا باعث بن سکتاہے۔ ہمارے ہاں محکمہ ٹرانسپورٹ کے ذمے داروں نے عوام کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے کبھی ان ویگنوں اور اسکول وین کو چیک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ آیا وہ سڑک پر آنے کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔ بسوں اور ویگنوں کے ڈرائیورز زیادہ سے زیادہ سواریاں اٹھانے کے چکرمیں اندھا دھند ریس لگاتے ہیں۔

ان کا یہ عمل بعض اوقات حادثے کا سبب بھی بن جاتا  اور انسانی جانیں لے جاتا ہے۔ پریشان کن امر یہ نہیں کہ ڈرائیور حضرات ایسا کیوں کرتے ہیں زیادہ افسوسناک معاملہ یہ ہے کہ ذمے دار سرکاری ادارے بارہا شکایات کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ سڑکوں پر موت بانٹتی ان ویگنوں ، بسوں  اور اسکول وینز کو دیکھ کر یہ احساس جنم لیتا ہے کہ حکومت اور سرکاری اداروں کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدر اور قیمت نہیں اور انھوں نے ان ڈرائیورز کو آزاد چھوڑ رکھا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہاں ہر سال جتنے افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہو جاتے ہیں، اتنے دہشت گردی میں ہلاک نہیں ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی شرح  پاکستان میں سب سے آگے معلوم ہوتی ہے۔ ٹریفک حادثات ہوں یا کسی بلند عمارت میں آتشزدگی کا معاملہ‘ ایسے حادثات سے بچنے کا کوئی میکنزم تیار نہیں کیا  گیا۔

پاکستان میں ریاستی اداروں کی زوال پذیری کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ عوامی بہبود اور ایمرجنسی سے نبٹنے والے ادارے تقریباً ختم ہو گئے ہیں‘ فائر بریگیڈ فعال رہا نہ شہری دفاع کا محکمہ۔ٹریفک پولیس اپنا فرض پورا کرتی ہے نہ محکمہ ٹرانسپورٹ اور ان سب سے اوپر وزیر، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم  جو صرف تعزیتی بیان جاری کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں، اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ کثیر منزلہ عمارت میں آگ لگ جاتی ہے اور وہاں موجود لوگ بے بسی کی موت مارے جاتے ہیں حالانکہ انھیں بچایا جا سکتا ہے‘اسی طرح بسوں‘ ویگنوں کو آئے روز حادثات پیش آتے ہیں‘ ان سے بھی بچا جا سکتا ہے‘ اس سارے کھیل میں انتظامیہ اور متعلقہ اداوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘ گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنے والے ادارے متحرک ہوں تو کسی گاڑی میں شارٹ سرکٹ ہو نہ پٹرول کی لیکیج ہو اور نہ ہی گیس سلنڈر پھٹنے سے جیسے واقعات ہو سکتے ہیں‘ سانحہ گجرات نے سارے ملک کو رلا دیا ہے‘ شاید حکمرانوں کی آنکھوں سے بھی کوئی آنسو ٹپکے اور وہ اپنی اصلاح کرتے ہوئے اداروں کا احتساب کریں تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات نہ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔