تیزی سے بدلتا سیاسی منظر نامہ

مقتدا منصور  اتوار 26 مئ 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پاکستانی عوام ابھی انتخابات کے مرحلے سے پوری طرح فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ دو روزہ دورہ پر اسلام آبادتشریف لے آئے۔ جس کی وجہ سے انتخابات کے حوالے سے اٹھنے والے ان گنت سوالات اور اعتراضات وقتی طورپر دب گئے۔ حالیہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کمزوریوں اور ہونے والی روایتی دھاندلیوں سے قطع نظرسیاسی جماعتوں کی کارکردگی اورعوامی رجحانات میں پیداہونے والی تبدیلیوں نے بھی بیشمار سوالات اٹھادیے ہیں۔

کچھ جماعتوں نے اس سوالات اور ان کے مضمرات کا ادراک کرتے ہوئے اندرونی احتساب اور تنظیم نوکا سلسلہ شروع کردیا ہے،کچھ جماعتیں اس بارے میں غورکررہی ہیں،جب کہ باقی سکون کے ساتھ اپنی سابقہ روش پر قائم ہیں۔لہٰذایہ دیکھنا ضروری ہوگیا ہے کہ جن جماعتوں نے تطہیراور تنظیم نوکاسلسلہ شروع کیا ہے، اس کے نتیجے میں سیاسی عمل میں کس قسم کی تبدیلی کا امکان ہے اور قومی سیاست پر اس پوری صورتحال کیا اثرات مرتب ہوں گے؟اس کے علاوہ کیادیگر جماعتیں بھی اس عمل سے گذرنے کے لیے ذہنی طورپر تیار ہیں؟

تحریک انصاف پاکستان کی وہ پہلی سیاسی جماعت ہے،جس نے جماعت کے اندرجمہوری عمل کو مستحکم کرنے کے لیے یونین کونسل کی سطح سے مرکزتک اندرونی انتخابات کا سلسلہ شروع کیا ،جو عام انتخابات سے دو ماہ قبل تکمیل پذیر ہوا۔اسی لیے اس کے رہنماء یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انھیں انتخابی مہم چلانے کا بہت کم وقت ملا،جس کی وجہ سے وہ صحیح کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔بہر حال اسباب جو بھی ہوں،اس جماعت نے قبل از انتخابات کیے گئے سرویز اورجائزوں سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس کے علاوہ اس پورے ملک میںمجموعی طورپر پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔تحریک انصاف نے خیبر پختونخواہ کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی بعض چونکادینے والے نتائج دیے ہیں۔

بہت سے ایسے حلقے بھی ہیں،جہاں وہ کامیاب نہیں ہوسکی، لیکن اس نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ اس طرح تحریک انصاف نے کئی دہائیوں سے سیاسی منظرنامہ میں مضبوط حیثیت میں موجود سیاسی جماعتوں کو اپنی پالیسیوں کا ناقدانہ جائزہ لینے اور خوداحتسابی کی طرف راغب ہونے پر مجبور کردیا ہے۔تاکہ ان کمزوریوں اور کوتاہیوں پر قابو پایا جاسکے، جس کی وجہ سے ان کے قدموں تلے سے زمین کھسکناشروع ہوگئی ہے۔اس سلسلے میں پہل عوامی نیشنل پارٹی نے کی۔اس نے انتخابات میں شکست کو قبول کرتے ہوئے اپنی پانچ سالہ خراب کارکردگی اور شکست کاجائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی، جو پارٹی سربراہ اسفندیارولی خان کے مطابق ان کا بھی احتساب کرنے کی مجاز ہوگی۔اگر یہ عمل پوری دیانت داری کے ساتھ میرٹ پر کیا جاتا ہے، تو امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں باچا خان مرحوم کے افکار کی وراث یہ جماعت ایک نئے اور بہترتنظیمی ڈھانچے کے ساتھ اپنے نئے سیاسی سفرکا آغاز کرتی نظر آئے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ 1980ء کے عشرے میں اپنے قیام کے وقت یہ ایک قومی سیاسی جماعت کے طورپر ابھر کر سامنے آئی تھی، جس میں پورے ملک کی ترقی پسند اور قوم پرست قیادت شامل ہوئی تھی۔اس وقت اس کے مرکزی صدر ولی خان مرحوم تھے،جب کہ نائب صدر آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری مرحوم اور رسول بخش پلیجو جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے تھے۔ بعد میں جب عوامی نیشنل پارٹی نے پختون قوم پرست سیاست کی راہ اختیار کی تو سندھ اور پنجاب سے بائیں بازوکی قیادت اس سے الگ ہوگئی تھی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اصلاحی عمل سے گذرنے کے بعد اپنی سیاست کو صرف پختون قوم پرستی تک محدود رکھتی ہے یا NAP کے اندازمیں ملک گیر سیاست کی طرف بڑھتی ہے۔

دوسری سیاسی جماعت یا تنظیم جس نے انتخابات کے فوراً بعدنیچے سے اوپر تک تطہیری عمل کا آغاز کیا ہے،وہ متحدہ قومی موومنٹ ہے۔ایم کیو ایم کے نظریات اور طرز سیاست سے اختلاف رکھنے والے حلقوں کی رائے سے قطع نظر،جواس کے وجود میں آنے کے مختلف اسباب بیان کرتے ہیں، غیر جانبدار مبصرین کا مشاہدہ یہ ہے کہ یہ ملک (اورشاید ایشیاء)کی پہلی سیاسی تنظیم ہے،جو طلبہ تنظیم سے سیاسی جماعت کی طرف بڑھی ہے۔یہ جماعت گلی اور محلوںمیں ہونے والی میٹنگوں کے نتیجے میں تشکیل پائی ہے،جس کی وجہ سے اس کا مرکز ومحور نچلے متوسط طبقے کی بستیاں ہیںاور اس کی جڑیں سماج کی نچلی ترین سطح تک پیوست ہیں۔

دیگر سیاسی جماعتوں کے برخلاف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین وہ واحد رہنماء ہیں،جوا پنے کارکنوں سے براہ راست اور مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ ان کی فوری معلومات اور فیصلہ سازی کا اہم ترین ذریعہ یہ کارکن ہوتے ہیں۔اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایم کیو ایم کی طاقت کا اصل منبیٰ وہ کارکن ہیں،جو منظر عام پرآئے بغیر تنظیمی نظام چلاتے ہیں۔اس لیے درمیانہ درجہ کی قیادت کے آگے پیچھے ہوجانے سے اس جماعت کی ہئیت پر زیادہ اثر نہیں پڑتا۔قارئین کی یاددہانی کے لیے یہ بھی عرض ہے کہ 1991ء کے بعد ایم کیو ایم کی تاریخ کا سب سے بڑا تطہیر ی عمل ہے ،جس کے بہر حال اس جماعت کی کارکردگی اور قومی سیاست پر دور رس نتائج مرتب ہونے کاامکان ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ میں شروع ہونے والے احتسابی اور تطہیری عمل سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان دونوں جماعتوںکو سیاسی منظرنامے میں تیزی سے رونماء ہونے والی تبدیلیوں کااحساس ہوچکاہے اوروہ اس سے نمٹنے کے لیے ٹرانسفارمیشن کے عمل سے گذررہی ہیں۔مگر متذکرہ بالادونوںجماعتوں کے برعکس پیپلز پارٹی جوگزشتہ نصف صدی سے ملک کی سب سے بڑی وفاقی جماعت چلی آ رہی ہے، اس نے اپنی حالیہ شکست اورووٹوں کی مجموعی تعداد میں آنے والے حیرت انگیز کمی کامختلف پہلوئوں سے جائزہ لینے کی اب تک زحمت گوارا نہیں کی ہے۔اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کو ان46برسوں کے دوران ایک سے زائد مرتبہ شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے،مگر جس انداز میں اس مرتبہ اس کے ووٹوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، وہ اس کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کا جائزہ لیا جائے تو کئی اسباب سامنے آتی ہیں۔ اول، گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی اور پارٹی کی قیادت اس کا موثر دفاع نہیں کرسکی۔ دوئم، آصف علی زرداری کے صدربن جانے کے بعد پارٹی میں قیادت کا بحران پیدا ہوگیا۔ بلاول جنھیں پارٹی کی قیادت سونپی گئی، وہ ابھی اس قابل نہیں ہوئے ہیں کہ وہ اپنے نانااور والدہ کے انداز میں پارٹی کو متحرک کرسکیں۔ سوئم،پارٹی کی دوسرے درجہ کی قیادت اور کارکنان 1970ء کی ذہنی کیفیت سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ہیں۔چہارم،پارٹی میں موجودمختلف مفادات کے گروہ پارٹی میں تنظیمی نظم وضبط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے پارٹی میں تطہیراورتنظیم نوکا عمل تعطل کا شکار ہے۔بہرحال جلد یا بدیر پیپلز پارٹی کوبھی  اپنی سابقہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے تنظیم نو کے سفاکانہ عمل سے گذرنا ہوگا۔

اب مسلم لیگ(ن)کی طرف آتے ہیں۔ اس جماعت نے حالیہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن سندھ اور خیبر پختونخواہ میںاس کی کارکردگی ناقص رہی ہے۔ خاص طورپر سندھ میںجہاں یہ جماعت تنظیمی طورپر خاصی کمزور ہے اور صوبائی سطح پر قیادت کے بحران کا شکار ہے۔ اس وقت مسلم لیگ(ن) حکومت سازی کے عمل میں مصروف ہے اور اسے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینے کی فرصت نہیں ہے۔لیکن اسے اندازہ ہونا چاہیے کہ عوام کے رجحان اور رویوں میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔اس لیے اب وہ جذباتی نعروں کے سحر میں گرفتار ہونے کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر کارکردگی کا جائزہ لینے لگے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران حکومتِ پنجاب کی کارکردگی دیگر صوبوں سے خاصی بہتر تھی، لیکن مجموعی طورپر تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔اس لیے اپنے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلم لیگ(ن) کو بھی پارٹی کی تنظیم کو مزیدفعال بنانے پر توجہ مرکوزکرنا پڑے گی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی کی روایت پڑناشروع ہوگئی ہے۔ اس لیے فیصلہ سازی میں پارلیمان کی مکمل با اختیاریت اور سیاسی عزم واعتماد کے ساتھ حکمرانی کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے رویوں اور رجحانات میں تبدیلی لانے کی اشدضرورت ہے۔ اس کے علاوہ تیزی سے تبدیل ہوتے سیاسی منظر نامے کا تقاضہ ہے کہ سیاسی جماعتیںاپنے اندرونی تنظیمی ڈھانچے کو مزید مستحکم اور فعال بنائیں۔ خدشہ یہ ہے کہ جو جماعت اس عمل سے گذرنے میں پس وپیش سے کام لے گی، وہ آنے والے برسوں میں کافی پیچھے چلی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔