کھربوں ڈالر لاکھوں جانوں کا زیاں

ظہیر اختر بیدری  اتوار 26 مئ 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

اخبار میں ہماری نظر ایک تصویر پر پڑی جس میں ایک ٹریلر پر امریکا کی ایک فوجی گاڑی رکھی ہوئی جو افغانستان سے کراچی کی بندرگاہ جانے کے لیے نکلی تھی، پشاور کے قریب اس پر ’’نامعلوم‘‘ افراد نے گولیاں چلائیں جس کی وجہ سے یہ ٹریلر پشاور کے نواح میں رکا ہوا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے ایک سپاہی کھڑا نظر آرہا ہے۔ یہ ٹریلر اس ٹرانسپورٹ کا حصہ ہے جو افغانستان میں موجود کھربوں ڈالر کے جنگی سامان کو امریکا پہنچانے میں حصہ لے رہا ہے۔

اس ٹریلر کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں دنیا کی واحد سپر پاور کی ذلت رسوائی اور ناکامی کا ایک ایسا تصور ابھرا جو بہت شرمناک تھا۔ امریکی جنگی سازوسامان کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے اور اس سازو سامان پر ’’نامعلوم افراد‘‘ کے حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکا نے چونکہ 2014 تک افغانستان سے نکلنے کا واضح اعلان کردیا ہے لہٰذا اسے اپنے کھربوں ڈالر کے جنگی سازوسامان کو بہرصورت میں 2014 سے پہلے پہلے واپس منگوانا ہے۔ یہ ایک مشکل ٹاسک ہے کیونکہ نامعلوم افراد اس سامان کو خیریت سے امریکا تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

امریکی حکمران طبقہ اپنی محفوظ واپسی کے لیے ’’معلوم افراد‘‘ سے جو مذاکرات کرتا رہا ہے وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں نواز شریف کو برسر اقتدار لانے کا ایک مقصد بھی امریکی ساز و سامان کو محفوظ طریقے سے امریکا لانے میں تعاون حاصل کرنا ہے، امریکا کو اس دس سالہ بے مقصد جنگ کے دوران جہاں کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا وہیں لاکھوں بے گناہ افغانوں کا جانی نقصان بھی ہوا۔ اس نقصان اور ذلت و رسوائی کی ذمے داری سابق امریکی صدر جارج بش پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے 9/11 کے بعد ہوش کے بجائے جوش سے کام لیتے ہوئے افغانستان پر حملہ کردیا اور اس  کے نتیجے میں چند دہشت گردوں کا ایک گروہ جس کی سرگرمیاں افغانستان تک محدود تھیں دنیا کے ایک ایسے نیٹ ورک اور طاقت میں بدل گیا جس کی ’’پرامن سرگرمیوں‘‘ سے اب دنیا کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں، جن میں امریکا بھی شامل ہے۔ بوسٹن کے علاوہ امریکا کے کئی شہروں میں ان نامعلوم افراد کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسیاں جو ایبٹ آباد سے اسامہ کو لے اڑیں اب تک ان نامعلوم افراد کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

11 مئی کے پاکستانی الیکشن میں جن سیاسی جماعتوں کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اس کا بڑا سبب ان جماعتوں کی ناقص کارکردگی ہے اور اس ناقص کارکردگی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایسے منصوبہ ساز، ایسے تھنک ٹینک موجود نہ تھے جو حکمرانوں کو گڈگورننس کے لیے گائیڈ لائن فراہم کرتے، لیکن امریکا کے پاس تو تھنک ٹینک موجود ہیں ، لیکن تھنک ٹینکوں کی اس بہتات کے باوجود غالباً کسی نے صدر بش کو یہ نہیں بتایا کہ روس جیسی دوسری سپر پاور کو یہاں سے سخت رسوائی کے ساتھ واپس جانا پڑا تھا۔ روس کے حشر کی پروا بش حکومت نے غالباً اس لیے نہیں کی تھی کہ روس کو نکالنے میں انھوں نے جن دہشت گردوں کو استعمال کیا تھا وہ اس کے قابو میں رہیں گے لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ روس کو نقصان پہنچانے والے دہشت گرد روس سے زیادہ امریکا کے درپے آزار ہوگئے۔

امریکا کے سابق صدر نے اپنی مہم جوئی میں اپنے پچاس کے لگ بھگ اتحادیوں کے ساتھ پاکستان کو بھی گھسیٹ لیا اور پاکستان اپنے فرنٹ لائن اسٹیٹ ہونے کے اعزاز کی ایسی سزا پا رہا ہے کہ خیبر سے لے کر کراچی تک بے گناہ پاکستانیوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔  صدر بش نے عراق پر حملہ کرکے جہاں اپنے اربوں ڈالر اور ہزاروں فوجیوں کا نقصان کیا وہیں لگ بھگ 5 لاکھ عراقی بھی اس جنگ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور عراق میں وہ خطرناک  جنگ کا آغاز ہوا جس میں ہر روز سیکڑوں عراقی مسلمان محض اس لیے ایک دوسرے کی جان لے رہے ہیں کہ یہ الگ الگ فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ فرقہ وارانہ جنون عراق پر امریکی قبضے کے دوران پیدا ہوا۔ عراق کے مقتول صدر صدام حسین کے دور میں اگرچہ کہ کچھ جانوں کا اس حوالے سے زیاں ہوا لیکن جو فرقہ وارانہ قتل و غارت گری امریکا کی عراق میں موجودگی کے دوران اور بعد میں ہورہی ہے اس کے بھیانک روپ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان میں بالادست طاقتوں نے ایک طرف انتہا پسند جماعتوں کو کالعدم قرار دیا تو دوسری طرف انھیں مختلف ناموں سے کام کرنے کی اتنی بے لگام آزادی دے دی کہ اب یہ طاقتیں خود ان مہربان اور عاقبت نااندیش بالادستوں کو بے دست و پا بنا رہی ہیں۔ حالیہ الیکشن میں جو دو جماعتیں بڑی طاقتوں کی طرح ابھری ہیں ان کے ابھرنے، ان کے کامیاب ہونے کی وجہ تو سابقہ حکومتوں کی نااہلیاں اور ناقص کارکردگی ہے، لیکن جو جماعتیں بڑی طاقتوں کی صورت میں سامنے آئی ہیں کیا انھیں یہ ادراک نہیں کہ انتہاپسند نہ انتخابات کو مانتے ہیں نہ جمہوریت کو نہ حکومت کو نہ ریاستی اداروں کو تو پھر انتخابات جمہوریت پر یقین بلکہ ایمان رکھنے والی ان نئی طاقتوں کو اس حقیقت کا بھی ادراک نہیں کہ کل یہی انتہاپسند طاقتیں ان کے سامنے بھی بندوق اٹھاکر کھڑی ہوجائیں گی۔

ہمارا ملک، ہمارا معاشرہ اب بہت واضح طور پر دو متضاد فکر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حالیہ الیکشن میں بڑی جماعتوں کی حیثیت سے ابھرنے والی ان دو جماعتوں کو اس خطرے کا احساس ہے جو 18 کروڑ پاکستانیوں کے سروں پر منڈلا رہا ہے؟ اس کا جواب ہمیں نفی میں یوں لگ رہا ہے کہ ممکن حکمران جماعت جس مفاہمتی پالیسی اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کر رہی ہے ان ساتھ چلنے والوں میں وہ جماعتیں شامل نظر نہیں آرہی ہیں جو دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ کیا اقتداری سیاست اس قدر اندھی ہوتی ہے کہ وہ ملک و قوم کے اجتماعی مفادات اور خود اپنی بقاء کا احساس بھی نہیں کرتی۔

ہماری شکست خوردہ جماعتیں اگرچہ عوامی حمایت سے محروم ہوگئی ہیں لیکن اس ملک میں اب بھی انتہاپسندی کی مخالف بے شمار تنظیمیں اور جماعتیں موجود ہیں جنھیں ایک مرکز پر لایا جائے تو وہ بڑی آسانی سے انتہاپسندی کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ عوام نے اگرچہ سابقہ حکومتوں کو مسترد کردیا ہے لیکن ان کے مسترد کرنے کی وجہ ان کی ناقص اور مایوس کن کارکردگی ہے ان کے نظریات نہیں، عوام نے 11 مئی کو منفی فکر کی جماعتوں کو بھی مسترد کردیا ہے اگر عوام کو مستقبل کے سر پر لٹکنے والے خطرے سے آگاہ کیا جائے تو عوام بلاشبہ ان طاقتوں کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے جو کھلے عام خیبر سے کراچی تک بے گناہ عوام کا خون بہا رہی ہیں مسجدوں، مدرسوں کو تباہ کر رہی ہیں۔

پاکستان اور ساری دنیا کے سر پر آج جو خطرہ منڈلا رہا ہے اس کی اصل ذمے داری امریکا کے سابق صدر بش پر عائد ہوتی ہے۔ امریکا کو عراق اور افغانستان کی جنگ میں جو کھربوں ڈالر اور ہزاروں اپنے فوجیوں کی جانوں کا نقصان ہوا اور آج ساری دنیا کے سر پر جو خطرہ منڈلا رہا ہے اس کی ساری ذمے داری سابق صدر بش پر عائد ہوتی ہے۔ امریکا کے عوام بیدار اور باشعور ہیں انھیں یقیناً یہ احساس ہوگا کہ امریکا کو ساری دنیا میں ذلیل و رسوا کرنے امریکا کو کھربوں ڈالر کا نقصان پہنچانے والے اور 10 لاکھ کے لگ بھگ عراقی افغان  اور پاکستانی عوام کا خون امریکا کے سابق صدر بش کی گردن پر ہے۔ امریکا میں قانون اور انصاف کی بالادستی کا اصول کارفرما ہے امریکا جنگی مجرموں کو سزا دلانے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے، امریکا کی عدالتیں ایک ضعیف عورت کو اگر فوجیوں پر گولی چلانے کے جرم میں 86 سال کی سزا دے سکتی ہیں تو پھر کھربوں ڈالر کا نقصان کرنے 10 لاکھ بے گناہ انسانوں کی جان لینے والے اور امریکا کو ساری دنیا میں ذلیل و رسوا کرنے والے کو کیا سزا ملنی چاہیے۔ اس کا جواب آج دنیا امریکا کے عوام امریکا کے قانون اور انصاف سے طلب کر رہی ہے۔ کیا اوباما دنیا کے عوام کے سوال کا جواب دیں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔