کیا ہم دانشوروں کے غچے میں آ جائیں گے؟

تنویر قیصر شاہد  اتوار 26 مئ 2013
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

کیا یہ ایجاد یا ذریعۂ مواصلات بنی نوعِ انسان کے لیے مفید ہے؟ کیا اِسے نعمت قرار دیا جا سکتا ہے یا اِسے محض عالمِ اسلام اور مسلمانوں کی دل آزادی کے لیے منصۂ شہود پر لایا گیا؟ پوری مغربی دنیا، مسلمانوں کے بے پناہ احتجاج کے باوصف، اِس کے تحفظ پر تُلی نظر آتی ہے اور اِسے آزادیٔ اظہار کا نام دیا جا رہا ہے۔ اہلِ مغرب نے مسلمانوں کے جذبات پامال کرنے کا الگ پیمانہ کیوں وضع کر رکھا ہے؟

تقریباً آٹھ برس قبل، 14 فروری 2005ء کو، یہ شیطانی چرخہ منظرِ عام پر آیا۔ اِس کی ایجاد میں دو امریکی عیسائی نوجوان (سٹیوچن اور چائو ہرلے) اور ایک مسلمان نوجوان (جاوید کریم) شامل تھے۔ اِسے لانچ کرنے میں تقریباً ساڑھے گیارہ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی اور وہ بھی ایک امریکی سرمایہ دار کی سپانسر شپ میں لیکن اِس نے برق رفتاری سے کامیابی کے کیسے کیسے سنگِ میل قائم کیے، اِس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف تین سال بعد اِس کے اثاثوں کی مالیت دو سو ملین ڈالر سے تجاوز کرنے لگی تھی۔

اِس کا صدر دفتر تو امریکی ریاست کیلیفورنیا میں قائم کیا گیا تھا لیکن آج وہ دنیا کے کسی بھی ملک، کسی بھی خطے میں اپنے دفاتر استوار کر سکتے ہیں کہ اِس شیطانی چرخے نے دنیا کے بیشتر انسانوں کو ہلاکت خیز تیندو ے کی طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہ ایجاد دنیا کی54 زبانوں میں بروئے کار ہے، چنانچہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اِس کے توسط سے کوئی بھی پیغام، کوئی بھی فلم، کوئی بھی مقالہ کس تیزی کے ساتھ دنیا کے کروڑوں انسانوں تک پہنچ سکتا ہے۔ شاید اب تک اربوں افراد اِسے زیرِ استعمال لا چکے ہیں۔ ہر وہ شخض جو کمپیوٹر مشین سے بنیادی واقفیت رکھتا ہے۔ وہ اِس نئی ایجاد سے بھی آشنا ہے۔

اِسے ہم یُو ٹیوب کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں جس نے عالمِ اسلام اور مسلمانوں کے دل دکھانے کی بار بار غلیظ حرکتیں کی ہیں۔ پاکستان میں کچھ عرصہ سے اِس پر پابندیاں عائد ہیں لیکن ہمارے بعض نام نہاد دانشور مختلف دلائل اور تاویلات سے ہمیں یہ باور کرانے کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں کہ اب حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اِن پابندیوں سے دستکش ہو جائے۔ ایسے دانشوروں کا کہنا ہے: ’’دنیا بھر میں یوٹیوب سے استفادہ کیا جا رہا ہے، اِس کے علمی مقالات سے ذہنوں کو  ’’منور‘‘ کرنے کا عمل جاری ہے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں یوٹیوب پر پابندیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ تو علم سے انکار کے مترادف ہے۔‘‘ غیروں کے مفادات کے تحفظ میں ’’علم‘‘ کے نام پر یہ دانشور ہمیں دراصل غچہ دینا چاہتے ہیں۔

یوٹیوب کے اِن مبلغین سے استفسار کیا جا سکتا ہے کہ جنابِ والا، آپ اپنے دلائل و براہین میں اسلام کے خلاف اِس ایجاد کے دانستہ جرائم کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ کیوں نہیں بتاتے کہ یوٹیوب نے کس کس شکل میں مسلمانوں اور عالمِ اسلام کا دل دُکھایا ہے اور بار بار دُکھایا ہے اور اہلِ اسلام کے جینوئن احتجاجات کے باوجود یوٹیوب  کے منتظمین اور مالکان کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگی۔ کیاایسی بے شرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا وہ دنیا کی اجتماعی اخلاقیات کے قطعی پابند نہیں؟ افسوس تو امریکا پر بھی ہے جس کی سر زمین پر بیٹھ کر یہ شیطانی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ امریکا ایک طرف تو انسانی حقوق کے نام پر اُن ممالک کی فہرستیں جاری کرتا ہے جہاں مبینہ طور پر مذہب اور عقائد کے نام پر بعض انسانوں کو تادیب و تعذیب کا ہدف بنایا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر 22 مئی 2013ء کو امریکا کی طرف سے جاری ہونے والی فہرست جس میں انسانی حقوق کی پامالی کے نام پر پاکستان سمیت ایران اور سعودی عرب کو بھی ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے لیکن دوسری طرف یہی امریکا مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے خلاف جاری کی جانے والی مہمات اور سرگرمیوں پر کوئی قدغن لگانے سے دانستہ گریز کرتا ہے۔  حیرت ہے انکل سام کو اِس طرف بنیادی اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتیں۔ اِسی تضاد کی بنا پر عالمِ اسلام میں امریکا کے بارے میں ناپسندیدگی کے جذبات میں گزشتہ چند برسوں کے دوران کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

یُو ٹیوب نے نہایت شر انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا، اپنی ویب پر امریکی ملعونوں کی بنائی گئی فلم کی تشہیر کی، جس نے مسلمان ممالک کے ہر شخص کا دل دُکھایا۔ اِس کے باوجود ہم سے یہ مطالبہ کہ پاکستان میں یو ٹیوب پر لگائی گئی پابندیاں اُٹھا لی جائیں۔ کیا ہم امریکا یا امریکا پسند دانشوروں کے مطالبے پر پابندیاں اٹھا کر بے حسی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟ بخدا، اگر ہمارے کسی حکمران نے ایسا قدم اٹھانے کی ذرا سی بھی جسارت کی، اُسے تباہ کُن رد ِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یُو ٹیوب نے اُس وقت بے شرمی اور مسلمانوں کی دل آزادی کی انتہا کر دی تھی جب گزشتہ برس اِس نے ایک ملعون امریکی فلم ساز نکولا بیسلے کی بنائی گئی INNOCENCE   MUSLIMS نامی ایک فلم اَپ لوڈ کی۔ یہ دراصل مغرب کا نبی کریم کی ذاتِ با برکات پر براہ راست دانستہ حملہ تھا۔ اِس توہین آمیز فلم کو مسلمان کیسے برداشت کر سکتے تھے؟ چنانچہ مغربی ممالک سمیت عالمِ اسلام میں خوں ریز ہنگامے پُھوٹ پڑے۔ درجنوں مسلمان لُقمہ اجل بن گئے۔ خصوصاً پاکستان میں رد ِعمل تو نہایت شدید تھا۔ لیبیا، جہاں قذافی کو قتل کروا کر امریکا مکمل طور پر قابض ہو چکا ہے، میں امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونز بھی ایسے ہی ہنگاموں کی نذر ہو گیا۔ پاکستان سمیت ایران، لیبیا، مصر، افغانستان کے عوام نے اپنے اپنے ممالک میں یُو ٹیوب پر مکمل پابندیاں عائد کرنے کے مطالبات کر دیے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں وزیرِ اعظم سمیت اعلیٰ عدالتوں نے بھی اِس شر انگیز اور شیطانی چرخے پر مکمل پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کر دیے جو اب تک جاری ہے۔

’’جدید علم‘‘ کے حصول میں ہم نام نہاد جدید دنیا کی زبان درازی اور طعنے تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن یہ منظر ہمارے لیے قطعی ناقابلِ برداشت ہے کہ یُو ٹیوب ایسے شیطان ہمارے عقائد کو ڈائنامائیٹ کرنے کی کسی ابلیسی شرارت کے مرتکب ہوں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یُو ٹیوب کے خلاف اربوں مسلمانوں کے احتجاجات کے باوجود امریکی اور مغربی ممالک باز نہیں آ رہے۔  اُنہوں نے ابھی تک یُو ٹیوب سے مسلمانوں کے خلاف اَپ لوڈ کیے گئے دل شکن و دل آزار مواد ختم نہیں کیے بلکہ اِس میں قدرے اضافہ ہی کروایا گیا ہے۔ یُو ٹیوب پر اب بھی افواجِ پاکستان کے خلاف اور اینٹی پاکستان مواد کی بھی بھرمار نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر ایسا ویڈیو مواد جس میں دہشت گردوں کے ہاتھوں افواجِ پاکستان کے اغوا کیے گئے جوان جنھیں قطار میں کھڑا کر کے دہشت گرد کلاشنکوفوں سے شہید کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کیا یہ پاکستان مخالف عناصر کی کھلی شرارت نہیں جنھیں غیر ممالک کی بھی کسی نہ کسی شکل میں سپورٹ حاصل ہے؟

یُو ٹیوب کی دانستہ شیطانیوں اور شرانگیزیوں کی وجہ سے اِس کی انتظامیہ کا پہلا تصادم ترکی سے ہوا تھا جب اِس نے مصطفٰے کمال اتاترک پر رکیک حملے کیے؛ چنانچہ ترکی میں یو ٹیوب بند کر دی گئی۔ پھر 2007ء میں اِس کا دوسرا تصادم چین سے ہوا، تیسرا تھائی لینڈ سے اور پھر ایران سے۔ مصر، بنگلہ دیش، لیبیا کے ساتھ بھی اِس کے تصادم ہو چکے ہیں۔ جب تھائی بادشاہ کے خلاف زبان درازی کی گئی تو یو ٹیوب انتظامیہ کو لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔ اگر ترکی اپنے بابائے قوم اور تھائی لینڈ اپنے بادشاہ کے خلاف یُو ٹیوب کی ہفوات برداشت نہیں کر سکتا تو ہم سب مسلمان دینِ اسلام کے خلاف اِس کی توہین آمیز جسارتیں کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ رہی یو ٹیوب کے توسّط سے جدید ترین علوم کے حصول کی بات، تو میَں کہتا ہوں بھاڑ میں جائے ایسا علم جس کے حصول کے لیے ہمیں دینِ مبین پر مغربیوں کے حملے بھی برداشت کرنا پڑیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔