’ سب گول مال ہے‘

اصغر عبداللہ  اتوار 26 مئ 2013
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

’’ہیرا پھیری‘‘ مشہور مزاحیہ فلم ہے۔ فلم کیا ہے، ایک کامیڈی سرکس ہے۔ تین کردار ہیں، راجو، شیام اور بابو بھیا۔ راجو اور شیام بات بات پر ایک دوسرے سے لڑتے  ہیں، لیکن پھر مطلب کی بات پر اکٹھے بھی ہو جاتے ہیں۔  مالک مکان بابو بھیا، جو نسبتاً ایک نرم دل اور سادہ لوح آدمی ہیں، دونوں کے ہاتھوں کبھی دانستہ، اور کبھی نادانستہ ’نشانہ‘ بنتے  رہتے ہیں۔ یہ آنکھ مچولی ساری فلم میں چلتی ہے۔ سب سے مزیدار سین وہ ہوتا ہے، جب وقفہ وقفہ سے ایک چھناکا ہوتا ہے، اور بابو بھیا کے کان میں یہ بول گونجتا ہے کہ ’سب گول مال ہے، بھئی سب گول مال ہے‘۔ یہ گویا اس امر کا اشارہ ہوتا ہے کہ ’بابو بھیا، ذرا بچ کے، آگے معاملہ گڑ بڑ ہے، راجو اور شیام تمہارے ساتھ ہاتھ کرنے والے ہیں۔‘ بابو بھیا اس پر چونکتے تو ہیں، پر بدستور ’نشانہ‘ بنے رہتے ہیں۔

لیکن، یہ اشارہ کہ، ذرا بچ کے‘ آپ کو صرف فلموں میںہی مل سکتا ہے، حقیقت کی دُنیا میں تو جب سب کچھ ہو جاتا ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ ’سب گول مال ہے‘۔ ۱۱ مئی آئی اور گزر گئی۔ ایک ہلچل تو مچی، ایک شور تو اُٹھا، لیکن ایک بار پھر سب کچھ پہلے جیسا ہے۔ شاعر نے کہا تھا ’آسماں حد ِنظر، رہ گزر رہ گزر، شیشۂ  مے شیشۂ مے‘۔ تبدیلی آئی ہے تو صرف یہ کہ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی پوزیشنیں تبدیل ہو گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کی جگہ اب ن لیگ کے میاں نواز شریف وزیر ِ اعظم ہوں گے۔ اس طرح ن لیگ کے چوہدری نثار علی خان کے بجائے اب پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ قائد ِحزب ِ اختلاف ہوں گے۔

سندھ میں پہلے بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، اب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہو گی۔ پنجاب میں پہلے بھی ن لیگ کی حکومت تھی، اب بھی ن لیگ کی حکومت ہو گی، وہی وزیر ِ اعلیٰ شہباز شریف، وہی وزیر ِ اعلیٰ قائم علی شاہ۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی ’مخلوط حکومت‘ کے بعد اب ن لیگ کی ’مخلوط حکومت‘ آ جائے گی۔ سینیٹ کے چیئر مین پیپلز پارٹی کے نیرّ بخاری ہی رہیں گے، اور ایوان صدر پر ’سب پر بھاری‘ آصف علی زرداری کا پھریرا بدستور لہراتا رہے گا۔ ۱۱ مئی کے انتخابات کو پیشگی طور پر ’تاریخی‘ قرار دیا جا رہا تھا۔ یہ پیش گوئی درست نکلی۔ یہ پہلے الیکشن ہیں کہ الیکشن کمیشن تو کامیاب الیکشن پر ’قوم‘ کو مبارک باد دے رہا ہے، اور ’قوم‘ جگہ جگہ دھرنا دے رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صرف ہارنے والی پارٹیاں نہیں، جیتنے والی پارٹیاں بھی سراپا احتجاج ہیں۔ خامہ انگشت  بدنداں ہے اسے کیا لکھیے۔

۱۱ مئی کے عام انتخابات کے کئی پہلو بڑے ہی دل چسپ ہیں؛ سروے پر سروے آ رہا تھا کہ ان انتخابات میں ن لیگ کو مُلک گیر کامیابی حاصل ہو گی، اور پیپلز پارٹی کا ’تمت بالخیر‘ ہو جائے گا۔ سبب یہ بتایا جا رہا تھا کہ گزشتہ پانچ سال میں صرف پنجاب ہی میں گڈ گورننس رہی۔ اس کے برعکس سندھ میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ لیکن ن لیگ کو مُلک گیر کامیابی ملی، نہ پیپلز پارٹی کا خاتمہ ہو ا۔ معلوم یہ ہوا  کہ ’عوام‘ نے ’گُڈ گورننس اور بیڈ گورننس‘ کی بحث میں پڑے بغیر پنجاب میں ن لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرا دیا۔ ن لیگ کو پہلے سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں، لیکن صرف صوبہ پنجاب میں۔ پیپلز پارٹی کو بھی پہلے سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں، لیکن صرف صوبہ سندھ میں۔

حیرت یہ ہے کہ اس کے باوجود بعض لوگ ۱۱ مئی کے انتخابات کو ’گُڈ گورننس، بیڈ گورننس‘ کی اصطلاحات میں سمجھنے کی سعی ِلاحاصل میں مشغول ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ن لیگ سندھ میں خالی ہاتھ رہی، اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کا تیا پانچہ ہو گیا، لیکن دونوں پارٹیاں پُرسکون نظر آ رہی ہیں۔ بقول ِ پیپلز پارٹی، پنجاب میں اُسکو ریٹرنگ افسروں نے ہرایا، لیکن نتیجہ سر آنکھو ں پر، اور بقول ِ ن لیگ، سندھ میں اُسکو دھاندلی کر کے ہرایا گیا، لیکن نتائج قبول ہیں۔ آصف علی زرداری پنجاب پیپلز پارٹی کی مرہم پٹی کر چُکے ہیں۔ ارشاد کیا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ’ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ‘ اور لوڈ شیڈنگ نے ہرایا، لیکن یہ معمہ نہیں سلجھایا کہ ’ملکی او ر غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ‘ اور لوڈ شیڈنگ سندھ میں پیپلز پارٹی کو کیوں نہیں ہرا سکی۔

اس طرح ۱۱ مئی سے پہلے، گیلپ اور آئی آر آئی سروے میں نواز شریف کا گراف پورے ملک میں اُوپر سے اُوپر جا رہا تھا، لیکن ۱۱ مئی کو یہ گراف صرف پنجاب میں نظر آیا، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں یہ معدوم ہی رہا۔ ان کالموں میں یہ بات متعدد مرتبہ لکھی گئی کہ سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد، اب آصف علی زرداری کی حکمت ِ عملی یہ ہو گی کہ سندھ میں بہر صورت کامیابی حاصل کریں۔ پیپلز پارٹی کو منظور وٹو اور مخدوم احمد محمود کے سُپرد کر کے، اُنہوں نے پنجاب اور وفاق میں عملی طور پر سرنڈر کر دیا تھا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ پیپلز پارٹی میں رضا ربانی سمیت بعض راہنماوں کو علم تھا کہ سندھ اور پنجاب میں ’’انتخاب‘‘ نہیں صرف ’’گو ل مال‘‘ ہو گا۔

۱۱ مئی سے پہلے عام خیال یہی تھا کہ تحریک ِ انصاف کا نوجوان ووٹر اول تو نکلے گا نہیں، لیکن اگر نکل پڑا تو پانسہ پلٹ دے گا۔ یہ بات منطقی نظر آتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ تحریک ِ انصاف کا ووٹر باہر تو آیا، اور ووٹ ڈالنے میں بھی کامیاب بھی ہو گیا، لیکن کم از کم پنجاب کے انتخابی نتائج میں اس ووٹ بینک کا خاطر خواہ اثر نظر نہیں آ رہا۔ راولپنڈی، اسلام آباد سے کہیں زیادہ لاہور میں تحریک ِانصاف کا زور تھا۔ لاہور سے عمران خان کی کامیابی یقینی سمجھی جا رہی تھی۔ لُطف یہ ہے کہ راولپنڈی، اسلام آباد میں تو تحریک ِانصاف، ن لیگ کا صفایا کر دیتی ہے، لاہور میں شفقت محمود، جن کو نسبتا ً کمزور اُمیدوار سمجھا جا رہا تھا، جیت جاتے ہیں، لیکن خود عمران خان ہار جاتے ہیں۔ یہ بات ناقابل ِ یقین نظر آتی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خان کی انتخابی لہر کے باعث ن لیگ کے بڑے بڑے طُرم خان لڑھک گئے، راولپنڈی میں چوہدری نثار دو سیٹوں سے ہار گئے، حنیف عباسی بھی زخم چاٹ رہے ہیں، شکیل اعوان بھی بہہ گئے، لاہور میں خواجہ حسان بھی شکست کھا گئے، خیبر پختون خوا میں پیر صابر شاہ، مہتاب عباسی، اقبال ظفر جھگڑا، امیر مقام جیسے جغادریوں سمیت ن لیگ کی ساری قیادت اُڑ گئی۔ سوال یہ ہے کہ جب ن لیگ کی یہ سارے پہلوان عمران خان کے سامنے ڈھیر ہو گئے، تو لاہور، جہاں عمران خان کا سب سے زیادہ زور تھا، وہاں عمران خان کی نسبتاً ایک کمزور اُمیدوار سے ہار سمجھ میں آنے والی نہیں۔ اس معاملہ کا پُراسرار پہلو یہ بھی ہے کہ تحریک ِانصاف کے مسلسل احتجاج کے باوجود، الیکشن کمیشن اس سیٹ پر دوبارہ ووٹ شماری کے لیے آمادہ نہیں ہو رہا۔ لیکن معلوم یہی ہو رہا ہے کہ جو ’گول مال‘ ہو نا تھا، ہو چُکا۔

۱۱ مئی کے انتخابات کا سب سے عجیب پہلو لیکن اور ہے۔ ماضی کے برعکس، الیکشن کمیشن کی ہدایت پر  پولنگ شام پانچ بجے کے بجائے شام ۶ بجے تک جاری رہی۔ اس خلاف ِمعمول اقدام کے بعد سمجھا یہ جا رہا تھا کہ انتخابی نتائج کے لیے، اب قوم رات گئے تک انتظار کی سولی پر لٹکتی رہے گی، اور ۲ بجے کے بعد ہی یہ معلوم ہو سکے گا کہ کون سی پارٹی جیت رہی ہے، اور کون سی پارٹی ہار رہی ہے۔ لیکن یہ اذیت ناک انتظار قوم کو نہیں کرنا پڑا۔ پولنگ ختم ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد، جب ہر انتخابی حلقہ سے ابھی صرف ۱۰، ۱۲ پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ ہی آیا تھا، ( ہر انتخابی حلقہ میں اوسطاً ۲۵۰ سے ۳۰۰ تک پولنگ اسٹیشنز ہوتے ہیں) کہ ن لیگ کے قائد نواز شریف ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئے اور اعلان کر دیا کہ وہ جیت چُکے ہیں، 11مئی کا آخری قہقہہ بار نظارہ ابھی آگے آ رہا  ہے۔

یہ وہ مرحلہ ہو گا، جب نئی مرکزی اور صوبائی حکومتیں قائم ہوں گی۔ ن لیگ کی، وفاق، پنجاب، بلوچستان میں حکومت ہو گی اور خیبر پختون خوا، سندھ میں اپوزیشن میں۔ پیپلز پارٹی، سندھ میں حکومت میں ہو گی اور وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں اپوزیشن میں۔ تحریک ِ انصاف اور جماعت ِ اسلامی، خیبر پختون خوا میں حکومت میں ہونگی اور وفاق، پنجاب، سندھ میں اپوزیشن میں۔ جمعیت علمائے اسلام، وفاق اور بلوچستان میں حکومت میں ہو گی، اور خیبر پختون خوا میں اپوزیشن میں۔ ایم کیو ایم سندھ میں حکومت میں ہو گی، اور وفاق میں اپوزیشن میں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں حکومت میں بھی ہوں گی اور اپوزیشن میں بھی۔ پچھلے ۵ سال کی طرح، اگلے ۵ سال بھی، عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہی پھریں گے کہ کون حکومت میں ہے، اور کون اپوزیشن میں، کون اصلی اپوزیشن ہے، اور کون نقلی، یا پھر یہ سمجھ جائیں گے کہ،

گول مال ہے، بھئی سب گول مال ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔