صحافت کا بادشاہ چلا گیا

ایاز خان  اتوار 26 مئ 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

نیوز روم کو جوائن کیے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے کہ ایک خبر مجھے دی گئی اور کہا گیا اسے لیڈ بنا دو۔ ابھی ڈبل کالم سرخی بنانے کے لیے موزوں الفاظ مشکل سے ملتے تھے اور 5 کالم لیڈ بنانے کی ہدایت مل گئی۔ ہاتھ پیر پھولنے ہی تھے۔ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کب میری حالت زار نوٹس ہو گئی اور ایک آواز آئی، ’’کیا ہوا پریشان کیوں ہو، انگریزی کی خبر کا ترجمہ کرو اور 5 کالم سرخیاں نکال دو‘‘، یہ آواز شاہ جی کی تھی۔ میں ٹرینی سب ایڈیٹر تھا اور وہ نوائے وقت کے چیف نیوز ایڈیٹر۔

اس کے بعد بھی کئی اور مواقع ایسے آئے جب انھوں نے محسوس کیا کہ میرے جیسے نئے رنگروٹوں کے اعتماد میں کہیں کوئی کمی ہے تو فوراً حوصلہ دیا۔ میں نے  سرخیاں بنانی انھی سے سیکھیں۔ اخبارات میں کام کرنے والے جانتے ہیں کہ دور دراز علاقوں کے لیے ایک ڈاک تیار کی جاتی ہے جسے پہلی ڈاک کہتے ہیں۔ شام پانچ یا چھ بجے اس کی کاپی ڈائون ہونی ہوتی ہے۔ ایکسپریس میں ڈاک کا تصور نہیں ہے لیکن دیگر اخبارات میں یہ ابھی باقی ہے۔ نوے کی دہائی میں اکثر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پہلی ڈاک کی لیڈ بنانی پڑتی تھی۔ شاہ جی الفاظ کو ادھر ادھر کر کے ہر بار اس ایشو پر کوئی سرخی بناتے تو لگتا یہ بالکل نئی ہے۔ ان کی یہ حیرت انگیز صلاحیت حیران کر دیتی تھی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کالم لکھنے کا شوق بھی ان کی وجہ سے پڑا۔ شاہ جی نے خود کالم بہت بعد میں لکھنا شروع کیا۔ پاکستان نے 1992ء کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تو وہ عمران خان کے دیوانے ہو گئے۔ ان کی عادت تھی کہ کسی شخصیت کے گرویدہ ہوتے تو انھیں اس میں کوئی خامی نظر ہی نہیں آتی تھی۔ ان کی پسندیدہ شخصیت پر کوئی اعتراض کرتا تو اسے دلائل سے قائل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے۔ انھیں یہ پسند نہیں آتا تھا کہ جس شخصیت کے عشق میں وہ مبتلا ہیں کوئی اس کی کسی خامی کا ذکرطکرے۔ بیماری کے شدت اختیار کرنے سے پہلے وہ صدر آصف علی زرداری کی شخصیت کے سحر میں گرفتار تھے۔ لطیف چوہدری یا میں کبھی زرداری صاحب کی شان میں کوئی ’’گستاخی‘‘ کرتے تو وہ گھنٹوں ہمیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔

میں کالم کے شوق کی بات کر رہا تھا۔ ہوا یوں کہ ورلڈ کپ کے فاتح عمران خان کے بارے میں سلیم ملک نے برطانوی اخبار ٹیلی گراف کو ایک انٹرویو دیا۔ شاہ جی نے وہ انٹرویو پڑھا تو انھیں سلیم ملک کی کچھ باتیں پسند نہیں آئیں۔ شام پانچ بجے کے قریب وہ نیوز روم میں داخل ہوئے اور مجھے حکم دیا،’’سلیم ملک کے انٹرویو کا جواب لکھو‘‘ میں اسی وقت کالم نما تحریر لکھنے لگا۔ اسے مکمل کر کے ان کے حوالے کیا تو بہت خوش ہوئے اور اسے شایع کرنے کے لیے آفتاب شاہ کے حوالے کر دیا۔ یہ چھپ گیا تو میرا  اسپورٹس کے حوالے سے لکھنا معمول بن گیا۔ اس دور میں کسی اور ایشو پر ایک آدھ بار ہی لکھا۔ تسلسل سے لکھنے ایکسپریس میں شروع کیا۔

عباس اطہر تو ہم نے انھیں کبھی کہا ہی نہیں۔ وہ سب کے شاہ جی تھے۔ ان جیسی دلیری بھی میں نے بہت کم صحافیوں میں دیکھی ہے۔ اخبار کے حوالے سے ہمیشہ جرات مندانہ فیصلے کرتے تھے۔ چھوٹی سی بات پر روٹھ جاتے اور فوراً مان بھی جاتے۔ میں نے کیرئیر کا آغاز کیا تو وہ چیف نیوز ایڈیٹر تھے۔ پھر ان کے ساتھ دوبارہ کام کا موقع ملا تو وہ نوائے وقت میں وہ ایڈیٹر(نیوز) تھے۔ اور آخر میں وہ ایکسپریس میں گروپ ایڈیٹر  بن کر آئے اور مرتے دم تک اس عہدے پر فائز رہے۔ شاہ جی شاعر بھی با کمال تھے۔ میں ان سے کہا کرتا تھا اگر وہ شاعری سے ناتہ نہ توڑتے تو صحافی سے بڑے شاعر ہوتے۔ ان کی سرخیوں میں شاعری کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔

میری اختلاف کرنے کی عادت انھیں پسند نہ تھی، اس کے باوجود ہمیشہ احترام اور شفقت کا رشتہ برقرار رہا۔ ان کے اور میرے درمیان چند سال بے اعتمادی بھی رہی لیکن اس میں میرا قصور زیادہ تھا۔ میں نے ان کے روبر اس کا اظہار کر دیا لیکن انھوں نے کمال محبت  سے کہا یار کچھ مجھ سے بھی زیادتی ہوئی ہو گی، یوں شکر رنجیاں ختم ہو گئیں۔ میں زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا، بس اتنا ہی کافی ہے کہ ایک بار یہ بے اعتمادی ختم ہوئی تو پھر آخر دم تک اعتماد کا رشتہ قائم رہا۔ ہر دور میں  کوئی رپورٹر‘ سب ایڈیٹر یا نیوز ایڈیٹر ان کا موسٹ فیورٹ ضرور رہا۔ نعیم مصطفیٰ‘ اسلم خان‘ اسرار غنی اسد المعروف چیتا، مظہر بخاری‘ (ان دنوں آسٹریلیا میں ہیں‘ جہاں صحافت چھوڑنے کا اثر ان پر یہ ہوا ہے کہ وہ دانشور بن چکے ہیں۔

ان کی ایک کتاب بھی دو ماہ پہلے مارکیٹ میں آ چکی ہے) مزمل سہروردی‘ دلاور چوہدری سمیت کئی نام ہیں جو اس فہرست میں شامل ہیں لیکن ان کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ لکھنے والوں کے بارے میں رائے تحریر سے زیادہ شخصیت کو سامنے رکھ کر دیا کرتے تھے۔ کسی کا کالم انھیں جواب مضمون لگتا تھا‘ کسی کی تحریر پڑھ کر ان کا بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا‘ کچھ کالم نام سن یا پڑھ کر ہی لطیف چوہدری صاحب کی طرف بڑھا دیتے۔ وہ چوہدری صاحب سے اکثر کہا کرتے، ’’یار توں اینوں کیوں نئیں کہہ دیندا کہ کالم لکھنا بند کردے‘‘ شاہ جی تو اپنی رائے دے کر اپنے کام میں مشغول ہو جاتے اور کالم نگاروں کو بھگتنا لطیف چوہدری صاحب کو پڑتا۔ شاہ جی میں ایک اور بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ پانی کے بہائو کے مخالف تیرنا پسند کرتے تھے۔ جب رائے عامہ کسی کے حق میں بن جاتی تو وہ اس کے خلاف لکھتے۔ ان کا فلسفہ تھا کہ جلد شہرت اسی طرز عمل سے ملتی ہے۔

اسپاٹ فکسنگ میں پاکستانی کرکٹرز کو جب سب رگڑا دے رہے تھے، وہ ان کی حمایت کر رہے تھے۔ ان کے کالم کا عنوان ’’کنکریاں‘‘ ان کی تحریر کی کاٹ کا بھرپور عکاس تھا۔ وہ ایک جملے سے کسی کو ہیرو بنا دیتے اور ان کا ایک جملہ کسی کو برباد کر دیتا۔ شاہ جی بھری محفل اور شور میں بڑے آرام سے کالم لکھ لیتے۔ میرے خیال میں وہ ہر دور کے صحافی تھے۔ وقت کے ساتھ خود کو تبدیل کرتے رہتے۔ میں نے اپنے کیرئیر میں کئی صحافی دیکھے جو ایک خاص وقت میں زندہ رہتے رہتے ختم ہو گئے۔ شاہ جی کی یادداشت بھی بلا کی تھی، انھیں سارے واقعات جزئیات کے ساتھ یاد رہتے تھے۔ میرے کیرئیر کے آغاز میں مجھے شفٹ انچارج بنا کر انھوں نے جو حوصلہ دیا وہ بعد میں بہت کام آیا۔ میں نوائے وقت میں شفٹ انچارج بنا تو بائو شجاع الدین کے سوا کوئی مدد گار نہیں تھا۔

سب اتنے سینئر تھے کہ میرے جیسے جونیئر کو اپنا ’’باس‘‘ تسلیم کرنا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ یہ سچ ہے کہ صحافت میں کئی بڑے بڑے بت انھوں نے انے ہاتھ سے تراشے۔ اس بادشاہ گر عباس اطہر کو جب سی ایم ایچ میں تیزی سے موت کی وادی میں اترتے دیکھتا تو بہت دکھ ہوتا۔ لطیف چوہدری اور رضوان آصف اکثر ساتھ ہوتے۔ دو تین بار خالد قیوم ساتھ تھے۔ فاروق اقدس اور شفقت جلیل کے ساتھ بھی جانا ہوا۔ ان کے سامنے مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر رکھنا پڑتی اور واپسی پر دکھی دل کے ساتھ وہاں سے نکلتے۔ صحافت کی جنگ میں کبھی ہتھیار نہ ڈالنے والے شاہ جی بیماری سے لڑتے لڑتے دنیا سے چلے گئے۔ آج جو تھوڑا بہت لکھنا آتا ہے تو اس کا کریڈٹ شاہ جی کو ہی جاتا ہے۔ یادیں اور بھی ہیں۔ مزید لکھنے کی ہمت نہیں۔ فی الحال انھی ٹوٹے پھوئے الفاظ کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔