خیر ہمیں کیا اس سے!!

شیریں حیدر  اتوار 2 ستمبر 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

آپ کے قریب بیٹھ کر سرگوشیوں میں بات کرتے ہوئے دو لوگوں کے مابین ہونے والی گفتگو میں سے آدھی ادھوری بات کا کان میں پڑجانااورلب لباب نہ جاننا، اس بات کا پہلا سرا پاس نا ہونا یاباقی ادھوری کوشش کے باوصف نہ سن سکنا… ایک ایسے کیڑے کی مانند ہے جو گویا انسان کے لباس کے اندر گھس جائے اور انسان نہ تو اسے محفل میں ہونے کے باعث نکال سکے اور نہ ہی نظر انداز کر کے سکون سے رہ سکے، بات بھی ایسی جو وہاں غیر موجود کے لیے یعنی کسی تیسرے کی بابت ہو۔ صرف اس لیے آپ کے کان میں پڑ جائے کہ اس وقت آپ وہاں پر موجود تھے اور یہ بات نہ آپ کے متعلق ہوتی ہے، نہ اس کا جاننا لازمی اورنہ ہی اس سے لاعلم ہونے سے ہمارا کوئی نقصان۔ مگر کیا کیجیے صاحب اس دماغ کا کہ جس میں گھسا ہوا کیڑا بندے کو سکون ہی نہیں لینے دیتا… گفتگو کچھ اس طورہو جاتی ہے۔

’’ جی مجھ سے کچھ کہا آپ نے؟ ‘‘ آپ بات میں دخل دیتے ہیں ۔

’’ نہیں نہیں… ہم آپس میں بات کر رہے تھے!! ‘‘ بے اعتنائی سے جواب ملتا ہے۔

’’ کس کے بارے میں بات کر رہے تھے آپ؟ ‘‘ تجسس کے غبارے میں ہوا بھرتی ہے۔

’’ آپ انھیں نہیں جانتے!! ‘‘ چڑ کرکہا جاتا ہے۔

’’ جنھیں آپ رشوت خور کہہ رہے تھے ، انھیں نہیں جانتا میں یا؟؟ ‘‘ آپ بتاتے ہیں کہ آپ ان کی گفتگو سے اتنے بھی لاعلم نہیں ہیں۔

’’ ہم کسی کو رشوت خور تو نہیں کہہ رہے تھے!! ‘‘ ہکلا کر وضاحت دی جاتی ہے ۔

’’ اجی میں نے اپنے گناہ گار کانوں سے سنا ہے!! ‘‘ باوجود اس کے کہ برا دیکھنے، کہنے اور سننے سے منع فرمایا گیا ہے، ہم اپنے ’’ گناہ گار ‘‘ کانوں کو سننے سے باز ر کھ سکتے ہیں نہ نظر اور زبان پر کوئی اختیار ہوتا ہے۔

’’ دیکھئے … آپ اپنے کام سے کام رکھئے، ہم نہ آپ سے بات کر رہے ہیں، نہ آپ کے بارے میںاور نہ ہی اس بات کا کوئی تعلق آپ سے کسی بھی حوالے سے ہے!! ‘‘

’’ چلیں آپ نہیں بتانا چاہتے تو نہ بتائیں ، ورنہ میں جان تو گیا ہوں کہ آپ کس شخص کو رشوت خور کہہ رہے ہیں !! ‘‘ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکالنا لازمی ہوتا ہے۔

’’ آپ جو خواہ مخواہ کن سوئیاں لینے کی کوشش کر رہے ہیں، اسے کیا کہتے ہیں بھلا؟ ‘‘

’’ اسے تجسس کہتے ہیں اور تجسس تو ہر آدمی کی فطرت میں ہے، تجسس تو اس دنیا کی ترقی کا راز ہے ‘‘

’’ وہ تجسس اور ہوتا ہو گا، جو کچھ آپ کر رہے ہیں اسے ٹوہ لینا اور مداخلت کرنا کہتے ہیں !! ‘‘

’’ لو بھئی، خواہ مخواہ، مجھے ٹوہ لے کر کیا ملے گا ؟ ‘‘ کندھے اچکا کر کہا جاتا ہے۔

’’ اگر آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو کچھ ملنے والا نہیں ہے تو آپ خاموش رہیں، اپنے کام سے کام رکھیں!! ‘‘

’’اپنے کام سے کام کیا رکھوں ، جب ارد گرد سے دو لوگ میرے کانوں کے پردے پھاڑتے ہوئے ان لوگوں کے بارے میں فضول باتیں کر رہے ہیں، جن کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہو گا!! ‘‘

’’ دیکھئے… آپ ہمارے ذاتی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں اور اپنا آپ خواہ مخواہ ہم پر مسلط کر رہے ہیں!! ‘‘

’’ لو جی… ایک تو میں آپ کا بھلا کر رہا ہوں کہ آپ کو برائی سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ روز قیامت آپ کی پکڑ ہو گی اور آپ ہیں کہ بجائے میرا احسان ماننے کے مجھے مداخلت کرنے والا کہہ رہے ہیں، میری مداخلت سے آپ کم از کم اس برائی سے محفوظ ہو گئے ہیں جسے غیبت کہتے ہیں۔ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی اور انفرادی کوششوں سے معاشرہ سدھرتا ہے!‘‘

’’ اپنے گریبان میں جھانکیں تو سو برائیاں آپ کو مل جائیں گی، چلے ہیں معاشرہ سدھارنے!! ‘‘

’’ اب آپ حد سے بڑھ رہے ہیں، آپ نے کون سی برائی میرے اندر دیکھ لی ہے جب کہ آپ مجھے جانتے تک نہیں ہیں ؟ ‘‘

’’ وہی تو… ہم تو آپ کو جانتے تک نہیں مگر آپ نے خود ہی ہماری بات میں لچ تل کر ثابت کیا ہے کہ آپ کو پرائے پھڈوں میں ٹانگ اڑانے کا بہت شوق ہے!! ‘‘

’’ بھلے آدمی، میں نے پرایا جان کر کچھ نہیں کیا، اپنا مسلمان بھائی سمجھ کر سوچا کہ آپ کو ایک برائی کے ارتکاب سے روک لوں !! ‘‘

’’ یہ کس نے کہاآپ سے کہ میں مسلمان ہوں ؟ ‘‘ حیرت سے پوچھا جاتا ہے۔

’’ لو… اور کیا ہوں گے آپ، شکل سے تو آپ پورے مسلمان لگ رہے ہیں !! ‘‘

’’ شکل سے… کون سا خاص رنگ ہوتا ہے مسلمانوں کی شکل کا جو آپ نے مجھے مسلمان سمجھا؟ ‘‘

’’ وہ… ممم … ‘‘ فقط ہکلاہٹ۔

’’ بھائی صاحب میں عیسائی ہوں اور میرا یہ دوست بھی عیسائی ہے ‘‘

’’ اچھا … لگتا تو نہیں ہے!! ‘‘ کھسیاہٹ ۔

’’ کیا لگتا نہیں ہے آپ کو؟ ‘‘

’’ میرا مطلب ہے کہ آپ بھلے آدمی لگتے ہیں!! ‘‘ مصلحت۔ …’’ تو کیا عیسائی بھلے نہیں ہوسکتے؟ ‘‘ چتون چڑھا کر سوال کیا جاتا ہے ۔

’’ ہو سکتے ہوں گے!! ‘‘ کندھے اچکا کر جواب دیا گیا۔…’’ یہی بات ہم کر رہے تھے کہ فلاں بندہ مسلمان ہو کر بھی رشوت لیتا ہے! ‘‘

’’ رشوت تو سبھی لیتے ہیں، ساری دنیامیں چلتی ہے ، ہاں مگر ہمارے مذہب میں رشوت لینے اور دینے والے کو جہنمی قرار دیا گیا ہے‘‘ اپنے مذہب کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں ۔

’’ صرف اسلام کے مطابق ہی نہیں بلکہ رشوت دینا ہر مذہب کے مطابق گناہ ہے… ہر گناہ جو اللہ کی نظر میں گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہی ہے۔ دنیا کی تمام الہامی کتابیں ایک ہی نوعیت کے احکامات لے کر نازل ہوئیں! ‘‘

’’ مگر کیا یہ بات، جو آپ ابھی کہہ رہے تھے، آپ ان صاحب کے سامنے کہہ سکتے ہیں جن کے بارے میں آپ بات کر رہے ہیں؟ ‘‘ جتلا کر سوال کیا جاتا ہے۔

’’ ان کے سامنے تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہمیں ان سے کئی کام نکلوانے ہیں اور انھیں رشوت دیے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے! ‘‘

’’ اگر یہ بات آپ ان کے سامنے نہیں کہہ سکتے تو آپ کو علم ہے کہ یہ غیبت کے زمرے میں آتا ہے اور یہ ایک اور بڑا گناہ ہے، اپنے بھائی کا گوشت کھانے کے برابر کا گناہ؟ ‘‘ ڈرایا جاتا ہے۔

’’ لیکن غیبت تو رشوت سے کم بڑا گناہ ہے نا! ‘‘ جواز دیا جاتا ہے۔

’’ گناہ تو گناہ ہی ہے… چھوٹا یا بڑا۔ کبھی انسان کسی چھوٹے سے گناہ پر پکڑ لیا جاتا ہے اور کبھی بوند کے حجم کی نیکی انسان کی بخشش کا باعث بن جاتی ہے!!‘‘

’’ اور اس کا فیصلہ کون کرتا ہے؟ ‘‘

’’ ظاہر ہے کا مالک کائنات!! ‘‘

’’ تو پھر آپ فتوے جاری کرنا چھوڑیں، اپنے کام سے کام رکھیں اور اپنے گریبان میں جھانکیں، خود کو گناہوں سے بچا لیں تو معاشرہ سدھر جائے گا !! ‘‘

’’ آپ کی مرضی ہے… میں تو آپ کی بہتری کے لیے کہہ رہا تھا مگر آپ اپنی روش نہیں بدلنا چاہتے تو نہ سہی۔ مجھے اس سے کیالینا دینا ہے!! ‘‘ ساری مداخلت کے بعد کندھے اچکا کر اپنی راہ لی جاتی ہے ۔ دوسروں کے بارے میں ہم کتنے پریشان ہوتے ہیں مگر نہ ہم خود کو سدھارنا چاہتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں کہ سدھار اور بہتری کا عمل خود سے شروع ہوتا ہے، نہ کسی کی صلاح لینا پسند کرتے ہیں ، نہ کسی کے کہے سے اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں، نہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں نہ اپنی غلطیوں پر دوسروں کی تنقید برداشت کرتے ہیں۔ اس نوعیت کے رویے اور سوچ سے معاشروں میں تبدیلی نہیں آتی!! ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔