ایشین گیمز میں بھی بدترین کارکردگی

میاں اصغر سلیمی  اتوار 2 ستمبر 2018
قومی کھیل کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔ فوٹو: فائل

قومی کھیل کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔ فوٹو: فائل

سلمان اکبر پاکستان ہاکی ٹیم کے مایہ ناز گول کیپر رہ چکے ہیں، گزشتہ کچھ برسوں سے اپنوں کی بے اعتناعی اور بے حسی کے باعث یورپ میں مقیم ہیں اور غیر ملکی کھلاڑیوں کو اپنا قیمتی تجربہ منتقل کر کے اپنی روزی روٹی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔

حال ہی میں انہوں نے جاپان ٹیم کی گول کیپنگ کوچنگ کا بیڑہ کیا اٹھایا کہ اس ٹیم کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔جی ہاں وہی ٹیم جس نے ایشین گیمز کے سیمی فائنل مقابلے میں گرین شرٹس کو شکست دے کر فائنل کی دوڑ سے ہی باہر کر دیا۔اب ہم پاکستانی ٹیم کے غیر ملکی کوچ کی طرف آتے ہیں۔

راولنٹ اولٹمینز کا تعلق ہالینڈ سے ہے، ایشین گیمز سے قبل پاکستان چیمپئنز ٹرافی کے لئے ہالینڈ پہنچی تو عین وقت پر اولٹمینز نے اپنے واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ کر دیا،انتظام نہ ہونے پر ٹیم کو بیچ مندھار چھوڑ کر چلے جانے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔

قومی ٹیم منیجمنٹ نے یورپ میں پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے صدر سے رابطہ کر کے ہنگامی بنیادوں پر رقم کا بندوبست کر کے پاکستان کو بڑی سبکی سے بچا لیا۔اب اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک غیر ملکی کوچ پاکستانی ٹیم کے ساتھ کتنا مخلص ہو سکتا ہے۔

کچھ عشروں سے قومی کھیل کے ساتھ جس طرح کھلواڑ کیا گیا اور کیا جا رہا ہے اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ پی ایچ ایف حکام کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ خود کچھ نہ کیا جائے بلکہ حکومت سے کروڑوں روپے کی گرانٹ لے کر نہ صرف خود لوٹ مار کی جائے بلکہ اپنے یاروں دوستوں اور عزیز رشتہ داروں کو بھی کرپشن کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے بھرپور مواقع فراہم کئے جائیں۔ موجودہ ہاکی فیڈریشن کو ہی دیکھ لیں، صدر فیڈریشن نے اپنے سمدھی و سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے ذریعے گزشتہ 3 برس کے دوران وفاقی حکومت سے 43 کروڑ روپے کی گرانٹ حاصل کی، صوبائی حکومتوں اورسپانسر سے ملنے والی رقم الگ سے ہے۔

اتنی بڑی رقم کے باوجود پاکستان ہاکی ٹیم کی کارکردگی زیرو رہی اور 3 سال کے عرصہ میں گرین شرٹس ایک بھی بڑا انٹرنیشنل ایونٹ نہ جیت سکے۔ قومی ٹیم جدھر گئی ناکامیوں اور مایوسیوں کی نئی تاریخ رقم کرتی گئی۔

کامن ویلتھ گیمز میں دس ٹیموں کے ایونٹ میں سے ساتویں نمبر پر رہی، چیمپئنز ٹرافی میں اس کا نمبر آخری رہا، اور اب ایشین گیمز میں جاپان کے ہاتھوں سیمی فائنل میں شکست کھانے کے بعد نہ صرف فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گئی ہے بلکہ گرین شرٹس نے ٹوکیو اولمپکس2020 میں براہ راست رسائی کا سنہری موقع بھی گنوا دیا ہے، رہی سہی کسر بھارت نے بھی پوری کر دی ہے اور تیسری پوزیشن کے میچ میں پچھاڑ کر کانسی کے تمغے سے بھی محروم کر دیا ہے۔

پاکستان ہاکی ٹیم کی اس مایوس کن کارکردگی پر پوری قوم سوگوار ہے لیکن ہاکی کے ارباب اختیار کو اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے، ان کی نظر میں ہاکی ٹیم ہارتی ہے تو ہارتی رہے،ملک کی بدنامی ہوتی ہے تو ہوتی رہے، البتہ ماحول ایسا رہنا چاہیے کہ ان کے سیر سپاٹوں اور لوٹ مار میں کمی نہیں آنی چاہیے۔

ہاکی نے نصف صدی تک دنیا بھر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند کئے رکھا، منیر احمد ڈار، کرنل دارا، بریگیڈیئر عاطف، طارق عزیز، شہناز شیخ، اصلاح الدین صدیقی، چوہدری اختر رسول، حسن سردار، سمیع اللہ، کلیم اللہ، رانا مجاہد علی، شہباز سینئر اورسہیل عباس سمیت کئی عظیم کھلاڑیوں کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جو میدان میں اترتے تو حریفوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور انٹرنیشنل سطح پر ہونے والی ایونٹس میں فتح ہمارا مقدر بنتی، بدقسمتی سے 1994ء ورلڈ کپ کے بعد سے گرین شرٹس عالمی سطح پر ایک بھی بڑا ٹائٹل اپنے نام نہیں کر سکے، یہ تلخ حقیقت ہے کہ 1994ء میں جن کھلاڑیوں نے اپنے کھیل سے دنیا بھر میں ملک کا سبز ہلالی پرچم لہرایا، انہیں  کھلاڑیوں نے ہی ہاکی کو تباہی و بربادی کے آخری دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

سچ پوچھیں تو قومی کھیل کی موجودہ صورت حال دیکھ کر دل کڑھتا ہے، قارئین ہی ایمانداری اور سچائی کے ساتھ بتائیں کہ کیا ہماری موجودہ ہاکی اس قابل ہے کہ قوم اس پر فخر کر سکے۔قومی کھیل کو تباہی وبربادی کے دہانے پر مزید پہنچانے سے بچانے کے لئے کڑے احتساب کی ضرورت ہے اور ذمہ داروں کو نہ صرف ان کے عہدوں سے فارغ کیا جانا چاہیے بلکہ عوام کے خون پیسنے کی ایک، ایک پائی کا بھی حساب لیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔