پیپلزپارٹی اور ق لیگ کا ایک دوسرے کو خدا حافظ کہنے کا وقت آ گیا

مظہر عباس  پير 27 مئ 2013
پیپلزپارٹی کو بدترین شکست، 98 لاکھ ووٹ کھونے کے بعد کم ازکم دس سال تو واپسی میں لگیں گے فوٹو: فائل

پیپلزپارٹی کو بدترین شکست، 98 لاکھ ووٹ کھونے کے بعد کم ازکم دس سال تو واپسی میں لگیں گے فوٹو: فائل

کراچی: پیپلزپارٹی اور ق لیگ میں اتحاد پہلے دن سے ہی  غیر فطری تھا جس نے دونوں جماعتوں کونقصان پہنچایا، دونوں جماعتوں کیلیے بہتر ہے کہ وہ اس رشتے کو جلد ازجلد ختم کر دیں،کیونکہ اس سال کے آخر تک بلدیاتی انتخابات بھی آنے والے ہیں۔

ق لیگ کے امیدواروں نے اپنے ایک حالیہ اجلاس میں اسی قسم کے شکوے شکایات کا انبار لگایا ہے جس قسم کی پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے صدر زرداری سے حالیہ میٹنگ میں شکست کی وجوہات بیان کی تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دونوں جماعتوںکے کارکنوں نے ایک دوسرے کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیے تاہم مسلم لیگیوںکو زرداری کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے 40 سالہ سیاسی دشمنی کے باوجود گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ ہاتھ ملانے کا خطرہ مول لیا۔ دونوں جماعتوں میں دشمنی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے شروع ہوئی جو چوہدری ظہور الہٰی کے قتل سے گہری ہوگئی، پھر اس دشمنی کو اور پکا بینظیر بھٹو شہید کے پولیس کو لکھے گئے اس خط نے کر دیا جس میںانھوں نے کہا تھاکہ اگر مجھے کچھ ہوا تو پرویز الہیٰ سمیت 4 افراد سے پوچھ گچھ کی جائے، مزید خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب صدر زرداری نے ق لیگ کو قاتل لیگ کا نام دیا ۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی کا اتحادی بننے کا فیصلہ چودھریوں کیلئے بھی آسان نہ تھا کیونکہ انکی 40 سالہ سیاست کا محور پیپلزپارٹی اور بھٹو سے نفرت تھی، چوہدریوںکو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ دونوں پارٹیوں کے کارکن آسانی سے ماضی بھلا نہ پائیں گے اور ایسا ہی ہوا دونوں جماعتیں ایک بھی مشترکہ جلسہ نہ کر سکیں۔ چوہدری آج پیپلزپارٹی سے بھی زیادہ مشکل میں ہیں کیونکہ ن لیگ کسی طور بھی انھیں منہ لگانے کو تیار نہیں چاہے وہ ق لیگ ختم کرکے ن لیگ میں ضم ہونے کی بھی پیش کش کردیں، اگر چوہدری  برادران، شریف برادران سے اختلافات ختم کرنے کی کوشش بھی کریں تو ان کا انجام ہم خیالوں سے مختلف نہیں ہوگا ، چوہدری یہ بھی جانتے ہیں کہ زرداری نے مونس الٰہی کے معاملے میں ان سے بہت زیادہ تعاون کیا اور اسے مشکل صورتحال سے نکالا، چوہدریوں کی بچت اسی میں ہے کہ وہ دوسری مسلم لیگوں کو ملائیں اور بلدیاتی سیاست کریں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ بڑی مضبوط پوزیشن میں ہے تاہم حکمران جماعت کو ہمیشہ کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں، ق لیگ ، سابق صدرجنرل پرویزمشرف کی پیداوار تھی اس طرح اس نے ایم کیو ایم کی طرح 10 سال تک اقتدار کے مزے لوٹے لیکن صدر زرداری کی اس سیاست میں سب سے زیادہ نقصان پیپلزپارٹی کو پہنچا ہے۔ زرداری کا شریف برادران پر چوہدری برادران کو ترجیح دینا پیپلزپارٹی کیلیے خودکشی کا سبب بنا ہے، صدر زرداری نے 2008 میں حکومت بنانے کے چندماہ بعد ہی پیپلزپارٹی کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود وکلاء کی تحریک شریف برادران کے ہاتھ میں جانے دی، اگرچہ چوہدری اور ہم خیالوں کے پاس ابھی بڑے نام ہیں لیکن بچائو کیلیے انھیں کسی بیرونی مدد کا انتظار کیے بغیر فوری طورپر سنجیدہ سیاست شروع کر دینی چاہیے، دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی  بہت سی سیٹوں سے تو اس وقت ہی دستبردار ہو گئی تھی جب اس نے ق لیگ سے ایڈجسٹمنٹ کی، لہذا پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے ق لیگ کے بجائے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دیے۔

دوسری طرف جہاں ق لیگ کا امیدوارنہیں تھا اس کے کارکنوں نے پیپلزپارٹی کے بجائے ن لیگ کے امیدوار کو ووٹ دیے، اگر دونوں جماعتوں کا اتحاد سال2 سال پہلے ختم ہو جاتا تو پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے پاس کچھ بیچنے کو بچ جاتا، ان لوگوں کے ساتھ سمجھوتہ جن پر ان کی لیڈر بینظیر کو شبہ تھا، پھر مشرف کو ملک چھوڑنے کی اجازت دینے سے پیپلزپارٹی کم از کم سیاسی طور پر اپنی لیڈرکے قتل کا کیس ہار گئی، اعتزاز احسن کی سربراہی میں کمیٹی، پیپلزپارٹی کی شکست کی وجوہات تو پتہ نہیں کیا ڈھونڈے گی ، البتہ ہم جیسے باہر بیٹھے لوگ سمجھتے ہیں کمزور حکمرانی، قومی مصالحت کے نام پر غلط سیاسی فیصلے، کمزور پارٹی تنظیم اور پھر ان حالات میں بے جگری سے نہ لڑنا، پیپلزپارٹی کی شکست کی وجوہات۔

ہیں، پیپلزپارٹی کو بدترین شکست، 98 لاکھ ووٹ کھونے کے بعد کم ازکم دس سال تو واپسی میں لگیں گے وہ بھی اگر سنجیدہ سیاست کی جائے، الیکشن منصفانہ یا غیر منصفانہ تھے، انجینیرڈ یا مینجڈ تھے حقیقت اپنی جگہ برقرارہے کہ پیپلزپارٹی اور ان کے اتحادی دیوار پر لکھا ہوا پڑھ سکتے تھے، کیا یہ تمام لوگ اپنی شکست سے سبق سیکھتے ہیں یا نہیں یہ ایک الگ کہانی ہے، یہ وقت ہے کہ چوہدری اور زرداری ایک دوسرے سے اچھے طریقے سے الگ ہو جائیں اور ایک دوسرے سے نفرت کی بجائے عوام کیلیے سیاست کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔