میزبانی کے مقابلے میں اداکاری زیادہ پُرلطف کام ہے، وجا گور

محمد عمران  پير 27 مئ 2013
پوجا کے پرستار اسے ٹیلی ویژن چینل ’’ لائف اوکے‘‘ کے پروگرام ’’ ساؤدھان انڈیا‘‘ کی میزبانی کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

پوجا کے پرستار اسے ٹیلی ویژن چینل ’’ لائف اوکے‘‘ کے پروگرام ’’ ساؤدھان انڈیا‘‘ کی میزبانی کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

چھوٹے پردے پر پروگراموں کی میزبانی ایک پُرکشش فیلڈ بن چکی ہے۔

اسی لیے ٹیلی نگری کے ناظرین بہت سے معروف چہروں کو یہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے دیکھتے آرہے ہیں۔ چھوٹے پردے کے ان میزبانوں میں منی اسکرین کے فن کاروں کے علاوہ فلم انڈسٹری کے بڑے بڑے نام بھی نظر آتے ہیں۔ پوجا گور ٹیلی نگری کے میزبانوں میں نیا اضافہ ہے۔

چھوٹے پردے کے شائقین پوجا کو ایک باصلاحیت اور منجھی ہوئی اداکارہ کے طور پر جانتے ہیں۔ وہ ڈراما سیریل’’ کتنی محبت ہے ‘‘ میں پوروی کے کردار میں اس کی خوب صوری اداکاری سے خوب لطف اندوز ہوئے تھے۔ پھر اس اداکارہ نے ’’ من کی آواز پرتگیا‘‘ میں شان دار پرفارمینس سے ان کے دل جیتے۔ اور اب وہ بہ طور میزبان بھی ان سے داد و تحسین پانے کے لیے پُرعزم ہے۔

پوجا کے پرستار اسے ٹیلی ویژن چینل ’’ لائف اوکے‘‘ کے پروگرام ’’ ساؤدھان انڈیا‘‘ کی میزبانی کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ جرائم کی کہانیوں پر مبنی اس شو کے اور بھی کئی میزبان ہیں۔ پوجا اس شعبے میں بالکل نووارد نہیں ہے۔ اس سے قبل وہ اسٹار پلس کے شو ’’ لاکھوں میں ایک‘‘ میں بھی میزبانی کے فرائض انجام دے چکی ہے۔ پوجاگور سے اس کے نئے کیریئر کے حوالے سے کی گئی بات چیت قارئین کے لیے پیش ہے۔

٭ ’’ ساؤدھان انڈیا‘‘ کی میزبانی کرنا کیسا لگ رہا ہے؟
میں ایک بار پھر ایک ایسے پروگرام میں میزبان کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بے حد خوش ہوں جو معاشرے پر مثبت اثر ڈال رہا ہے۔’’ لاکھوں میں ایک‘‘ کے بعد میں یہ پروگرام سماج کے لیے ایک پیغام کے ساتھ کررہی ہوں۔ اس شو میں موہنیش بہل، سشانت سنگھ راجپوت، ہیتن تیجوانی اور امر اپادھیائے بھی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس لیے ایسے پروگرام کا حصہ بننا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔

٭عام طور پر جرائم سے متعلق پروگراموں کی میزبانی مرد ہی کرتے ہیں۔ اس بارے میں کچھ کہیں گی؟
میں نہیں جانتی کہ اس معاملے میں مردوں کو عورتوں پر فوقیت کیوں دی جاتی ہے۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تصور قائم ہوچکا ہے کہ مرد ہی کرائم شوز کے میزبان ہوسکتے ہیں، کیوں کہ ’’ جرائم‘‘ بہرحال ایک سخت موضوع ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس قسم کے شوز میں مرد میزبان ناظرین کو زیادہ بہتر محسوس ہوتے ہوں۔ میرے خیال میں مجھے اس شو کے لیے اس بنا پر منتخب کیا گیا ہے کہ میں اس سے قبل ’’ پرتگیا‘‘ جیسا شو کرچکی ہوں جس میں، میں نے ایک ایسی ناری کا کردار ادا کیا تھا جو اپنے حقوق کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔

٭ ’’ ساؤدھان انڈیا‘‘ کی جتنی اقساط میں آپ نے بہ طور میزبان ذمہ داری نبھائی ہے، ان میں سے کون سی قسط آپ کو زیادہ پسند آئی؟
اگرچہ میں اس شو کا حصہ ہوں مگر مجھے ذاتی طور پر بھی یہ پروگرام بہت متاثر کرتا ہے۔ اس میں ایک قسط بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالے سے تھی۔ اس میں ایک یتیم خانے کے مالک کی داستان بیان کی گئی تھی جو بچوں کے ساتھ بُرا سلوک کرتا تھا اور پھر انھیں قتل کردیتا تھا۔ اس قسط نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔

٭اس شو سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟
’اپنی حفاظت‘ وہ نکتہ ہے جو اس شو نے مجھے سمجھایا ہے۔ میں نے یہ سیکھا ہے کہ ہر قسم کے جرائم سے اپنی حفاظت کیسے کی جائے اور ناموافق صورت حال سے کیسے نکلا جائے۔ اس کے علاوہ میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے بدترین حادثات کے اثرات کیسے زائل کیے جائیں۔

٭ مستقبل میں آپ اداکاری اور میزبانی میں سے کسے زیادہ وقت دیں گی؟
میزبانی کے مقابلے میں اداکاری زیادہ پُرلطف ہے کیوں کہ اس میں مختلف کرداروں کی ادائیگی کا موقع ملتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ ایک دن میں چار سین بھی عکس بند کرواتے ہیں تو چاروں میں آپ کے جذبات مختلف ہوں گے۔ اداکاری ایک مشکل کام ہے جب کہ میزبانی خود کو ریلیکس کرنے کے لیے کرتی ہوں۔ ڈراموں کی شوٹنگ کے دوران میں بارہ گھنٹے سے لے کر چوبیس گھنٹے تک کام کرتی ہوں، جب کہ ایک شو کی میزبانی کرنے میں اس سے کہیں کم وقت لگتا ہے۔ ’’ ساؤدھان انڈیا‘‘ کی شوٹنگ کے لیے میں صبح نو بجے آتی ہوں اور شام پانچ بجے چلی جاتی ہوں۔

٭ اس شو میں میزبانی پر آپ کو کیسا ردعمل مل رہا ہے؟
ناظرین کا ردعمل بہت اچھا ہے۔ میں نے اس پروگرام کے ذمہ داروں سے پوچھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ تمام میزبانوں کا فیڈ بیک بہت اچھا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ناظرین میری میزبانی سے خوش ہیں۔

٭کیا آپ ایسے لوگوں سے ملی ہیں ’’ ساؤدھان انڈیا‘‘ دیکھنے کے بعد جن کی زندگیوں میں بدلاؤ آیا ہو؟
جب میں ’’ پرتگیا‘‘ میں رول کررہی تھی تو اس وقت بھی مجھے فیس بُک پر لوگوں کے پیغامات موصول ہورہے تھے کہ ان کی زندگیاں بدل گئی ہیں اور وہ مضبوط ہوگئے ہیں، انھوں نے اپنی ذات پر یقین رکھنا اور ناانصافی کے خلاف لڑنا شروع کردیا ہے۔ اور یہ کہ وہ غلط کاموں کے خلاف آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ ایسے شوز کا حصہ بن کر میں معاشرے میں مثبت بدلاؤ لانے میں کردار ادا کررہی ہوں۔

٭ آپ کس قسم کے شوز کی میزبانی نہیں کرنا چاہیں گی یا کس طرح کے ڈراموں میں اداکاری سے گریز کریں گی؟
میں نہیں سمجھتی کہ ٹیلی ویژن پر کسی قسم کے غیراخلاقی پروگرام دکھائے جاسکتے ہیں، کیوں کہ یہ بہت محدود میڈیم ہے۔ لہٰذا چھوٹی اسکرین پر میں کوئی بھی پروگرام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ بہرحال میں ’’ سوایموار‘‘ جیسے شوز نہیں کروں گی۔

٭ ٹیلی ویژن کے ناظرین آپ کا شو باقاعدگی سے دیکھتے ہیں۔ خود آپ کون سا پروگرام پابندی سے دیکھتی ہیں؟
مجھے ’’ نہ بولے تم نہ میں نے کچھ کہا‘‘ بہت پسند ہے۔ یہ روایتی رومانوی کہانی پر مبنی ڈراما سیریل نہیں ہے، اس میں میچور لو اسٹوری دکھائی جارہی ہے جس میں ہر طرح کے جذبات کا رنگ بھی نظر آرہا ہے۔ ڈرامے کا ہیرو کُنال کرن کپور میرا بہت اچھا دوست ہے۔ میری جب بھی کنال سے ملاقات ہوتی ہے تو میں اس سے کہتی ہوں کہ اکنکشا سنگھ ( ڈرامے کی ہیروئن) سے کہنا کہ وہ زبردست اداکاری کررہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔