درمیاں درمیاں میں تھا ہی نہیں

وسعت اللہ خان  پير 27 مئ 2013

چلیں یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمانوں کی مغربی دنیا بالخصوص امریکا کے بارے میں گہری بدگمانیوں کے ڈانڈے مغربی سامراجی دور میں کی گئی سیاسی و جغرافیائی ناانصافیوں ، لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اور فلسطینیوں کی قومی و زمینی شناخت کی قیمت پر مملکتِ اسرائیل کے قیام سے جا ملتے ہیں۔چونکہ ان پیچیدگیوں اور نا انصافیوں کا کبھی ازالہ نہیں ہوسکا بلکہ انھیں ہر ایک نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ لہٰذا یہ پیچیدگیاں بڑھتے بڑھتے ایک گنجلک ناسور کی شکل اختیار کرتی چلی گئیں جس کا کڑوا پھل آج کی دنیا میں دھشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر ہم سب کو چکھنا پڑ رہا ہے۔

مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بعض خیالات و واہمات کا ان تاریخی نا انصافیوں سے کیا تعلق ہے اور یہ خیالات و توہمات کس طرح مزاحمت کی کوئی شکل کہے جاسکتے ہیں ؟ جیسے پولیو کی ویکسینیشن کی مہم رکوانے اور ہیلتھ ورکرز کو جان سے مارنے سے یہ تو ممکن ہے کہ بہت سے بچے زندگی بھر کے لیے معذور ہوجائیں اور کئی ہیلتھ ورکرز کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں لیکن اس سے مغرب ، امریکا اور اسرائیل کو کیا نقصان پہنچانا مقصود ہے ؟

شیعہ سنی کو مارے یا سنی شیعہ کو ؟ اس سے برطانوی ، فرانسیسی ، روسی ، بھارتی یا چینی پالیسیوں کو کیا گزند پہنچ سکتی ہے؟ کیا تعلیمی ادارے بموں سے اڑا دینے سے فلسطینیوں کو مزید خود مختاری مل جائے گی ؟کیا مزارات پر حملوں سے مغرب کے ہاتھوں تیسری اور مسلمان دنیا کا استحصال کمزور پڑ جائے گا؟ کیا کسی عیسائی بستی کو آگ لگادینے سے امریکی ڈرون حملے رک جائیں گے ؟ کیا کسی ہندو لڑکی کو جبراً مسلمان بنانے سے بھارتی مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے قبل ہندو انتہا پسند دس بار سوچنے پر مجبور کردیے جائیں گے ؟ کیا کسی مارکیٹ میں عورتوں ، بچوں اور نہتے جوانوں کے درمیان پھٹ جانے سے غیر مسلموں کو جوق در جوق دائرہ اسلام میں آنے کی کوئی ترغیب ملے گی ؟ کیا یوٹیوب خود پر حرام کردینے کے بعد مقدس ہستیوں کی توہین کا سلسلہ تھم گیا ؟ کیا گوتم بودھ کے مجسمے ڈائنا مائٹ سے اڑا دینے سے بودھ جاپان ، چین اور کوریا کی تالیف و تبدیلیِ قلب ہوگئی ؟

نائجیریا میں بوکو حرام ( مغربی تعلیم حرام ہے ) نامی تنظیم نے اپنے پیروکاروں کے سوا باقی سب کو نام نہاد مسلمان قرار دیتے ہوئے ان نام نہادوں کو مغربی بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچانے کا حل یہ ڈھونڈا ہے کہ جتنوں کے بھی گلے کاٹ سکیں کاٹ دیں۔مرنا تو سب کو ایک دن ہے مگر اس طرح مرنے والے کم ازکم بے راہروی سے تو بچ ہی جائیں گے۔ اب تک اسلامی کانفرنس یا عرب لیگ سمیت کسی بھی جانب سے حرام ہے کہ بوکو حرام کی کارروائیوں کے حق میں یا خلاف کوئی ایک لفظ بھی کہا گیا ہو۔جب کہ برماکے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی اقوامِ متحدہ سمیت کون ہے جس نے مذمت نہیں کی ؟

ایک اور افریقی ملک مالی میں اور تو جو ہوا سو ہوا مگر ٹمبکٹو شہر میں ہزار برس پرانی تاریخی و مذہبی کتابوں کے انمول خزانے کو بھی بدعتی لٹریچر قرار دے کر آگ لگا دی گئی اور اس قدیم مسجد اور مدرسے کو بھی زمیں بوس کردیا گیا جسے اقوامِ متحدہ کی جانب سے عالمی میراث کا درجہ ملا ہوا تھا۔۔نتیجہ یہ نکلا کہ مالی کی کمزور عقیدے کی حکومت راسخ العقیدہ حملہ آوروں کی تپش سے بچنے کے لیے غیر مسلم فرانسیسی حکومت کی مدد طلب کرنے پر مجبور ہوگئی۔ بھلا کون یقین کرے گا کہ ٹمبکٹو کی علمی میراث ان لوگوں کے ہاتھوں برباد ہوئی جن کے بزرگوں نے قدیم یونان کے فلسفے اور سائنسی نظریات کو عربی میں منتقل کرکے آنے والی انسانی نسلوں کے لیے محفوظ کردیا۔اور پھر انھی عربی تراجم کو چودھویں پندرھویں صدی میں دوبارہ مغربی زبانوں میں اپنا کر اہلِ مغرب نے اپنی مادی ترقی کا سنگِ بنیاد رکھا اور پھر مسلمان دنیا کو اس ترقی کی بنیاد پر رفتہ رفتہ پسماندگی کی دیوار سے لگا دیا۔

جو کام مغرب نے بحیثیت مجموعی مسلمان دنیا کے ساتھ نوآبادیاتی دور میں کیا، اب وہی کام کچھ مسلمان گروہوں نے اپنے ہاتھ میں لے کر اسے اور تیز کردیا ہے۔ بلکہ اب تو صورت یہ ہے کہ جن لوگوں نے مغربی ممالک میں پناہ ، شہریت اور روزگار حاصل کیا، اب انھی میں سے کچھ غیر ہوشیلے مگر جوشیلے تارکینِ وطن ان مغربی ممالک کو بھی اپنے انداز سے مشرف با اسلام کرنے یا مسلمانوں پر اگلی پچھلی زیادتیوں کا سبق سکھانے پر آمادہ ہیں اور ان کے نزدیک ہر مغربی شہری ماضی حال اور مستقبل کی پالیسوں کے گناہوں کا آلہِ کار ہے۔

چونکہ حسنِ سلوک اور تبلیغ ایک صبر آزما اور مشکل راستہ ہے لہٰذا شارٹ کٹ کے طور پر بندوق ، خنجر اور بارود کا راستہ اختیار کرلیا گیا ہے۔ اس سے غیر مسلم مغربی معاشرہ بدلے نا بدلے لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ ان ممالک میں بسنے والی پرامن مسلمان اقلیت مقامی اکثریت کے شکوک و شبہات کے سرخ دائرے میں آچکی ہے اور ایک انتہا پسند کا انفرادی فعل ردِ عمل کے طور پر پوری پوری کمیونٹی کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن گیا ہے۔چنانچہ عمل در ردِ عمل در جوابی ردِ عمل در ردِعمل کا ایک ایسا گھن چکر گردش پذیر ہے جو رفتہ رفتہ گیہوں اور گھن سب ہی کو چاٹ جائے گا۔اور آخری سین یہ ہوگا کہ اس کرہِ ارض پر صرف مغرب و مشرق کے انتہا پسند اور کچھ چرند پرند ہی رہ جائیں گے اور یہ چرند پرند بھی بالاخر انتہا پسندی کی خوراک بن جائیں گے۔

اقبال نے یہ شعر بیسویں صدی کے شروع میں مغربی تہذیب کے بارے میں کہا تھا کہ۔۔۔۔

تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پے آشیاں بنے گا، نا پائیدار ہوگا

مجھے لگتا ہے کہ اقبال زندہ ہوتے تو یہ شعر اکیسویں صدی کی مسلمان دنیا کے نام کردیتے جو اپنے ہی ہاتھوں یرغمال ہوتی چلی جارہی ہے۔جتنا آگے جانا چاہ رہی ہے اتنا ہی اس کے کچھ اپنے اسے پیچھے کی طرف ہانک رہے ہیں اور ہانکے جانے والوں کو اس پر کوئی خاص اعتراض ، پریشانی یا پشیمانی بھی نہیں۔شائد تب تک دیر ہوجائے جب تک وہ یہ راز جان پائیں کہ۔۔۔

دائرے کا سفر بھی خوب رہا
درمیاں درمیاں میں تھا ہی نہیں

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔