مارکس ایک جدوجہد کا نام

ڈاکٹر ناصر مستحسن  پير 27 مئ 2013

یورپ نے انیسویں صدی میں دو عظیم شخصیتیں پیدا کیں، ایک چارلس ڈارون دوسرے کارل مارکس۔ ڈارون نے قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح کا قانون دریافت کیا اور مارکس نے انسانی تاریخ کے ارتقاء کا قانون۔ جہاں ڈارون کی دریافتوں نے سائنسی دنیا میں ایک انقلاب بپا کردیا جب کہ کارل مارکس کی دریافتوں نے سماجی انقلاب سے استحصالی و جبر و استبداد کی تاریک راہوں کو منہدم کردیا۔ انسان کی سمجھ میں غالباً یہ بات اس وقت تک نہیں تھی کہ اس کو پینے کے لیے صاف پانی، پیٹ بھرنے کے لیے غذا اور تن ڈھانپنے کے لیے لباس اور سر چھپانے کے لیے گھر درکار ہوتا ہے۔

اور ان ضروریات زندگی کو حاصل کرنے کے لیے وہ آلات و اوزار کا سہارا لیتا ہے اور سماج میں رشتوں کی بنیاد پر وہ تعلقات قائم کرتا ہے اور یہ تمام رشتے جغرافیائی ماحول اور آلات پیداوار کی نوعیت سے ہی متعین ہوتے ہیں۔ طریقہ پیداوار اور پیداواری رشتوں میں تبدیلیاں ہی سماجی انقلاب کی راہیں ڈھونڈتی ہیں۔ غالباً کارل مارکس نے انھی نظریوں کی مدد سے سرمایہ داری نظام کو جانچا، پرکھا اور اس کے بطن سے ایک نئے نظام کا آفتاب طلوع ہوا جس کی نشاندہی اس نے کر رکھی تھی۔

کارل مارکس 5 مئی 1818 میں جرمنی کے ایک شہر ٹرائر میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا، مارکس کے باپ نے جو پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھا اس نے اپنا مذہب مارکس کی پیدائش سے پہلے ترک کردیا تھا اور عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا۔ ہائن ارخ مارکس ایک نہایت ہی خوش حال وکیل تھا۔ وہ فرانس کی انقلابی تحریکوں سے حد درجہ متاثر تھا۔ لہٰذا اس کے کتب خانے میں روسو، والٹیئر لائبسنز اور دوسرے روشن خیال مفکروں کی نایاب کتابیں موجود تھیں۔ مارکس کو، مارکسی بنانے میں غالباً ان کتابوں کا ایک کردار رہا ہو، اور یہ اس کی سماجی انقلاب کی راہیں متعین کرنے میں پیش پیش رہی ہوں۔

یہ وہ وقت تھا جب نپولین کی شکست کے بعد یورپ اور بالخصوص جرمنی میں جبرواستبداد کا دور دورہ تھا۔ شہری آزادی سرے سے مفقود تھی جس کے باعث عوام میں بے چینی کا منظر نمایاں تھا۔ سترہ سال کی عمر میں اسکول سے رخصت ہوتے وقت مارکس نے الوداعی مضمون پڑھا جو مارکس کے ذہنی رجحانات ظاہر کرتا ہے، اس مضمون کا عنوان تھا ’’پیشے کا انتخاب‘‘ مارکس لکھتا ہے کہ ’’پیشے کا انتخاب کرتے وقت ہم کو بنی نوع انسان کی بھلائی کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے، اگر ہم کوئی ایسا پیشہ اختیار کریں جس میں ہم کو انسانوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کا موقع مل سکے تو ہماری کمر بھاری سے بھاری بوجھ کی وجہ سے بھی نہ جھک سکے گی‘‘۔ مارکس کا باپ مارکس کو قانون پڑھانا چاہتا تھا مگر مارکس کا میلان فلسفے کی طرف تھا لہٰذا اس نے اپنے لیے فلسفہ ہی منتخب کیا اور برلن یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔

برلن میں ان دنوں جرمن فلسفی ہیگل (1831-1770) کا طوطی بول رہا تھا۔ 1841 میں مارکس نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی۔ اس نے اپنے مقالے میں قدیم یونان کے مادی فلسفی ویمقراطیس اور ایبی فورس کے ایٹمی نظریوں کا موازنہ پیش کیا تھا۔ مارکس نے صحافت کا رخ اختیار کیا اور ہائی نش زائی تونگ نامی اخبار سے وابستہ ہوگیا۔ مارکس نے کسانوں کے حقوق اور پریس کی آزادی کی حمایت میں مسلسل کئی مضامین لکھے جن کو لوگوں نے بے حد پسند کیا، وہ تحریرکی آزادی کو ہر فردوبشر کا حق ہی نہیں سمجھتا تھا بلکہ انسان کی شخصیت کی نشوونما کی بنیادی شرط خیال کرتا تھا۔

سنسرشپ انسانی سرشت کی نفی ہے۔ سنسرشپ پریس کو یہ باور کروانا چاہتی ہے کہ تم بیمار ہو اور حکومت تمہاری طبیب ہے۔ مگر یہ طبیب وہ دیہاتی جراح ہے جس کے پاس ایک ہی آلہ ہے اور وہ ہے قینچی، یہ اتائی جراح انسان کے بدن کا ہر وہ حصہ کاٹ کر پھینک دیتا ہے جو اس کو برا لگتا ہے۔ مارکس کی تحریریں دو دھاری تلوار ہیں جس کی ضرب جرمنی ہی کی نہیں جہاں جہاں فیوڈل نظام ہے اور اس کے ساتھ جبرواستبداد کی قوتیں کارفرما ہیں، ان پر بھی پڑیں۔

جب جب حق منظر عام پر آتا ہے طاغوتی عناصر اس کو مٹانے کے درپے ہوجاتے ہیں، غالباً مارکس کو بھی اسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑا اور اس کے خلاف حکومت نے پابندیاں لگادیں۔ پھر اس نے ہیگل کے فلسفے، حق پر تنقید لکھی۔ اس مقالے میں مارکسی نے ہیگل کے اس دعوے کو رد کیا تھا کہ بورژوا ریاست بالخصوص جرمن ریاست انسانی ارتقاء کا نقطہ عروج ہے۔ اس نے اپنے مضمون میں اس عہد نو کی طرف اشارہ بھی کیا تھا جس کی رونمائی محنت کش طبقہ کرے گا اور پہلی بار بشر کی تخلیقی خصوصیت اور پرولتاریہ کے انقلاب منصب سے بھی بحث کی تھی۔ انیسویں صدی نے ایک ہی وقت میں، ہر صدی کے دو عظیم شاہکار ہمیں دیے۔ مارکس اور اینگلز۔ اینگلز 1820 میں رہائن لینڈ کے شہر ہارمین میں پیدا ہوا۔ وہ طبعاً باغی واقع ہوا تھا اور شیلے کی نقل میں جوشیلی نظمیں لکھا کرتا تھا۔

اس کو فلسفے اور اقتصادیات کا بھی شوق تھا۔ اس نے آرنلڈ روج کے رسالے کے لیے ’’علم اقتصادیات کا تنقیدی جائزہ‘‘ کے عنوان سے جو مقالہ لکھا تھا اس کے بارے میں مارکس نے اعلانیہ اعتراف کیا کہ اینگلز کے مضمون نے مجھ کو سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادیات کی جانب متوجہ کیا، پھر اس کے بعد اینگلز مارکس کے علم و فضل کا ایسا گرویدہ ہوا کہ مارکس کی خاطر تمام عمر مالی اور قلمی قربانیاں دیتا رہا۔ کمیونسٹ مینی فسٹو مارکس اور اینگلز کی وہ انقلابی تصنیف ہے جس نے شایع ہوتے ہی دنیا میں ہلچل مچادی اور ڈیڑھ سو سال کے بعد بھی اس کی ہر دلعزیزی میں کوئی کمی نہیں آئی۔

لینن کہا کرتا تھا کہ ’’یہ کتابچہ کتابوں سے بھرے ہوئے کئی کتب خانوں پر بھاری ہے‘‘۔ اس کی روح آج بھی دنیا بھر کے مزدوروں، ہاریوں، محنت کشوں میں جوش وولولہ پیدا کرتی ہے اور ان میں سماجی شعور بیدار کرتی ہے، ہمارے یہاں بالعموم مزدور طبقے کو ان کے بنیادی حقوق سرے سے ملتے ہی نہیں اگر کوئی فرد، گروہ، تنظیم اس کے لیے آواز حق بھی بلند کرتی ہے تو اس کو پابند سلاسل ہونا پڑتا ہے۔

آج مارکس فکر کو جو عروج ملا ہے وہ اس کی زندگی میں نہ مل سکا، آج ایک تہائی دنیا میں اس کے انقلابی اصولوں پر عمل ہورہا ہے، وہاں کے محنت کش آج نئی دنیا اور نیا آدم بنانے میں لگے ہیں۔ ایسی دنیا جس میں کوئی کسی کا غلام نہیں ہے، نہ کوئی کسی کا آقا، نہ ہی کوئی کسی کی محنت کا پھل کھاتا ہے، ایسی دنیاؤں میں محنت کشوں کا راج ہے اور سرمایہ دار اور جاگیردار مفقود ہیں، بے روزگاری مفقود ہے، کسی کو روزی روزگار کی فکر نہیں ستاتی اور بقیہ دنیا میں بھی اس وقت ایسا کوئی ملک نہیں جس میں مارکس کے ہزاروں بلکہ لاکھوں پیروکار آزادی، امن، جمہوریت، اور سماجی انصاف کی خاطر جدوجہد میں مصروف نہ ہوں۔ اینگلز نے مارکس کے جنازے پر تقریر کرتے ہوئے سچ کہا تھا کہ مارکس کا نام سدا زندہ رہے گا اور اس کا کام بھی۔ کتنا سچ کہا تھا۔

کمیونسٹ مینی فسٹو مارکس اور اینگلز کی نادر دریافت ہی ہے جس کو محنت کشوں کی بائبل بھی کہتے ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے اس کتاب میں سائنسی سوشلزم کے بنیادی اصول و اغراض و مقاصد بڑے مختصر لفظوں میں بیان کیے ہیں۔ وہ رقم طراز ہیں کہ معاشرہ ہزاروں برس سے معاشرتی جدوجہد سے ایک خاص وقت میں ظہور میں آیا۔

ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ یورپ میں ایک بار پھر انقلاب کا غلغلہ بلند ہوا۔ ابتدا پیرس سے ہوئی جہاں فروری 1848 میں لوئی فلپ کی بادشاہت کا تختہ الٹ دیا گیا اور انقلاب کی سمت جرمنی کی طرف پھر گئی۔ جرمنی حکومت مارکس کی تحریروں کو برداشت نہیں کرسکتی تھی اس پر بیک وقت 23 مقدمے قائم کیے گئے اس کو ملک بدری کے پروانے بھی ملے۔ انقلاب من حیث المجموعی تبدیلی نظام کا نام ہے۔ جہاں عوام حقوق پر قبضہ نہ ہو، اور غریبوں پر کشت و خون نہ مارا جائے، عوام کی طاقت سے ہر وہ کام ہوسکتا ہے جس کی عملی شکل رعونت سے پر سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے بھی نہ ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔