وہ نواز شریف جسے میں جانتا ہوں

ارسلا ہوتی  پير 27 مئ 2013

سب سے پہلے میں میاں نوازشریف کو تیسری بار وزارت عظمیٰ کے لیے کامیابی حاصل کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہم سب دعا گو ہیں کہ موجودہ متفقہ سیاسی ماحول میں میاں نواز شریف کی قیادت پاکستان کو عالمی سطح پر پرامن‘ مضبوط و مستحکم اور معاشی سرگرمیوں کا محور بنانے میں زیادہ سے زیادہ کامیابیوں کے پھول اپنے دامن میں سمیٹے۔

میرا میاں نواز شریف سے تعلق ان کے سیاسی ابتلا کے دور سے چلا آ رہا ہے جب وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ آج کے میاں نواز شریف کی شخصیت میں واضح تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ 1990کی دہائی کے میاں نواز شریف اور آج کے میاں نواز شریف میں بہت فرق آ چکا ہے۔ آج ان کی شخصیت سے ماضی کے مقابل زیادہ سیاسی پختگی اور اعتماد کا اظہار ہو رہا ہے۔ یہ بات صرف زیب داستان سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں کہ میاں صاحب طویل بریفنگز اور اجلاسوں کو پسند نہیں کرتے اور ان سے پرہیز کرتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ میں نے خود 2013ء میں منشور کمیٹی (مینی فیسٹو کمیٹی) کے اجلاسوں میں شرکت کی جس کی صدارت میاں صاحب نے کی۔ دو ماہ کے عرصے میں تقریباً دس اجلاس منعقد ہوئے۔ ان اجلاسوں کے دوران میں نے خود دیکھا کہ میاں صاحب دوسروں کی بات بھرپور توجہ اور دھیان سے سنتے ہیں۔ اس کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ یہ اجلاس صبح دس بجے سے شروع ہوتے اور صرف 15 منٹ کے دو وقفوں کے ساتھ شام 4:30 بجے تک جاری رہتے۔ ان اجلاسوں کے دوران ون ڈش کی روایت کا ڈول ڈالا گیا تاکہ ایک جانب وقت کا ضیاع نہ ہو تو دوسری جانب اجلاس پوری یکسوئی کے ساتھ جاری رہیں۔

ان اجلاسوں میں وقت کی پابندی ملحوظ خاطر رکھی جاتی تھی۔ اگر کوئی شخص کبھی دیر سے آ جاتا تو میاں صاحب خصوصی طور پر اسے وقت کی پابندی کی ہدایت کرتے۔ اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہر موقع پر دیر سے آنا ہماری عادت بن چکی ہے۔ ان اجلاسوں میں اپنایا جانے والا نظم و ضبط ملک کے روایتی سیاسی کلچر میں تبدیلی کی واضح مثال تھا، ترقی کے لیے وہی تبدیلی جس کی ہماری نوجوان نسل خواہاں ہے۔ ان اجلاسوں کے دوران میاں صاحب کی جانب سے انتہائی دلچسپی کا اظہار ہمارے ملک میں رائج روایتی سیاسی نظام میں تبدیلی کا سنگ میل تھا۔ میں نے میاں نواز شریف کو پاکستان کی ترقی کے لیے روایتی نظام میں تبدیلی لانے اور از سرنو معاشی نظام تشکیل دینے کے لیے پرجوش اور پرعزم پایا۔

میں میاں نواز شریف کی پاکستان کی خوشحالی کے لیے دلچسپی اور توجہ کی دوسری مثال پیش کرتا ہوں۔ ان اجلاسوں میں آیندہ حکومت ملنے پر عدالتی اور قانونی نظام میں اصلاح پر ہونے والی بحث کے دوران میاں صاحب نے سوالیہ انداز میں کہا کہ جب ہم موٹر وے بنانے پر اربوں روپے خرچ کر سکتے ہیں تو عام شہریوں کو انصاف کی فوری فراہمی کی خاطر عدالتی نظام میں تبدیلی لانے کے لیے کثیر رقم خرچ کیوں نہیں کر سکتے۔ میاں صاحب نے واضح کیا کہ غریب آدمی تک انصاف کی فوری اور سستی فراہمی کامیاب قوم کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

میرے نزدیک ہمارے معاشرے کے محروم طبقے کے دکھوں اور پریشانیوں کے ازالہ کے لیے یہ ایک حقیقی اور عملی کوشش تھی۔ میاں صاحب ہر لحاظ سے ایک عملی سیاستدان کے روپ میں سامنے آئے ہیں جو فرینڈلی اپوزیشن رکھنے کے بجائے تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ ماضی میں میاں صاحب کی سیاست کے انداز کو غلط سمجھا گیا جب کہ وہ جمہوری نظام کو استحکام بخشنے کے لیے سب کے ساتھ مفاہمت چاہتے تھے تاہم تمام مشکلات کے باوجود پاکستان میں سیاسی استحکام کی منزل کو پانے کے لیے ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔

مل کر ساتھ چلنے کی ان کی یہ سوچ مستقبل میں سیاسی اتحادیوں اور اپوزیشن کے ساتھ شراکت داری پر بھی اثر انداز ہو گی۔ جہاں تک ان کی خوبیوں کا تعلق ہے تو وہ پہلے ہر شخص کی بات توجہ سے سنتے ہیں پھر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو ایک لیڈر کو باپ کا مقام عطا کرتی ہے۔ بلوچستان میں معاشرتی اور سیاسی حالات انتہائی مخدوش ہیں۔

پاکستان کو ایسے ہی پدرانہ کردار کی ضرورت ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلے۔ اس امر کی تصدیق انتخابات جیتنے کے فوری بعد ان کی پہلی عوامی تقریر سے بھی ہوتی ہے جس میں انھوں نے اپنے مخالفین کو مکمل معاف کرتے ہوئے پاکستان کے استحکام کے لیے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔

یہ خوش کن امر ہے کہ میاں صاحب تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت اور مکمل ہم آہنگی کے خواہاں ہیں۔ کچھ سیاستدانوں کے نزدیک عام آدمی کی حالت میں تبدیلی لانے کے بجائے سیاسی سطح پر اختلافات جنم دینا باعث تسکین ہو سکتا ہے لیکن میاں صاحب کے لیے باعث تسکین قلب یہ ہے کہ آج مختلف ٹکڑوں میں بٹے پاکستانی معاشرے کو اتحاد و اتفاق کی لڑی میں پرویا جائے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث ملکی معاشی صورتحال پر پڑنے والے منفی اثرات کو شکست دی جائے۔

لہٰذا آج کوئی بھی شخص نوے کی دہائی کے اور آج کے نوازشریف میں واضح فرق کو خود دیکھ سکتا ہے۔ مشکلوں اور صعوبتوں کی بھٹی نے میاں صاحب کو کندن بنا دیا ہے۔ جلاوطنی کے عذاب نے ان کی وطن عزیز اور اپنی قوم کے لیے خدمت کرنے کے جذبے کو ماند نہیں کیا۔نفرتوں اور عداوتوں کی سیاست سے ہٹ کر نواز شریف نے مفاہمت کا راستہ اپنایا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی اسپتال میں عیادت‘ خیبر پختونخوا میں ان کے انتخابی مینڈیٹ کو تسلیم کرنا اور انھیں مذاکرات کی دعوت دینا میرے اس دعوے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کہ آج کا نوازشریف نوے کی دہائی کے نواز شریف سے قطعی مختلف ہے۔

مجھے امید واثق ہے کہ میاں صاحب پاکستان کی ایسی بھرپورخدمت کریں گے جو آج تک کسی لیڈر نے نہ کی ہو گی اور پاکستان خوشحالی کی منازل جلد طے کر لے گا۔

(مضمون نگار خیبرپختونخواہ میں مسلم لیگ (ن) کے ترجمان،منشور کمیٹی کے رکن اور مسلم لیگ ن کی صوبائی ،مرکزی کمیٹی کے بھی رکن ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔