خفیہ رقوم: ہم پھر ’’رہ‘‘ گئے!

ابن مستقیم  پير 27 مئ 2013

گزشتہ دنوں ایک عدالتی حکم کے نتیجے میں وزارت اطلاعات کی طرف سے ایک فہرست جاری کی گئی، جس میں مبینہ طور پر خفیہ رقوم سے استفادہ کرنے والے صحافیوں کی ذکر موجود تھا۔اس سے قطعہ نظر کہ اس میں کتنی صداقت ہے اور اس میں آنے والے ناموں کی وضاحتوں میں کتنی سچائی؟ ہمیں سب سے زیادہ افسوس ہے کہ صحافت کی وادی پُرخارکی اتنی سیر کرنے کے باوجود ہم ایک بار پھر محروم رہ گئے ہیں! شاید ہم جائز و ناجائز کے ’’چکروں‘‘ میں زیادہ پڑ جاتے ہیں۔

بھئی چند دن پہلے کی بات ہے کہ ایک ادارے میں جب ایک انٹرویو کرنے کے لیے گیا تو واپسی میں انھوں نے ایک تھیلا پکڑا دیا کہ ’’جناب، اس میں ہم نے اپنا معلوماتی مواد دے دیا ہے!‘‘ اب گھر جا کر اس تھیلے کو کھولا تو یہ معلوماتی مواد تو برائے نام ایک فائل میں اُڑس رکھا تھا، البتہ اس کے ساتھ ’’دیگر‘‘ چیزیں زیادہ غالب تھیں، جیسے ایک عدد بٹوہ اور ایک عدد جدید چائے کی پیالی (جسے عرف عام میں آفس مگ کہتے ہیں) موجود تھی۔

یقین جانیے مفتے کا مال ملنے پر لگا تو ہمیں بھی بہت اچھا، مگر اندر سے ایک آواز ایسے کچوکے لگاتی رہی کہ یہ ’’رشوت‘‘ ہے، جو کہ ناجائز طور پر قبول کی گئی ہے! حالاں کہ ہم نے قطعی کوئی بد دیانتی نہ دکھائی تھی، مگر دل کہتا تھا کہ جب ہم اپنے ادارے سے تنخواہ لے رہے ہیں تو بس پھر یہ کام بھی اس ہی ادارے کے لیے کیا اور اب اس کے لیے ’’دوسری‘‘ طرف سے مٹی کا ایک دھیلا بھی وصول کرنا کسی طرح بھی جائز کام کے زمرے میں نہیں آسکتا۔ یعنی ہماری ’’نااہلی‘‘ تو ہلکی سی پرواز میں ہی سامنے آگئی اور کہاں ہم خواب دیکھتے ہیں کہ ہمیں بھی بڑے بڑے چوکھٹوں میں اپنی تصویر سجائے ’’لکھاریوں‘‘ اور روزانہ اپنی اپنی ’’پارٹیوں‘‘ کے لیے سوال اٹھانے والے ٹی وی میزبانوں کی طرح ’’قیمت‘‘ دی جائے۔

بہرحال مندرجہ بالا قصے کو جملہ معترضہ سمجھ کر بھلا دیا جائے اور ہماری معذرت قبول کر لی جائے ’’آیندہ نہیں کریں گے!‘‘ ہمارے اندر سے آئی آواز کہ کیا ہے صاحب، اسے بھی ہم بہلا پھسلا لیں گے، اگر نہیں مانی تو ہدف بنا کر قتل کرا دیں گے۔۔۔ نہیں، نہیں ہمارا مطلب ہے کہ اس کی ایسی کی تیسی۔ اب ہم نے فیصلہ کرلیاہے کہ ہم بھی وہی کریں گے جو سب کر رہے ہیں۔ سو سارے ’’خریدار‘‘ متوجہ ہوجائیں، کیوں کہ ہم اب کسی ایسے ’’موقع‘‘ سے کسی صورت محروم نہیں رہنا چاہتے۔ جس میں ہمارے بغیر ہی پلاٹ دے دیے جائیں، دعوتیں کرا دی جائیں، لفافے بانٹ دیے جائیں۔ نہیں بالکل بھی نہیں۔

تو جناب آپ نے ہمارا ’’فن‘‘ تو دیکھ ہی رکھا ہے۔ اب آپ بتائیے کہ کرنا کیا ہے؟ ہم اللہ کے فضل سے ’’آپ‘‘ کا ایک ایک پیسہ ’’حلال‘‘ کریں گے۔ ایسے کہ آپ اتنے مہنگے مہنگے ’’ناموں‘‘ کو بھول جاویں گے، جنھیں اتنے عرصے سے آپ بھی ’’پال‘‘ رہے ہیں اور وہ نہ صرف اپنے ادارے سے بھی بھاری پیسے بٹور رہے ہیں بلکہ اپنی ’’نیک نامی‘‘ کی بدولت عصر حاضر کے بڑے تجزیہ کار بنے پھرتے ہیں۔ بس اب ان کی ’’باری‘‘ ختم ہونے والی ہے اور اب ’’یہ ‘‘ تبدیلی آکر رہے گی۔

ساتھ ہی ہم یہ بھی بتادیں کہ ہم اگرچہ خود کو آپ کے ہاتھ فروخت کریں گے، لیکن ’’اوروں‘‘کی طرح بے وفائی کبھی نہیں کریں گے۔ جیسے کے ای ایس سی کی طرح ’’وہ‘‘ ایک بل کی بھی مہلت نہیں دیتے اور جیسے ہی پیسے ختم ہوتے ہیں پڑھنے والے کو بھی پتا چل جاتا ہے اور وہ یکلخت ’’تبدیلی، تبدیلی‘‘ اور ’’انقلاب، انقلاب‘‘ کے نعرے لگاتے لگاتے ’’یوں‘‘ گھومتے ہیں کہ پڑھنے والے ایک ایک قاری کو بھی ’’گھما‘‘ دیتے ہیں اور لوگ بھی بڑے معصوم ٹھہرے۔ آمنا وصدقنا کہہ کر کسی چوپائے کی طرح ان کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ ان کے لکھے اور بولے ایک ایک لفظ پر یقین لے آتے ہیں۔

لیکن ہم ’’آپ‘‘ کے ہر اچھے برے وقت کے ساتھی رہیں گے۔ بالکل اس ہی طرح جیسے اقتدار کی دوری پر ’’اچھے‘‘ وقت کے انتظار پر بھی دھڑا دھڑ لکھتے چلے جاؤ، کسی دور اندیش سرمایہ کار کی طرح، کہ جوں ہی بازی پلٹی تو پھر بہت اچھے ’’دام‘‘ ملنے والے ہیں۔ یقیناً ’’پارٹی‘‘ آپ کو انقلاب کے پہلے روز ہی آکر گلے لگائے گی اور کہے گی ’’مانگ کیا مانگتا ہے۔‘‘

’’بدقسمتی‘‘ سے لوگوں کا شعور اتنا بڑھ گیا ہے کہ انھوں نے یہ جان لیا ہے کہ فلاں لکھنے والا اس کا طرف دار ہے۔ اس لیے بہت سوں نے اسے اس چھاپ کی وجہ سے منہ لگانا ہی چھوڑ دیا ہے تو ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم بہت ارزاں نرخ پر غیر جانبدار رہتے ہوئے ’’خاص، خاص‘‘ مواقعے پر آپ کے نام کا عَلم بلند کرتے رہیں گے۔

جس سے یقیناً لوگ ایسے ہی دھوکا کھاجائیں گے، جیسے ایوان اقتدار کے ہر نئے چہرے سے کھا جاتے ہیں۔ آج کل شاید اس ہی چیز کی زیادہ ضرورت ہے کہ بظاہر ’’متوازن‘‘ اور ’’غیر جانب دار‘‘ رہو اور جوں ہی اشارہ ملے اسی کا گاؤ جس کا کھاؤ۔ یعنی اصل ’’کام‘‘ تو اس ہی وقت ہوتا ہے جب ہر طرف سے تھو تھو ہو رہی ہو۔ ایسے میں ’’ہم‘‘ آویں اور لوگوں کو بتاویں کہ نہیں نہیں یہ ہی تو در حقیقت ’’قومی مفاد‘‘ ہے اور اس طرح ڈانواڈول کشتی منجدھار سے نکل آئے۔ یقین مانیے ہم تو ’’اصولوں‘‘ پر روز اول سے ہی کاربند ہیں اور آگے ہم مزید کچھ نہیں کہتے کہ ’’آزمایش شرط ہے‘‘ اِس کو آزمایا۔۔۔ اُس کو آزمایا۔ ایک ’’باری‘‘ ہمیں بھی دے کر دیکھو! ’’ایک بار آزمایش، بار بار فرمایش!‘‘

ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہم صرف ’’آپ‘‘ ہی کے ’’نظریاتی‘‘ حلیف ثابت ہوں گے۔ اب آپ سُرخے ہوں یا سبزے۔۔۔ دائیں یا بائیں۔۔۔ اوپر یا نیچے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ہاں ہر قسم کی نظریے کی بروقت اور فوری پرورش تسلی بخش کی جاتی ہے۔ ادائیگی بھی بہت ’’آسان اقساط‘‘ اور نہایت نرم شرائط پر۔ وہ بھی بلا سود! (کیوں کہ ہم سود کو مطلق حرام سمجھتے ہیں!) بس اس اظہاریے کو ہمارے ’’برائے فروخت‘‘ کا اشتہار اور ہماری حاضری سمجھا جاوے۔ اور اگر اب بھی کوئی فہرست اور نام ایسے آوے جس میں ہمارا نام نہ ہوا۔۔۔ مطلب یہ کہ ہمیں بدستور ’’محروم ‘‘ رکھنے کی حکمت عملی تبدیل نہ کی گئی تو پھر ہمیں بڑوں بڑوں کو بلوانا آتا ہے۔ ہمارا ’’سچا اورکھرا‘‘ قلم ہوگا اور ’’آپ‘‘ کی گردن!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔