ویلڈن عمران خان، مگرکام ابھی باقی ہے

عابد محمود عزام  بدھ 5 ستمبر 2018

مسلمانوں کے بھرپور اور مسلسل احتجاج کی وجہ سے ہالینڈ نے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا، جس سے دنیا بھرکے مسلمان خوش ہیں۔ ہالینڈ کی اسلام دشمن جماعت ’’فریڈم پارٹی‘‘ کے سربراہ ملعون گیرٹ ولڈرز نے دنیا کا امن داؤ پر لگاتے ہوئے محسن انسانیت ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا اعلان کیا تھا۔یہ خبر عام ہونے پر اسلامی دنیا میں احتجاج کی ایک لہر اٹھی اور اس مقابلے کو رکوانے کے مطالبات سامنے آئے۔ پاکستان میں بھی مختلف مذہبی جماعتوں نے اس حوالے سے بھر پور احتجاج کیا۔

پاکستان کی نگران حکومت نے اس گستاخانہ مقابلے پر اپنی تشویش کا اظہارکرتے ہوئے رسمی احتجاج کیا، لیکن نئی حکومت کا اس حوالے سے لیڈنگ رول رہا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے سنجیدہ کردار ادا کرتے ہوئے،اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ سینیٹ میں اس بدترین عمل کے خلاف قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی اور تمام تر اختلافات کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے معاملے پر نہ صرف اپوزیشن اور حکومت ایک پیج پر نظر آئے، بلکہ بلکہ اقلیتی اراکین نے بھی اس معاملے پر حکومتی موقف کی تائید کی۔ وزیراعظم عمران خان نے گستاخانہ خاکوں کے معاملہ کو مسلم دنیا کی ناکامی قرار دیا۔

حکومت پاکستان نے اس حساس معاملے پر ڈچ حکومت سے متعدد مرتبہ رابطہ کرکے احتجاج کیا اور مقابلہ منسوخ کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کئی بار ڈچ وزیرخارجہ سے فون پر بات کرکے اس معاملے کی حساسیت سے آگاہ کیا، جس پر ہالینڈکے وزیر خارجہ نے ہالینڈ حکومت کی طرف سے ان مقابلوں سے لاتعلقی کا اظہارکیا۔

اس کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گستاخانہ خاکوں سے متعلق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے رابطہ کیا اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے 6 ممالک کو خطوط ارسال کرکے فوری اجلاس بلانے کی درخواست کی گئی ۔ حکومت پاکستان ڈچ سفیرکو ملک بدرکرنے پر غورکر رہی تھی، جب کہ اس معاملے کو او آئی سی اور اقوام متحدہ میں بھی بھرپور انداز میں اٹھانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی کہ اس دوران گستاخ رسول گیرٹ وائلڈرز بالآخر گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کرنا پڑا۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ ہونا اخلاقی فتح ہے۔ گستاخانہ خاکوں کا معاملہ اب بھی عالمی فورم پر اجاگرکریں گے۔ اقوام متحدہ میں بھی معاملہ اٹھائیں گے۔ گستاخانہ خاکوں سے مستقل نجات کے لیے حکمت عملی اپنائیں گے۔اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان بھی اپنے پیغام میں یہ کہہ چکے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے دلوںمیں رہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہر مسلمان کے لیے یکساں تکلیف دہ ہے، لیکن مغرب کے لوگوں کو ہمارے جذبات کا احساس اور سمجھ نہیں ہے،کیونکہ ہم مسلمانوں نے انھیں سمجھایا ہی نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ گستاخانہ خاکوں کے مسئلے پر او آئی سی کے ذریعے اقوام متحدہ میں بات کریں گے۔ ہم صرف تب انھیں سمجھا سکتے ہیں کہ ساری مسلم امہ او آئی سی کے فورم سے اقوام متحدہ میں بات کرے۔ جب ہم سارے مسلمان ملک ایک پیچ پر آکر او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اقوام متحدہ میں بات کریں گے تو صرف تبھی یہ معاملہ رکے گا۔

دنیا کو رواداری اور عدم تشدد کا درس دینے والے مغرب کی جانب سے وقتاً فوقتاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جاتی ہے۔ ستمبر2002ء میں امریکی چینل فاکس نیوزکو انٹرویو دیتے ہوئے ایک مذہبی جنونی ’’جیری فال فویل‘‘ نے اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بارے میں انتہائی گھٹیا زبان استعمال کی۔ 2004ء میں ہالینڈ کے فلم ساز ’’ تھیو وان گوخ ‘‘ نے بھی ایک دستاویزی فلم میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی کردارکشی کی۔

ستمبر 2005ء میں ڈنمارک کے اخبار ’’ یولاند پوسٹن ‘‘ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہوئے 12 خاکے شایع کیے جو ’’ڈینیل پائیس‘‘ نامی متعصب یہودی کے غلیظ ذہن کی اختراع تھے ۔ 2008ء میں ہالینڈ کے فلم ساز ’’گیریٹ ولڈرز‘‘ نے ایک توہین آمیز فلم بنائی جس کا نام ’’فتنہ‘‘ رکھا۔

2015ء میں فرانسیسی اخبار ’’چارلی ہیبڈو‘‘ کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی گئی اورایک بار پھر 2008ء میں فتنہ فلم بنانے والے بدبخت گیرٹ ولڈرز نے نعوذباللہ گستاخانہ خاکوں کا مقابلے کا اعلان کیا۔ ناموس رسالت پہ یہ رکیک اور مسلسل حملے مسلمانوں کو ہر طرف سے بے بس کرنے کے نفسیاتی حربے ہیں، جو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ تشکیل دیے گئے ہیں۔

مسلم ممالک کو اس قسم کی گستاخیوں کا مستقل سدباب کرنے کے لیے مستقل لائحہ عمل طے کرنا ہوگا، جب تک مستقل منصوبہ بندی نہیں کی جاتی، تب تک یہ گستاخ دشمنان اسلام کوئی نہ کوئی غلیظ حرکت کرتے رہیں گے ۔ اس کا سب سے موثر طریقہ وہی ہے جو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بتایا ہے کہ تمام مسلم ممالک کو مل کر مغرب کے سامنے یہ باورکروانا ہوگا کہ ہم مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں، ذات اقدس کے مقابلے میں ہر قانون اور ہر اصول کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔

اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اقوام متحدہ میں یہ معاملہ اٹھانے کے عزم کا اظہارکرچکے ہیں۔ گستاخانہ خاکوں کا معاملہ منسوخ ہوا، اچھی بات ہے، لیکن اب عمران خان کو بیل منڈھے چڑھا کر ہی دم لینا چاہیے اور اقوام متحدہ میں اس حوالے سے قانون سازی کے لیے او آئی سی کو متحرک کرنا چاہیے۔ آیندہ ایسے توہین آمیز اقدامات سے بچنے کا بہترین راستہ اقوام متحدہ میں قانون سازی ہے۔

اگر حکومت پاکستان واقعی اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے چند اقدامات مفید ثابت ہوں گے۔ سب سے پہلے تو پاکستان میں عصمت انبیاء کا قانون پاس کیا جائے، جس کے مطابق تمام انبیائے کرام کا احترام کرنا ضروری ہو۔ یہ قانون پاس کرکے اقوام متحدہ میں بتایا جائے کہ ہمارے ہاں تمام انبیاء کا احترام لازم ہے اور پھر او آئی سی میں شامل تمام ممالک کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وقتا فوقتا یورپ میں نبی علیہ السلام کی توہین کی روک تھام کے لیے مل کر اقوام متحدہ سے قانون پاس کروایا جائے۔

اگر یہ قانون پاس نہیں کیا جاتا توعالمی برادری کے دباؤ کو رد کرتے ہوئے تمام مسلم ممالک توہین رسالت کی سزائے موت لاگو کریں اور اگر کوئی بدبخت نبی علیہ السلام کی توہین کرتا ہے تو سب مل کر اس ملک سے اس بدبخت کو سزا دلوائیں، بصورت دیگر تمام اسلامی ممالک یہ فیصلہ کرلیں کہ اس قسم کی کسی بھی قبیح حرکت پہ اس ملک کے سفیر کو نکال باہر کیا جائے گا۔اگر دنیا بھر کے ممالک اپنے ملکی معاملات میں کوتاہی کی وجہ سے مخالف ملک کے سفیر کو دیس نکالا دے سکتے ہیں تو ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے ایسا کیوں نہیں کیا جاسکتا؟

اگر یہ سفارتی حربہ کارگر نہ ہو تو ان ممالک کے ساتھ درآمدات بند کردی جائیں ۔ بے شک تجارتی اور سیاسی مجبوریاں اہم ہوتی ہیں لیکن ناموس رسالت اس سے بھی اہم ہے، جس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔