ضمنی انتخابات کا مرحلہ، امیدواروں نے تیاریاں شروع کر دیں

شاہد حمید  بدھ 5 ستمبر 2018
اب صدارتی الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں کے لیے اگلا مرحلہ ضمنی انتخابات کا ہے۔ فوٹو: فائل

اب صدارتی الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں کے لیے اگلا مرحلہ ضمنی انتخابات کا ہے۔ فوٹو: فائل

پشاور: عام انتخابات کے بعد حکومتوں کی تشکیل اور پھر صدارتی انتخابات کے مراحل سیاسی جماعتوں کو درپیش تھے جو اب طے ہوچکے ہیں لیکن یہ صدارتی الیکشن اپوزیشن جماعتوں میں بہت بڑی دراڑ پیدا کرگیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن)کے مرکزی صدر شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کیا تاہم یہ معاملہ صرف قومی اسمبلی تک ہی محدود تھا تاہم اب صدارتی الیکشن میں حکومتی امیدوار عارف علوی کے مقابلے میں اپوزیشن کے دو امیدوار سامنے آنے اور معاملہ سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں تک آنے کی وجہ سے صورت حال گھمبیر ہوگئی ہے کیونکہ اپوزیشن میں جو دراڑ مولانا فضل الرحمٰن اوراعتزاز احسن کے میدان میں آنے کی وجہ سے مرکز میں پیدا ہوئی ہے وہ نیچے تک چلی آئی ہے اور اس کے اثرات مستقبل میں ہر موقع پر مرتب ہوتے رہیں گے۔

یہ دراڑ اسی قسم کی ہے جو گزشتہ صدارتی الیکشن کے موقع پر قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف میں الگ،الگ امیدواروں کی حمایت کرنے سے پیدا ہوئی تھی اور کے آفٹرشاکس بار، بار محسوس ہوتے رہے اور اب صدارتی الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں کے لیے اگلا مرحلہ ضمنی انتخابات کا ہے جن میں سب سے پہلا معرکہ پی کے 23 شانگلہ کا ضمنی الیکشن ہے جس کے لیے تحریک انصاف کی جانب سے سابق وزیر شوکت علی یوسفزئی ہی امیدوار ہیں جبکہ دوسری جانب ریشاد خان جو مسلم لیگ(ن)کے امیدوارہیں انھیں تمام اپوزیشن جماعتوں نے اپنا امیدوار قرار دیاہے ۔

نوشہرہ سے دو صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر ضمنی الیکشن ہونے جا رہا ہے اوریہ دونوں نشستیں وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک نے خالی کی ہیں جن میں سے ایک پر ان کے بھائی اور دوسرے پر صاحبزادے انتخابی میدان میں اتریں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صوابی میں چھوڑی ہوئی نشست پر سپیکر کے بھائی عاقب اللہ میدان میں اتر رہے ہیں ۔صوبہ سے قومی اسمبلی کی واحد نشست جہاں ضمنی الیکشن ہو رہاہے وہاں سے سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کے صاحبزادے زاہد درانی کو میدان میں لایا گیا ہے جو حالیہ انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے تھے۔

پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر حیدرعلی کی خالی کردہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے ان کے بھتیجے میدان میں ہیں تو ڈی آئی خان میں علی امین گنڈا پور کی خالی کردہ صوبائی اسمبلی نشست کے لیے ان کے بھائی امیدوار ہیں اور یہی صورت حال جمعیت علماء اسلام(ف)کے حوالے سے بھی ہے جس نے پی کے 99 کے لیے مولانا فضل الرحمن کے برادراصغر کو میدان میں اتاراہے۔ اے این پی نے مردان سے امیر حیدر ہوتی کی جانب سے خالی کردہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر ایک مرتبہ پھر احمد خان بہادرکو ٹکٹ جاری کیاہے جو 2008ء میں عام انتخابات میں اپنی نشست جیت کر آئے۔پشاورسے پی کے78 جو کبھی پی کے تین اور اس سے قبل پی ایف ون ہوا کرتا تھا، بلورخاندان کے نام ہوکررہ گئی ہے۔

اب ضمنی الیکشن کے لیے ہارون بلور کی بیوہ ثمر بلور کو اے این پی نے ٹکٹ جاری کیاہے جن کے لیے اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اپنے امیدوار مقابلے سے دستبردار کرانے کا اعلان کیاہے تاہم انھیں تحریک انصاف کا سامنا بہرکیف کرنا ہوگا۔ تاہم اس حلقے پر یہ مسئلہ ضرور ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں یہاں سے جاوید نسیم نے کامیابی حاصل کی تھی جن کو پی ٹی آئی کے باغی قراردیتے ہوئے پارٹی سے باہر کردیئے گئے ہیں تاہم وہ اب پاکستان مسلم لیگ(ق)کاحصہ ہیں۔ (ق)لیگ کے قائدین جلد پی ٹی آئی کی قیادت سے رابطہ کرتے ہوئے اس حلقے پر جاوید نسیم کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدوار کو دستبردار کرانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما شاہ فرمان کی صورت صوبہ کو نیا گورنر بھی ملنے جا رہا ہے جن کی پوزیشن فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد اگرچہ وہ پہلے گورنروں کی سی تو نہیں ہوگی تاہم فاٹا کے خیبرپختونخوا میں مکمل طورپرضم ہونے تک ان کا کردار اہمیت کا حامل ہوگا اورچونکہ گزشتہ دورمیں وہ وزیراطلاعات بھی رہے اور پی ٹی ایم جرگے کے ممبربھی جس کی وجہ سے ان کے تعلقات اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کے ساتھ اچھے ہیں۔ اس لیے انھیں بطورگورنرخدمات انجام دینے میں مشکلات نہیں ہونگی،ان کی جانب سے گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعدان کے ذمے سب سے اہم ٹاسک فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہے جو آئندہ سال اپریل، مئی میں ہونے جا رہا ہے جس کے لیے انہوں نے سکیورٹی اداروں اورصوبائی حکومت کے ساتھ مل کر فاٹا میں حالات کو موافق بناناہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔