تحریک انصاف اور بی اے پی میں اختلافات کی بازگشت

رضا الرحمٰن  بدھ 5 ستمبر 2018
بلوچستان کے گورنر کے عہدے پر تقرری کیلئے مختلف ناموں پر غور و خوص کیا جارہا ہے۔ فوٹو: فائل

بلوچستان کے گورنر کے عہدے پر تقرری کیلئے مختلف ناموں پر غور و خوص کیا جارہا ہے۔ فوٹو: فائل

کوئٹہ:  بلوچستان میں پہلے مرحلے میں کابینہ میں دس وزراء اور ایک مشیر لئے جانے کے بعد اتحادی جماعتوں اور خود بلوچستان عوامی پارٹی میں ناراضگی کی باز گشت سنائی دے رہی ہے جبکہ وزیراعلیٰ جام کمال کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صدارتی الیکشن کے بعد دوسرے مرحلے میں چار وزراء اور چار مشیر لئے جا رہے ہیں۔

مخلوط حکومت کی اتحادی جماعتوں خصوصاً تحریک انصاف اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے وزیر اعلیٰ جام کمال کو وزارتوں اور محکموں کی تقسیم کے حوالے سے کافی دباؤ ہے اور یہ بات بھی حکومتی حلقوں میں زیر بحث ہے کہ تحریک انصاف بلوچستان اور بلوچستان عوامی پارٹی کے درمیان اختلافات میں دن بدن شدت آتی جا رہی ہے۔

تحریک انصاف بلوچستان کے صدر اور بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند سخت ناراض ہیں اور صدارتی انتخاب کے حوالے سے جب تحریک انصاف کی مرکزی لیڈر شپ کوئٹہ دورے پر آئی تو وزیر اعلیٰ جام کمال سے ملاقات اور پھر ان کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں سردار یار محمد رند کی عدم شرکت نے ان باتوں کو مزید تقویت دی ہے جبکہ سردار یار محمد رند اپنی مرکزی قیادت کے ساتھ دیگر ملاقاتوں جن میں گورنر بلوچستان اور جے ڈبلیو پی قابل ذکر ہیں میں موجود تھے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور بی۔اے۔پی میں شروعات میں ہی دوریاں اس بات کا عندیہ دے رہی ہیں کہ آگے چل کر معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں؟ ان سیاسی مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو یہ شکوہ ہے کہ بلوچستان میں حکومت سازی سے لے کر وزارتوں اور محکموں کی تقسیم کے حوالے سے انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا بلکہ بی اے پی کے وزیراعلیٰ جام کمال جن کی اُنہوں نے شروع دن سے ہی غیر مشروط حمایت کی تھی وہ ان کی جماعت کے تمام معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق بی اے پی کے اندر بھی بعض ارکان اسمبلی ناراض دکھائی دے رہے ہیں جس کا اظہار اُنہوں نے نجی محفلوں میں برملا کیا ہے؟ سیاسی مبصرین کے مطابق باقی بچ جانے والی 4 وزارتوں میں سے3 وزارتیں تو شاید اپنی اتحادی جماعتوں جن میں بی این پی (عوامی)، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور تحریک انصاف کو دینی ہونگی اور ان کی جماعت کیلئے ایک وزارت بچ جاتی ہے؟ جبکہ4 مشیروں میں سے دو مشیر وہ جے ڈبلیو پی اور اے این پی کو ایک ایک دیتے ہیں تو دو مشیر ان کی جماعت کیلئے بچ جاتے ہیں جبکہ انکی جماعت میں ناراض ارکان اسمبلی کی تعداد 5 سے6 بتائی جاتی ہے۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق صدارتی انتخاب کے بعد بلوچستان کی سیاست میں بھی ہلچل ہونے کا قوی امکان نظر آرہا ہے جبکہ وزیراعلیٰ جام کمال کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ صورتحال پر قابو پا لیا جائے گا بلکہ کافی حد تک اس صورتحال کو کنٹرول کر لیا گیا ہے۔ جبکہ بارہ ستمبر کو تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے نو منتخب رکن اسمبلی نوابزادہ نعمت اللہ زہری جو کہ اس سے قبل سینیٹر تھے کی سینٹ کی خالی ہونے والی نشست پر انتخاب ہونے جارہا ہے جس کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی نے میر سرفراز بگٹی کو اپنا اُمیدوار نامزد کیا ہے تاہم اس نشست کیلئے دیگر اُمیدواروں میں سابق نگران وزیراعلیٰ میر علاؤ الدین مری اور تحریک انصاف کی جانب سے میر عامر رند بھی میدان میں ہیں۔گذشتہ دنوں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل اور سردار یار محمد رند کے درمیان ایک طویل ملاقات ہوئی جس میں بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اور سینٹ کی خالی ہونے والی نشست پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

بلوچستان کے گورنر کے عہدے پر تقرری کیلئے مختلف ناموں پر غور و خوص کیا جارہا ہے، قوی امکان ہے کہ گورنر کی تقرری بھی صدارتی الیکشن کے بعد کی جائے گی، تاہم ڈاکٹر امیر محمد جوگیزئی نے گذشتہ دنوں کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اُن پر کرپشن کا کوئی کیس نہیں ہے اور جو پروپیگنڈہ میرے خلاف کیا گیا اس میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ نیب کے چیئرمین میرے پاس موجود دستاویزات کو دیکھیں اگر میں مجرم ہوں تو سزا کی معافی کیلئے درخواست نہیں کروں گا۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ نامزدگی کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے مجھ سے ملاقات بھی کی تھی اور خوشی کا اظہار کیا تھا۔

اُنہوں نے بتایا کہ2005ء میں کڈنی سینٹر کوئٹہ کے سامان کی خرید و فروخت ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ذریعے کی گئی تھی اور سامان کی اس خرید و فروخت کے حوالے سے 2015ء میں مجھے نیب نے گواہ کے طور پر بلایا تھا اور اس کیس کی وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کے ذریعے بھی تحقیقات کی گئی تھی۔ جس کی تحقیقاتی رپورٹ بھی موجود ہے جس میں مجھے کہیں بھی قصور وار نہیں ٹھہرایا گیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ منفی پروپیگنڈے سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے میں اس عہدے کا خواہشمند نہیں تھا مجھے تو بلایا گیا اور وزیراعظم سے ملاقات کرا کے نامزد کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔