ایک ہی راستہ

مقتدا منصور  جمعرات 6 ستمبر 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اس وقت ان گنت چیلنجز کا شکار ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وطن عزیز روزِاول ہی سے مختلف نوعیت کے مسائل کا شکار چلا آرہا ہے۔ ان مسائل کے حل نہ ہونے کے دیگرکئی اسباب کے علاوہ سب سے اہم سبب حکمران اشرافیہ کے ازخود قائم کردہ غلط تصورات اور مفروضے ہیں ۔ انھی غلط مفروضوں اور ان کے نتیجے میں کیے جانے والے غلط فیصلوں کی وجہ سے مسائل بحرانی شکل اختیارکرتے چلے جارہے ہیں، مگرکسی حکومت میں چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ترجیحات بنانے کی نہ استعداد ہے اور نہ ہی عزم ۔

ہمارے یہاں ریاستی امور ایک ایسی الجھی ہوئی ڈور بن گئے ہیں، جسے سلجھانے کی نہ کسی میں اہلیت ہے اور نہ حوصلہ ۔ ہر نئی آنے والی حکومت اپنے اقدامات سے خرابیِ بسیارکو دورکرکے ملک کو درست سمت دینے کے بجائے غلط فیصلوں اور اقدامات کا ملبہ سابقہ حکومت کے سر ڈال کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتی ہے کہ اس کے سر سے بلا ٹل گئی ۔ مگر بلا ان کے سر پر کیا منڈلاتی، پورے ملک پر مسلط ہوتی چلی جا رہی ہے۔

ایک طرف مذہبی شدت پسندی اوردہشت گردی کی عفریت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، تو دوسری طرف غلط حکمت عملیوں اور ناقص خارجہ پالیسی کے سبب معیشت لب ِدم ہے۔ ریاستی ادارے ایک مدت سے انحطاط پذیر ہیں ، بلکہ ان کے درمیان پائی جانے والی سرد جنگ نے انھیں مزید کمزور اور کھوکھلا کردیا ہے۔

کہاوت ہے کہ ’’ لنکا میں ہر شخص باون گزکا ہوتا ہے‘‘ مگرہمارے یہاں اشرافیہ کا ہر شخص ایک سو باون گزکا ہے۔اس لیے اس کی انا کو یہ قبول ہی نہیں کہ وہ دوسروں کے ماڈل کا مطالعہ کرکے ان کے تجربات سے استفادہ کرے۔ آنکھوں پر چھائی چربی کا یہ عالم ہے کہ ہرآنے والے دن بیرونی اور اندرونی قرضوں کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے، مگر شاہانہ اخراجات کا یہ عالم ہے کہ مغلیہ دورکو مات ہوئی جاتی ہے ۔ معاشی صورتحال پر نظر ڈالیں تو اپنی زبوں حالی کا درست اندازہ ہوتا ہے ۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملکی معیشت کا حجم 313.23 ارب ڈالر ہے۔ عالمی ترتیب میں اس کا نمبر61واں ہے ۔ یعنی وہ ملک جوآبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، اس کی معیشت61 ویں نمبر ہے۔ بنگلہ دیش اپنی معیشت کے اعتبار سے48 ویں نمبر پر آچکا ہے۔جب کہ بھارت 2.6 کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ اس وقت چین کا ہم پلہ ہوچکاہے۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ اسٹیٹ بینک ہی کی رپورٹ کے مطابق عالمی اور ملکی قرضوں اور واجبات کا حجم 29ہزار 861ارب روپے ہوگیا ہے ، جو مجموعی قومی پیدوار (GDP)کا 87فیصد بنتا ہے۔

چند روز قبل اقتصادی رابطہ کمیٹی کی میٹنگ میں انکشاف کیا گیا کہ بینکنگ سیکٹر میں گردشی قرضہ 596 ارب روپے تک جاپہنچا ہے۔جوائنٹ سیکریٹری پاور ڈویژن زرغم اسحاق کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر میں گردشی قرضہ507ارب روپے ہوچکا ہے۔ جب کہ اس سیکٹر میں قرض کا حجم 497ارب روپے ہے، اگر دونوں رقوم کو جمع کیا جائے تو یہ 1.004کھرب روپے ہوجاتا ہے۔دیگر شعبہ جات کے قرضے اس کے سوا ہیں ۔ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق تجارتی خسارہ 29.8 ارب ڈالر ہوگیا ہے، جو 14.3فیصد کے قریب بنتا ہے۔

ایسی دگرگوں اور مخدوش معاشی صورتحال میں امریکا کی جانب سے ملنے والی 30 ملین ڈالرکی امدادی رقم روک لی گئی ہے۔ دوسری جانب فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا ہوا ہے ۔ معاملات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے اور انھیں عقل و دانش کی بنیاد پر حل کرنے کے بجائے ہماری حکمران اشرافیہ  عجیب و غریب قسم کے جذباتی بیانات دے کر معاملات و مسائل کو مزید الجھانے میں لگی ہوئی ہے۔

ایک طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا غیر ذمے دارانہ طرز عمل آج کے عالمی وعلاقائی سیاسی تناظر میں نئے مسائل کو جنم دینے کا سبب بن رہا ہے، جب کہ دوسری طرف ہمارے دوست اور دانشور سینیٹر رضاربانی بھی ماضی کے امریکا مخالف سحرسے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ۔ انھیں نے بیان دیدیاکہ وزیر اعظم امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات نہ کریں ۔ یہ بیان افسوسناک ہی نہیں غیر ذمے دارانہ بھی ہے، کیونکہ امریکا کے ساتھ جوکثیرالجہتی تزویراتی تعلق ہم نے 1950کے عشرے میں قائم کیا تھا ، اسے اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

چین جس کے بھروسے پر یہ بیان بازیاں کی جا رہی ہیں، وہ بھی کم وبیش وہی مطالبات کررہا ہے، جو امریکا کر رہا ہے۔ چونکہ چین کے فوری مفادات بھی ہمارے ساتھ وابستہ ہیں، اس لیے اس کی ہدایات میں شدت کا عنصر کم ہے ۔ امریکا کے سرد جنگ کے خاتمے اور 9/11 کے بعد اہداف خاصی حد تک تبدیل ہوچکے ہیں، اس لیے اس کے بیانات میں شدومد پائی جاتی ہے۔

ہمیں دوسروں کو آنکھیں دکھانے اور ان کے فیصلوں پر تنقید سے پہلے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ہم سے 71برسوں کے دوران کیا غلطیاں اورکوتاہاں سرزد ہوتی رہی ہیں؟ ان کا کھلے دماغ کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔1950کے عشرے میں امریکا کی گود میں بیٹھتے وقت کیا ہم نے عواقب وعوامل پر غورکیا تھا؟کیا اس وقت میاں افتخارالدین اور ان جیسے دوراندیش دانشوروں پر ملک دشمنی کا الزام نہیں لگایا تھا ؟ جنہوں نے صرف اتناکہا تھاکہ کسی بھی ملک سے معاہدہ کرنے سے قبل اس میں درج شرائط کا بغور مطالعہ کرلیا جائے اور پارلیمان کے ذریعے عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔آج وہی معاملہ چین کے ساتھ CPECکی شکل میں ہو رہا ہے۔ عوام کو اس معاہدے کی اصل حقیقت سے بے بہرہ رکھا جارہاہے۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پوری دنیا حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہی ہے،توایسی کون سی تزویراتی گہرائی (Strategic depth)ہے، جو ان تنظیموں کے خلاف کارروائی سے ہمیں روک رہی ہے؟ یا وہ ایسا کون سا اثاثہ ہیں کہ انھیں چھوڑتے ہوئے ہمارا دل دکھ رہا ہے۔کیا وجہ  ہے کہ ہم سرد جنگ کی نفسیاتی کیفیت سے نکلنے پر آمادہ نہیں ہیں؟ہم افغانستان میں بھارت کو ترقیاتی کاموں میں شریک کرنے پر سیخ پا ہیں، مگر ہمیں یہ ذمے داری کیوں نہ مل سکی، اس بارے میں غورکیوں نہیں کرتے؟

ہمارے سیاسی اکابرین آج ہر مذاکرے میں 9/11کے بعد پرویز مشرف کے U-turn پر تنقید کرتے ہیں، مگر کسی کو یہ سوچنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس وقت سویلین حکومت ہوتی، وہ بھی یہی کچھ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتی ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں نے نہ1980کے عشرے میںافغان جنگ میں شراکت دار بنتے وقت عقل کو استعمال کیا اور نہ پریسلر ترمیم کے نتیجے میں فوجی امداد کی بندش کے موقعے پر تبدیل ہوتے عالمی رجحان کا جائزہ لیا اور نہ ہی 9/11کے بعد جنم لینے والی عالمی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کی۔

ہمارے منصوبہ ساز شاید خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں ، اس لیے انھیں دنیا میں جنم لیتے تغیرات نظر نہیں آتے۔شاید ان میں پڑھنے اور غوروفکرکرنے کی بھی عادت نہیں ہے۔کیونکہ جن ملکوں کے منصوبہ ساز عمیق مطالعہ کرتے ہوئے باریک بینی کے ساتھ تبدیل ہوتی دنیا کے رجحانات پر نظر رکھتے ہیں، ان ممالک میں وہ مسائل پیدا نہیں ہوتے جو ہم بھگت رہے ہیں، اگر ہم ملک کو درپیش چیلنجوں پر قابو پانے میں سنجیدہ ہیں اور خلوص نیت سے مسائل کی گرداب سے نکالنے کے خواہشمند ہیں، تواپنا موجودہ بیانیہ، اہداف اور طرز عمل تبدیل کرنا ہوں گے۔ مذہبی شدت پسند عناصر سے حقیقتاً چھٹکارا پاکر جناح کااصل پاکستان بحال کرنا ہوگا۔اس کے سوا اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔