الیکشن نے پنجاب کے کئی اضلاع میں سیاسی منظر نامہ تبدیل کر دیا

خالد قیوم  منگل 28 مئ 2013
مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر سامنے آئی ہے ۔ فوٹو : فائل

مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر سامنے آئی ہے ۔ فوٹو : فائل

لاہور: مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر سامنے آئی ہے ۔

2008ء کے الیکشن میں بھی ن لیگ وسطی پنجاب میں بڑی اکثریت سے جیتی تھی، 2013ء کے الیکشن میں جنوبی پنجاب سے بھی واضح کامیابی حاصل کی ہے۔ پیپلزپارٹی کی سیاسی حکمت عملی یہ تھی کہ لوگ جنوبی صوبے کے دلکش نعرے کو سامنے رکھ کر اسے ووٹ دیں گے،سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی آخری وقت تک صدر زرداری پر زور دیتے رہے کہ نئے صوبے کے معاملے پر عملی اقدامات اٹھائے جائیں جس پر نئے صوبے کے قیام کیلئے سینٹ سے آئینی قرارداد بھی منظور کرائی گئی لیکن الیکشن کے نتائج سے محسوس ہوتا ہے کہ عوام نے نئے صوبے کے لئے سید یوسف رضا گیلانی کے نعرے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔

ووٹروں نے جنوبی پنجاب صوبہ کے نعرے کو محض الیکشن سٹنٹ کے طور پر ہی لیا ، یہی وجہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا پورا خاندان انتخاب ہار گیا۔ ان کے خاندان سے 5افراد الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم شہاب الدین، عامر ڈوگر، حیدر زمان قریشی اور شوکت بسراء سمیت تمام عہدیدار الیکشن ہار گئے اور ان میں سے زیادہ تر عہدیدار تیسرے نمبر پر آئے۔ اس علاقے سے بڑے بڑے سیاسی کھلاڑی جہانگیر ترین ، اسحاق خاکوانی ، افضل سندھو، ممتاز متیانہ اور نواب آف بہاولپور کے امیدوا ر بھی برے طریقے سے ہار گئے۔

اس سے ثابت ہوا کہ نئے صوبے کا نعرہ اپنی اہمیت کھوبیٹھا ہے اور یہ نعرہ لگانے والے بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم ملتان میں ترقیاتی منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کئے، ساڑھے چار سال تک ملک کے وسائل کا رخ ملتان کی طرف ہی رہا، صوبے کے دیگر علاقوں کے لوگ انہیں ملتان کا وزیراعظم بھی کہتے تھے مگر اس کے باوجود ان کے نامزد زیادہ امیدوار تیسرے نمبر پر رہے۔ ملتان میں صرف عبدالقادر گیلانی اور رانا قاسم نون دوسرے نمبر پر آئے۔

جنوبی پنجاب میں قومی اسمبلی کی 44نشستیں ہیں۔ 2008ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب سے 23نشستیں جیتی تھیں ۔ حالیہ الیکشن میں پیپلزپارٹی کوجنوبی پنجاب سے خاصی امیدیں وابستہ تھیں مگر یہاں سے پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی کی صرف دواور صوبائی اسمبلی کی چھ نشستیں مل سکیں ۔ پیپلزپارٹی وسطی پنجاب سے ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکی۔

راولپنڈی ، گوجرانوالہ، لاہور اور فیصل آباد میں بھی پیپلزپارٹی کی سیاست کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ وسطی پنجاب کے شہروں میں پیپلزپارٹی کوئی چیلنج نہیں رہ گئی۔ 93ء سے ان شہروں میں پارٹی کا گراف مسلسل نیچے جارہا ہے۔ صدر زرداری اپنی صدارتی معیاد ختم ہونے پر لاہور میں بیٹھ کر سیاست کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، بلاول بھٹو بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ وہ پنجاب کو واپس لینے کا عزم رکھتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ پیپلزپارٹی کو کیسے فعال بناتے ہیں۔اس الیکشن کے نتائج سے کئی اضلاع کی سیاست بدل گئی ہے۔

ڈیرہ غازیخان میں لغاری گروپ مسلم لیگ(ن) میں ان ہوگیا ہے جبکہ سردار ذوالفقار کھوسہ اور ان کا گروپ آؤٹ ہوگیا ہے۔ اویس خاں لغاری آزاد حیثیت میں رکن قومی اسمبلی اور لغاری گروپ کے 4 افراد صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔سردار ذوالفقارکھوسہ شریف برادران کے بڑے قریب سمجھے جاتے تھے مگر اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور وہ عملی طور پر ن لیگ کی سیاست سے فارغ ہوگئے ہیں۔کھوسہ خاندان کے اندرونی اختلافات ان کی شکست کا باعث بنے ۔ اس طرح ضلع لودھراں سے سابق ضلع ناظم عبدالرحمن خاں کانجو کی قیادت میں شہید کانجو گروپ نے کلین سویپ کیا اور ان کے گروپ نے آزاد حیثیت میں دو قومی اور پانچ صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔

تحریک انصاف کے سر براہ عمران خاں کے دست راست جہانگیر خان ترین بھی اس گروپ کے امیدوار کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے، اس کے باوجود کہ جہانگیر ترین کے مقابلے میں ان کے مالی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں، صدیق خان کانجو کی فیملی دوبارہ سیاست میں ان ہوگئی ہے۔ عبدالرحمٰن خاں کانجو سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ محمد صدیق خاں کانجو کے صاحبزادے ہیں۔ صدیق کانجو بڑے دانشور ، نہایت پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے انسان تھے۔ ان کا شمار نواز شریف کے قریبی دوستوں میں تھا ۔صدیق خاں کانجو کی کوششوں سے لودھراں کوضلع کا درجہ دلایاگیا۔ صدیق خاں کانجو کے والد میاں محمد امین کانجو پاکستان بننے کے بعد دوبار صوبائی اسمبلی کے رکن رہے، وہ 2001ء میں شہید ہوئے۔

بہاولپور میں سابق ضلع ناظم طارق بشیر چیمہ نے اپنی سیاسی حیثیت برقرار رکھی اور انہوں نے مسلم لیگ(ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی سعود مجید کو شکست دی ہے ۔ سعود مجید کا نئے گورنر پنجاب کے لئے بھی نام لیا جارہا ہے۔ دوسری طرف طارق بشیر چیمہ کے چھوٹے بھائی طاہر بشیر چیمہ چشتیاں سے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہو گئے ہیں۔ اس خاندان کی دو اضلاع بہاولپور اور بہاولنگر میں سیاست ہے ۔ طارق بشیر چیمہ اپنی نشست پر چودھری اعتزاز احسن اور تسنیم نواز گردیزی کو بھی الیکشن جتوا چکے ہیں۔

اس الیکشن میں بہاولپورڈویژن سے مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن بہت بہتر ہوگئی ہے۔ 2002ء میں پوری ڈویژن سے صرف چوہدری محمد شفیق اور اقبال چنڑ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ چوہدری شفیق 2002ء اور 2008ء میں رحیم یار خان ضلع سے ن لیگ کے واحد رکن صوبائی اسمبلی تھے۔ سابق دور میں انہیں دوسرے فیز میں وزیر بنائے جانے کی یقین دھانی کروائی گئی تھی جس کے باعث انہیں پارلیمانی سیکرٹری یا سٹینڈنگ کمیٹی کا چیئرمین بھی نہیں بنایا گیا مگر پھر حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ پانچ سال میں کابینہ کے دوسرے فیز کا موقع ہی نہیں آیا ۔ اٹک سے محمد زین الٰہی اور مظفر گڑھ سے جمشید دستی کسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے۔ جمشید دستی نے ایک بار پھر اپنی اہلیت ثابت کی ہے، وہ مظفرگڑھ کے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ جمشید دستی کے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کیساتھ معاملات طے نہیں ہوسکے، وہ مسلم لیگ (ن) کیلئے دوسری نشست چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں، وہ اس نشست پر اپنے بھائی کو الیکشن لڑانا چاہتے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) نے سابق دور میں اقلیتی رکن کامران مائیکل کو وزیر خزانہ بنایا جس سے بین الاقومی سطح پر بھی اچھا پیغام گیا ، اب سینیٹر کامران مائیکل کو وفاقی کابینہ میں شامل کیا جارہا ہے۔ صوبے میں خلیل طاہر سندھو بھی صوبائی وزارت کی دوڑ میں شامل ہیں ۔ پنجاب میں اقلیتی نشستوں میں خلیل طاہر سندھو کا پہلا نمبر ہے، اس سے ان پر پارٹی قیادت کے اعتماد کا اظہار ہوتا ہے، خلیل طاہر سندھو 2008ء کی اسمبلی میں پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ، پارلیمانی امور اور انسانی حقوق رہ چکے ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے مسلم لیگ(ن) کیلئے سر گرم کردار بھی ادا کر رہے ہیں ۔

وہ نو منتخب اقلیتی ارکان صوبائی اسمبلی میں سب سے پڑھے لکھے اور تجربہ کار وکیل بھی ہیں۔ سابق مشرف دور میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ن لیگ کے لیے حکومت سازی آسان نہیں ہے،دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب کے تمام علاقوں اور طبقات کو کابینہ میں کس قدر نمائندگی دی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔