مُسلمانوں کو دبایا نہیں جاسکتا

عبدالقادر حسن  ہفتہ 8 ستمبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان امریکا تعلقات میں اتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے دو غیر متوازن ملک ایک دوسرے سے بہت زیادہ زمینی فاصلے کے باوجود ایک دوسرے کے بہت قریب ہونے، دونوں ایٹمی طاقت ، دونوں کا جنوبی ایشیاء میں مشترکہ مفاد ، گزشتہ ستر برسوں سے ایک دوسرے کے دوست مگر پھر بھی ان کے تعلقات وقتاً فوقتاً سرد مہری کا شکار رہتے ہیں۔

اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ امریکا دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے اور حقیقت میں دنیا کی حکمرانی اس کے پاس ہی ہے جب کہ فوجی طاقت کے اعتبار سے پاکستان اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، اس لیے امریکا اپنی طاقت کے زعم میں پاکستان کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتا ہے اور اسے اس سلسلے میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی آشیر باد بھی حاصل ہے جو پاکستان کا مستقل ہمسایہ اور دشمن ملک ہے ۔

پاکستان واحد اسلامی ملک جو ایٹمی طاقت بھی ہے اس سب سے بڑھ کر پاکستان کے عوام جو ملک کی خاطر اپنی جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور ہر وقت جہاد کے لیے تیار رہتے ہیں، اس جہادی جذبہ سے امریکا کے ساتھ ہمارا دشمن ہمسایہ بھارت بھی خوفزدہ رہتا ہے، وہ یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں پایا کہ مسلمان کا جہاد کا جذبہ اتنا مضبوط کیوں ہے ۔

ہماری نئی حکومت کے قیام کے بعد امریکا سے ابتدائی رابطے ہی تنازعات اور غلط فہمیوںکا شکار ہو گئے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوکے حالیہ دورے کے دوران تعلقات میں تعطل کے خاتمے کی خوشگوار اطلاع بھی دی گئی ہے لیکن امریکا کا یہ موقف ابھی برقرار ہے کہ پاکستان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے جس کا جواب پاکستان نے انکار میں دیا ہے۔ پاکستان نے فوجی امداد کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا جس کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ امداد کی بحالی سے پہلے پاکستان کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔

اس بہت کچھ میں افغانستان میں پاکستان کا کردار اور بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات سرفہرست ہیں ۔ امریکا یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ افغانستان میں کامیابی پاکستان کی مدد سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان اور امریکا تعلقات کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ سوویت یونین کے ساتھ جنگ میں اگر پاکستان امریکا کا ساتھ نہ دیتا تو امریکا یہ جنگ کبھی نہیں جیت سکتا تھا۔ دورحاضر میں عالمی دنیا کے بدلتے حالات اور نئے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا اپنی بے پناہ طاقت کے بل بوتے پر پاکستان کو زیر دست رکھنا چاہتا ہے جب کہ پاکستان کا موقف بھی وہی پرانا ہے کہ عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قربانیاں تسلیم کرے اور پاکستان کے ساتھ عزت سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار رکھے۔

بلاشبہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں، ہماری فوج اور سول کے شہداء کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے، کتنی ماؤں کی گودیںاجڑیں، کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنی سہاگنیں بیوہ ہوئیں اس کا کوئی شمار نہیں ۔ لیکن ایک بات بڑے فخر کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے شہداء ہم پر اپنی جانیں نچھاور کر گئے ان کی آج کی قربانی ہمارے کل کے بہتر مستقبل کی ضمانت اور علامت ہے۔

امریکا پاکستان تعلقات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ہمارا امریکا کے ساتھ تعلق ایک بھکاری اور گدا گر کا رہا جو امریکا کے شکریئے کے ساتھ شروع ہوا اور اب تک چلا آرہا ہے ۔ چنانچہ جب بھی امریکا سے ہمارا کوئی رابطہ ہوتا ہے تو ہم پاکستانی اس انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ دیکھیں امریکا سے ہمیں کیا ملتا ہے۔

ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مغرب کی کاروباری قومیں کسی کو سیاسی خیرات نہیں دیتیں وہ اپنے خون پسینے کی کمائی کا حساب رکھنا جانتی ہیں ان سے اگر کچھ لینا ہو تو اپنے آپ کو اس قابل بناناپڑتا ہے ،آپ اپنا ایٹمی پروگرام ختم کر دیں تو امریکا سے جو چاہیں لے لیں لیکن آپ حکم عدولی بھی کریں اور مراعات کی توقع بھی رکھیں یہ دونوں باتیں ایک ساتھ کیسے ہو سکتی ہیں ۔ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات دونوں ملکوں کے مفادات کے تحفظ کے تعلقات ہیں اور اگر یہ مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو پھر کمزور کوہی قربانی دینی پڑتی ہے۔

اس وقت ہماری قومی مصلحتیں اور مفادات امریکا سے متضاد ہیں ہم برابری کی سطح کی بات کر رہے ہیں اور اپنا ایجنڈا منظور کرانا چاہتے ہیں جب کہ امریکا کا اپنا ایجنڈا ہے ۔ یہ بات بھی ہمارے دماغ میں رہنی چاہیے کہ دنیا کی واحد سپر پاور سے ہم جنگ نہیں کر سکتے چاہے اس کے اور ہمارے ہمسائے ہمارے ساتھ کتنا بھی تعاون کریں یہ ہمارے مفاد میں نہیں۔ نہایت ہی بلند درجہ کی ڈپلومیسی اور ذہانت اور چالاکی سے معمور حکمت عملی ہی ہمارے اچھے مستقبل کی ضامن بن سکتی ہے ورنہ حکومت سمیت ہر پاکستانی کو معلوم ہونا چاہیے کہ امریکا ایک مسلمان ایٹمی طاقت کے مالک پاکستان سے کبھی خوش نہیں رہا اور اگر ہم اس کی جگہ ہوتے تو کسی پاکستان کے بارے میں بھی یہی کچھ سوچتے۔

مسیحی سپر پاور امریکا سے پاکستان کی معاملہ بندی کو سمجھنا بہت آسان ہے لیکن اس کے ساتھ معاملہ کرنا بہت ہی مشکل ہے خصوصاً اس تجربہ کے ساتھ کہ مطلب نکل جانے کے بعد امریکا کسی جاں بلب سابقہ دوست کو مڑ کر بھی نہیں دیکھتا، امریکا اور اس کے ساتھی مغربی دنیا کو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد کسی دشمن کی ضرورت تھی اور یہ ضرورت انھوں نے اسلام کی صورت میں ایجاد کر لی، یہ میں نہیں کہہ رہا مغربی دنیا کے دانشور کہتے ہیں اور عقل سلیم اسے تسلیم کرتی ہے، ہر بڑی سیاست اور دہشت کو کسی مد مقابل کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بغیر عمل میں جوش پیدا نہیں ہو سکتا، حرکت کے لیے مقابلہ ضروری ہے ۔

مسلمانوں کو اس صورتحال کا احساس بہت دیر کے بعد ہوا ہے جب وہ لٹ چکے ہیں ۔امریکا کے خلاف اسلامی تنظیمیں اسی احساس کی پیداوار ہیں ۔ مسلمان حکومتوں پر قابو پانا امریکا کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہے اور یہ سب ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ عرب اسلامی ملکوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے ۔ ان حکومتوں کا معاشی نظام امریکا کا محتاج ہے اور حکومتی نظام بھی مغرب کا وضع کردہ ہے ۔

ہمارے سر کردہ طبقے آزاد سوچ سے محروم ہیں، ان کے مفادات امریکا اور مغرب سے وابستہ ہیں لیکن اس کے برعکس سوچ رکھنے والے مسلمانوں نے اپنے دفاع کے لیے ایسی مزاحمتی تنظیمیں بھی قائم کر لی ہیں جو کہ امریکا کے بقول دہشت گرد ہیں ۔ امریکیوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ وہ کمزور کو دیوار کے ساتھ نہ لگائیں امریکا اگر دنیا میں واقعی امن چاہتا ہے اور امریکی عوام کی کمائی کو ضایع نہیں کرنا چاہتا تو اسے اپنے منصوبوں میں ترمیم کرنی ہو گی۔ زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کا نسخہ ہی حالات کی خرابی کا واحد حل ہے ۔ امریکا کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کو دبایا جاتا ہے تو اس کی عقل جواب دے جاتی ہے اور مصلحتیں بھول جاتی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔