ہمیں آگے جانا ہوگا

جاوید قاضی  ہفتہ 8 ستمبر 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ایک طویل سفرہے اس منزل کا جو چلا ہے کہیں دور تک ۔ کئی صبحیں کئی شامیں اپنے سنگ لے کر،کئی موسموں کے رنگ لے کر،کئی داستانیں،کئی قصے اورکہانیاں لے کر جو اس سفر سے وابستہ ہیں ۔ نہ جانے کتنی کامیابیاں اور ناکامیاں اس راہ میں ہیں ۔ یہ سفر چلتا رہے گا ہم آتے اور جاتے رہیں گے۔ آج ہم ہیں کل ہم نہ ہوں گے ۔کوئی ہم سا ہوگا ، آیندہ کی نسلیں ہوں گی۔ یہ سفر ناتمام ہے نہ اس کی ابتدا اور نہ اس کی انتہاء۔ زندگی چلتی رہے گی کیونکہ اس کو چلنا ہے ۔

آج ہم ایک نئے موڑ پر آگئے ہیں، جہاں سے نیا سماں بنتا ہے، ہاں مگراس ڈگر پرکئی خار دار تاریں ہیں۔کئی لینڈ مائنز ہیں، سنبھل سنبھل کے چلنا ہے ۔ ابھی تبدیلی نہیں آئی بس ایک عزم ہے ۔ ہم مجموعی طور پر اب بھی ’’ایک‘‘ نہیں ۔ ہم منتظر ہیں کہ ہمیں اعتماد میں لیا جائے۔ طرح طرح کے لوگ ہیں، ثقافتیں ہیں، زبانیں، ریتیں اور رسمیں ہیں ۔ ہم آپس میں لڑتے بھی ہیں اور کوئی ہمیں لڑواتا بھی ہے۔ ہم جس برصغیرکا حصہ ہیں، جس وادی مہران سے ہم وابستہ ہیں، وہاں طرح طرح کی زبانیں، ثقافتیں، قوموں اور مذاہب نے جنم لیا ۔ جنگیں بھی ہوئیں پیار اور امن بھی رہا ۔ شاید اتنی ڈائی ورسٹی دنیا کے کسی خطے میں نہ ہو یا شاید ہم خود ہی ایک پوری دنیا ہیں ۔

یہ نیا پاکستان ہے یا نہیں مگر دنیا نئی ضرور ہے ، باوجود چند خر دماغ بڑی طاقتوں کے سربراہ ہیں، یہ کمپنیوں کی دنیا ہے۔ پاناما میں پناہ لینے والی کمپنیاں ۔ ایپل ، مائیکروسافٹ اورگوگل سے لے کر الیکٹرونک گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں ۔ جن کی ایجادات نے دنیا کو بدل دیا ہے، حیران کردیا ہے۔ یہ سب اتنی طاقتور ہیں جن کے سامنے ریاستوں کی سرحدیں ثانوی ہوچکی ہیں۔

دنیا اتنی تیزی سے بدل رہی ہے،اس تیزی سے بدلتی دنیا میں کئی زبانوں، ثقافتوں، ریتوں رسموں کا خاتمہ ہوگا ۔ انگریزی زبان کا راج ہوگا۔ صرف اسمارٹ فون نے اور ایک واٹس ایپ ایپلیکشن نے آپ کے اندراتنی تبدیلی پیدا کردی ہے اور یہ بات ماننے والی ہے تو سوچیے کہ اب fossil fuel سے چلنے والی گاڑیاں بند ہوگئیں اور پٹرول پمپ ختم ہوں گے۔

جس طرح آپ اپنے اسمارٹ فون کو چارج کرتے ہیں اسی طرح آپ کی گاڑیاں بھی بیٹری سے چارج ہوں گی۔ دنیا میں بڑی بڑی ریاستیں تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں جیسا کہ امریکا کی سان فرانسکو اورکیلیفورنیا۔ ان ریاستوں کو بدلنے کے لیے نئی قانون سازی کی جا رہی ہے ۔ امریکا چاہے ماحولیاتی تبدیلی پرکوئی ذمے دارانہ کردار ادا نہ کرے مگرکیلیفورنیا کی ریاست سب سے آگے ہے۔artificial intelligence نے اس دنیا کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔ اب گاڑیاں آٹومیٹک ہوں گی جو drivers  کے بغیر چلیں گی، اسی طرح طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی۔ اب ڈرون جہاز بھی اسی آٹومیٹک سسٹم پرچلیں گے، جس طرح آپ کی موٹر بائیک۔

یہ ہے وہ دنیا جو ہمارے قریب ہے۔ ہم بھی اس دنیا کا حصہ ہیں لیکن بدقسمتی سے اب تک اپنے لوگوں کو وہ حقوق بھی نہ دلاسکے جو ہمارا آئین ان کو دیتا ہے۔ قوم یوسف ِ بے کارواں ہے، ہم عورت اور مرد کے تضاد کو اب تک نہ مٹا سکے ۔ ریاست ہے کہ فلاح کرتی ہوئی نظر نہیں آتی اورغریب کی آمدنی پرافراط زر اورindirect taxes  حاوی ہیں ۔ سرکاری اسکول ویران، اسپتالیں ہیں کہ جیسے مقتل ۔ ہم ایک vicious cycle میں پھنس گئے ہیں ۔ ہماری شرح نمو ساٹھ کی دہائی میں ساؤتھ کوریا، چین اور سنگاپور سے زیادہ تھی ۔اس دور میں سرکاری اسکول اور سرکاری اسپتال فعال تھے ۔ غریب ،غربت کی لکیر سے آگے نکل سکتا تھا۔ لیکن اب بیس کروڑکی آبادی کا یہ ملک ابتری کا شکار ہے،کسی کوکچھ خبر نہیں کہ ہم کیوں ہیں ،کہاں جا رہے ہیں اور ہمارا مستقبل کیا ہے۔

ہم نے اپنی قوم کو ایک عجیب وغریب بیانیے میں پھنسا دیا،اب یہی بیانیہ ہمیں ڈس رہا ہے۔ دنیا میں سرد جنگ کا تصور اب تاریخ کا حصہ ہے لیکن ہمارے لیے اب بھی سرد جنگ ہے اور شاید ایک اور سرد جنگ ہماری دہلیز پر ہے ۔

ہمارے ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت ، ہماری اشرافیہ دونوں میں موجود ہے۔ یہ جوکہا جا رہا ہے کہ تبدیلی آچکی ہے اس نعرے کے پیچھے بھی وہی اشرافیہ ہے مگر یہ بھی کہنے دیجیے کہ عمران خان ایک مختلف انسان ہیں۔ اس نے معجزے تو نہ سہی پر مشکل کام انفرادی سطح پر ضرور نبھائے ہیں ۔ ایسے بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی فرد قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں ۔ وہ ہماری تقدیر بدل سکے یا نہ بدل سکے لیکن تبدیلی ہمارے لیے اب ناگزیر ہے۔

اب ہم اس کلاسیکل paradigm پر نہیں چل سکتے۔ ہماری خارجہ پالیسی پرانی ہوچکی ہے۔ ہماری معاشی ترجیحات ، ٹیکس کا نظام ، افسر شاہی سسٹم سب دقیانوسی اور فرسودہ ہوچکے ہیں ۔ ہم یہاں اورنج ٹرینیں بناتے رہے اورانسانی قدروں کو پیچھے دھکیلتے رہے۔ انسانی وسائل کی ترقی کے لیے کوئی سنجیدہ کام نہیں کیا۔ ہم سرکاری اشتہارات پر اپنے فوٹو لگاتے رہے اور وہ فوٹو بھی غریب کے پیسوں سے ۔ ووٹ غریب سے لیا اور انھی کو مزید غریب کیا۔ ہم صرف ان کے جذبات سے کھیلتے رہے، نفرتوں کی آگ بھڑکاتے رہے کبھی اسے کافر قرار دیا کبھی اسے کافر۔ ہم نے وہ سب کچھ کیا جس سے اقتدارکی مزید خوش خبریاں مل سکیں ۔ جب دوا کی ضرورت تھی ہم پیروں سے تعویذ لیتے رہے ۔ ہم اس آس میں رہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ،جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی ۔

اب ایک نئے بیانیے کی ضرورت ہے ایک نئی منزل کی تلاش ہے، تبدیلی ایک رات میں نہیں آتی بس صرف صحیح راہ کا تعین ہوکہ منزل کس راستے کی اور ہے۔آیندہ کی نسلوں کے لیے ہمیں اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا ۔ ہمیں اجتماعیت کو اولیت دینی ہوگی۔

بیس کروڑکی آبادی کے اعتبار سے ہم دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہیں اور ہماری پیداوار وشرح نمو اس اعتبار سے اپنی منزل سے کوسوں دور جس کی وجہ ہمارے پسماندہ انسانی وسائل ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم دنیا کے دوچار نوجوان قوموں میں سے ایک ہیں کیونکہ اس ملک کی ستر فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔

مختصر یہ کہ ہم ایک جدید دنیا کی دہلیز پر ہیں۔اس جدید دنیا میں رہنے کے لیے ہمیں انتھک محنت درکار ہے تاکہ ہم دنیا کی دوسری قوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوسکیں، اس حوالے سے سی پیک کا منصوبہ ہمارے لیے بہت اہم ہے لیکن اس کو بھی transparent ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس خطے میں امن کے لیے بہت سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ خطہ دنیا کے تمام خطوں میں پیچھے جانا جاتا ہے،کیونکہ افغانستان اور ایران ہمارے پڑوسی ممالک ہیں اور یہ وہ ملک ہیں جو دنیا کی نظر میں ہے شاید بہت خطرناک ہیں ۔ پاکستان کو بھی دنیا تقریبا اسی نظر سے دیکھتی ہے ۔

ہمیں بہت آگے جانا ہے اور اس حکومت کو ایک منظم پالیسی دینی ہوگی، ایک ایسی اسٹرٹیجی بنانی ہوگی کہ پاکستان اس تیزی سے بدلتی دنیا میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھ سکے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔