6 بمقابلہ 35

سردار قریشی  ہفتہ 8 ستمبر 2018
sardarqureshi1944@gmail.com

[email protected]

الیکشن 2018ء کے حوالے سے بعض بے حد دلچسپ اعدادوشمار سامنے آئے ہیں، مثلاً ملک بھر میں قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں سے کم ازکم 35 امیدواروں میں سے ہرایک نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لیے مگر پھر بھی ہارگئے۔ان میں سے کچھ نے بہت معمولی فرق سے شکست کھائی اور وہ اپنے حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں سے بھی کم فرق سے منتخب ہوتے ہوتے رہ گئے۔ سرکاری نتائج کے تجزیوں سے ظاہر ہوا کہ قومی اسمبلی کے 91 حلقوں سے الیکشن لڑنے والے 126 امیدواروں نے فی کس ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

ان میں پنجاب سے قومی اسمبلی کے 77 حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے والے 108 امیدوار، خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کے 3 حلقوں سے6 امیدوار اور سندھ سے 11حلقوں سے 12 امیدوار شامل تھے۔ پانچوں نشستوں پرکامیاب ہونے والے وزیر اعظم عمران خان نے 2 حلقوں میں ایک ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ میانوالی حلقہ 95 سے انھوں نے ایک لاکھ 63 ہزار 538 ووٹ جب کہ این اے 35 بنوں سے ایک لاکھ 13ہزار 822 ووٹ لیے۔ بقیہ 3 حلقوں این اے 53 اسلام آباد، این اے 131، لاہور اور این اے 243 کراچی میں سے ہرحلقے سے وہ ایک لاکھ سے کم ووٹ لے کر منتخب ہوئے۔

تاہم، وہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے 6 امیدواروں میں سے ایک تھے۔انھیں کل 5 لاکھ 45 ہزار922 ووٹ پڑے،گویا 5 حلقوں میں سے ہرایک میں انھوں نے اوسطاً ایک لاکھ 9 ہزار ووٹ لیے۔ سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دیگر3 امیدواروں کا تعلق بھی انھی کی پارٹی سے ہے جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے نواب یوسف تالپور اور پاکستان مسلم لیگ نوازکے احسن اقبال بھی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے 6 امیدواروں میں شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے عمر ایوب خان نے این اے 17 ہری پور سے ایک لاکھ 72 ہزار609 ووٹ لیے جوکسی ایک حلقے سے حاصل کردہ ووٹوں کی سب سے بڑی تعداد ہے ۔ انھوں نے پی ایم ایل این کے بابر نواز خان کو شکست دی جنھیں ایک لاکھ 32 ہزار 756 ووٹ پڑے تھے۔ این اے 87 (حافظ آباد) میں مسلم لیگ نوازکی سابق وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ نے ایک لاکھ 57 ہزار 453 ووٹ حاصل کیے مگر پی ٹی آئی کے چوہدری شوکت علی بھٹی سے ہارگئیں جنھیںایک لاکھ 65 ہزار 618 ووٹ ملے۔

سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے 6 امیدواروں میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا نمبر تیسرا تھا جنھیںاین اے 95 میانوالی سے ایک لاکھ 63 ہزار 538 ووٹ ملے۔ انھی کی پارٹی کے ریٹائرڈ میجرطاہر صادق این اے 56 اٹک سے ایک لاکھ 63 ہزار 326 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ انھوں نے این اے 55 سے بھی ایک لاکھ 45 ہزار 168 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اور مخالف امیدوار سابق وزیر شیخ آفتاب کو شکست دی جنھیںایک لاکھ ایک ہزار 773 ووٹ ملے تھے۔

سندھ میں، پی پی پی کے نواب یوسف تالپور نے ایک لاکھ 62 ہزار 979 ووٹ لے کر پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی کو ہرا دیا، جنہوں نے این اے 220 عمرکوٹ سے ایک لاکھ 4 ہزار267 ووٹ لیے تھے۔ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے نارووال کے حلقے این اے 78 سے ایک لاکھ 59 ہزار651 ووٹ لے کرکامیابی سمیٹی جب کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو ایک لاکھ 57 ہزار 497 ووٹ ملے اور انھوں نے مسلم لیگ ن کے چوہدری فیض ملک کو ہرا دیا۔ این اے 64 سے پی ٹی آئی کے ذوالفقار علی ایک لاکھ 55 ہزار 214 ووٹ لے کر منتخب ہوئے جب کہ ایک لاکھ 30 ہزار 51 ووٹ لینے والے مسلم لیگ ن کے طاہر اقبال دوسرے نمبر پر رہے ۔

سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ایک لاکھ 25 ہزار 90 ووٹ لے کر این اے 58 گوجر خان سے منتخب ہوئے ۔ ان کے حریفوں میں سے کوئی بھی ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کرسکا۔ ریلوے کے وزیر شیخ رشید احمدکے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا جو این اے 62 راولپنڈی سے ایک لاکھ 17ہزار 719 ووٹ لے کر منتخب ہوئے۔ پی ٹی آئی کے عامرمحمود کیانی نے ایک لاکھ 5 ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔گوجرانوالہ کے 5 حلقوں این اے 80 تا این اے 84 سے پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدواروں نے ایک ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

این اے 88 سرگودھا میں ن لیگ کے مختار احمد ملک نے ایک لاکھ 29 ہزار 615 ووٹ لے کر پی ٹی آئی کے ندیم افضل گوندل کو ہرا دیا جنھیںایک لاکھ 15 ہزار 622 ووٹ ملے تھے۔ این اے 89 سرگودھا سے مسلم لیگ ن کے محسن نواز رانجھا نے ایک لاکھ 14 ہزار 245 ووٹ لے کرکامیابی حاصل کی جب کہ پی ٹی آئی کے اسامہ احمد میلا ایک لاکھ 13 ہزار 422 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے ۔ این اے 91 سرگودھا میں مسلم لیگ نوازکے ذوالفقار احمد بھٹی نے ایک لاکھ 10ہزار 525 ووٹ لیے اور پی ٹی آئی کے عامرسلطان چیمہ کو 279 ووٹوں کے فرق سے پچھاڑ دیا۔

این اے 98 بھکر میں جیتنے والے پی ٹی آئی کے امیدوار افضل خان اور رنراپ آزاد امیدوار رشید اکبرخان دونوں نے ایک ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ این اے 106 فیصل آباد میں پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ (مسلم لیگ، ن) ایک لاکھ 6 ہزار 319 ووٹ لے کرکامیاب رہے، جب کہ پی ٹی آئی کے نثاراحمد ایک لاکھ 3 ہزار 799 ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ہار گئے۔ متصل حلقے این اے 107 میں پی ٹی آئی کے خرم شہزاد نے مسلم لیگ ن کے اکرم انصاری کو واضح فرق سے شکست دی ۔ دونوں نے بالترتیب ایک لاکھ 26 ہزار441 اور ایک لاکھ 2 ہزار 149 ووٹ حاصل کیے۔این اے 108 فیصل آباد میں پی ٹی آئی کے فرخ حبیب نے نواز لیگ کے عابد شیر علی کو 12 ہزار ووٹوں کے فرق سے ہرا دیا۔ ان دونوں نے بھی ایک ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لینے والے دوسرے کامیاب اور ناکام امیدواروں میں این اے 110 سے پی ٹی آئی کے راجہ ریاض احمد اور ان کے حریف مسلم لیگ ن کے محمد افضل خان، این اے 112(ٹوبہ ٹیک سنگھ) سے ن لیگ کے جنید انور، پی ٹی آئی کے محمد اشفاق، این اے 113سے پی ٹی آئی کے محمد ریاض خان ، ن لیگ کے اسد الرحمان ، این اے 114جھنگ سے پی پی پی کے فیصل صالح حیات اور پی ٹی آئی کے صاحبزادہ محبوب سلطان ، این اے 124 لاہور سے پی ایم ایل این کے حمزہ شہباز، این اے 125 سے ن لیگ ہی کے وحید عالم خان ، پی ٹی آئی کی یاسمین راشد، این اے 126 لاہور سے پی ٹی آئی کے حماد اظہر، ن لیگ کے اشتیاق احمد، این اے 73 سیالکوٹ سے سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، ان کے حریف پی ٹی آئی کے عثمان ڈار، این اے 130 لاہور سے وفاقی وزیر شفقت محمود، ن لیگ کے احمد حسن، این اے 140 قصور سے سردار طالب نکئی، ان کے حریف رانا حیات خان، این اے 144 اوکاڑہ سے ن لیگ کے محمد معین وٹو، ان کے حریف آزاد امیدوار میاں منظور وٹو، این اے 149 ساہیوال سے پی ٹی آئی کے رائے مرتضیٰ اقبال ، ن لیگ کے محمد خان ڈاہا، این اے 172 بہاولپور سے طارق بشیر چیمہ، سعود مجید اور این اے151 خانیوال سے احمد یار ہراج شامل ہیں۔

سندھ سے قومی اسمبلی کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لینے والوں میں سابق صدر مملکت آصف علی زرداری، غلام مصطفیٰ شاہ اور میر منور علی تالپور نمایاں رہے جب کہ قومی اسمبلی کی جنرل سیٹوں پر منتخب ہونے والی 8 خواتین امیدواروں میں سے بھی 3 نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ان میں پی پی پی کی شمس النسا ، نفیسہ شاہ اور ن لیگ کی مہناز اکبر عزیز شامل ہیں۔ اسی طرح مہیش کمار ملانی تھرپارکر سے جنرل سیٹ پر ایم این اے منتخب ہونے والے پی پی پی کے واحد اقلیتی امیدوار تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔