میں سب کچھ بھول جاتا ہوں

محمد عمیر عادل  اتوار 9 ستمبر 2018

سینٹر اسٹیج

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

ہم میں سے اکثر لوگ بہت سی اہم باتیں یا کام وغیرہ بہت جلدی بھول جاتے ہیں۔ اگر آپ کچھ یاد کرتے ہیں اور وقت آنے پر بھول جاتے ہیں (اکثر طلبہ و طالبات کے ساتھ یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے جس سے نکلنے یا جس پر قابو پانے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی) تو یہ مضمون ایسے ہی نوجوانوں اور طلبہ و طالبات کی مدد اور راہ نمائی کے لیے ہے۔

کسی بھی چیز، بات، سبق وغیرہ کو فوراً یاد کرنے کے کچھ طریقے ہوتے ہیں جن کی مدد سے نہ صرف وہ فوراً یاد ہوجاتے ہیں، بل کہ یاد داشت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ بھی ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ بھی وہ طریقے جان لیں گے تو ہر کام یا چیز کو آسانی سے اور جلد یاد کرسکیں گے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہم یاد کرنے کے بجائے رٹا زیادہ لگاتے ہیں اور پھر رٹی ہوئی چیز وقت آنے پر بھول جاتے ہیں۔ جس طرح موبائل فون میں دو جگہ نمبر وغیرہ اسٹور ہوتے ہیں، یعنی انٹرنل اسٹوریج اور ایکسٹرنل اسٹوریج، اسی طرح انسان میں بھی دو طرح کی یادداشتیں ہوتی ہیں:

محدود مدت کی یادداشت یا شارٹ ٹرم میموری اور طویل مدت کی یادداشت یا لانگ ٹرم میموری۔

٭ محدود مدت کی یادداشت یا شارٹ ٹرم میموری:

ہماری مختصر مدت کی یادداشت میں اکثر وہ چیزیں محفوظ ہوتی ہیں جن کی ہمیں زیادہ دیر تک کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی، جیسے سڑک پر چلنا، سڑک سے گزرتا ہوا نیلے رنگ کا رکشا یا سڑک پر دوڑتی ہوئی پیلے رنگ کی ایک خوب صوت سی ٹیکسی۔ اس کے علاوہ ہمارے آگے پیچھے دوڑتے ہوئے نیو سائن بورڈز یا پھر دیدہ زیب چمکتے دمکتے اشتہارات ، یہ سب کے سب شارٹ ٹرم میموری میں آتے ہیں، کیوں کہ یہ ہماری نظروں کے سامنے سے پل بھر میں یعنی چشم زدن میں گزر جاتے ہیں اور پھر یہ ہمیں یاد بھی نہیں رہتے۔ ان سبھی کو ہم محدود مدت کی یادداشت یا شارٹ ٹرم میموری کہتے ہیں جو تھوڑے وقت کے لیے ہمارے دماغ میں تو موجود رہتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ختم ہوجاتی ہے۔

یہاں بات محدود مدت کی یادداشت یا شارٹ ٹرم میموری کی ختم ہوگئی اور اب ہم آگے طویل مدت کی یادداشت یا لانگ ٹرم میموری کی بات کریں گے، یہ بھی خاصا دل چسپ احوال ہے۔

٭طویل مدت کی یادداشت یا لانگ ٹرم میموری:

ہماری دوسری یادداشت طویل مدت کی یادداشت کہلاتی ہے جس میں اکثر وہ چیزیں محفوظ ہوتی ہیں جن کی ہمیں طویل عرصے تک ضرورت ہوتی ہے اور انہیں یاد رکھے بغیر ہمارا گذارہ بھی نہیں ہوتا۔ یہ ہمارے لیے بہت ضروری بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ناگزیر ہیں، ان میں یعنی طویل مدت کی یادداشت میں وہ چیزیں محفوظ ہوتی جاتی ہیں جن تجربات سے انسان پہلی بار گزرتا ہے مثلاً جو لوگ حج یا عمرے پر جاتے ہیں تو ان کی کعبہ شریف پر پڑنے والی پہلی نظر کی کیفیت اسی طویل مدت کی یادداشت کا حصہ ہے۔

اسی طرح وہاں پیش آنے والی دوران عبادت کی روحانی کیفیت بھی اسی زمرے میں شمار کی جاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ جب دل کی ہر دھڑکن ربِ کریم کو پکار رہی ہو اور آنکھوں سے ندامت کے آنسوؤں کا سمندر بہہ نکلے تو یہ ساری کیفیات انسان کبھی نہیں بھولتا اور ہماری متذکرہ بالا کیفیات طویل مدت کی یادداشت یا لانگ ٹرم میموری میں شمار کی جاتی ہیں۔

کیوں کہ وہ یہ سب پہلی بار محسوس کرتا ہے، لیکن یادداشت کے ضمن میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم جو کچھ ہم یاد کرتے ہیں، وہ ہماری مختصر مدت کی یادداشت میں محفوظ ہوجاتا ہے جہاں وہ کچھ دیر بعد ختم ہوجاتا ہے۔

لہٰذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان اگر کوئی چیز بغیر سمجھے محض رٹتا ہے تو وہ اس کی مختصر مدت کی یادداشت میں جاتا ہے نہ کہ طویل مدتی یادداشت میں۔ جب تک رٹی ہوئی چیز انسان کی مختصر مدتی یادداشت میں رہے گی، وہ بہت اچھی طرح یاد ہوگی لیکن جب مختصر مدت کی یادداشت سے غائب ہوگی تو کبھی یاد نہیں رہے گی۔ پھر یوں محسوس ہوگا کہ ایک دم ہم سب کچھ بھول گئے۔ لہٰذا اگر آپ کسی بھی چیز کو طویل مدتی یادداشت میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو درج ذیل طریقے اپنانے پڑیں گے:

٭اونچی آواز سے پڑھنا:

آپ جو کچھ بھی پڑھیں، اس کو اونچی آواز میں پڑھیں۔ آپ میں سے اکثر ایسے لوگ ہوںگے جو سوچ رہے ہوںگے کہ ہم بلند آواز سے پڑھیں پھر بھی یاد نہیں ہوتا۔ ہاں یہ بات بالکل درست ہے کہ اکثر لوگ جو اونچی آواز سے پڑھتے ہیں یا یاد نہیں ہوتا اس کا حل یہ ہے کہ اونچا بول کر اپنی آواز کو اپنے دائیں کان میں جانے دیں، سائنس دانوں کی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جو آواز ہمارے دائیں کان میں جاتی ہے وہ ہمیں زیادہ دیر تک یاد رہتی ہے۔ ہمارا دایاں کان ہماری طویل مدتی یادداشت سے جڑا ہوا ہے، اسی لیے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان دی جاتی ہے۔

٭ذہن نشین کرنے کے لیے یاد کرنے کے عمل کو منفرد بنائیں:

اگر کسی بھی بات کو یاد کرنے کے لیے اس عمل کو منفرد بنایا جائے تو بہ آسانی ذہن نشین ہوجائے گا۔ مثلاً طالب علم الگ الگ رنگوں کے ہائی لائٹرز پین استعمال کرسکتے ہیں۔ کسی بھی پیراگراف کی ابتدائی تین سطریں زرد رنگ سے رنگ دیں۔

اگلی تین سطروں کو سبز رنگ سے اور اسی طرح آخری تین سطروں کو سرخ رنگ سے رنگ دیں۔ اس طرح دماغ کو منفرد چیز ملے گی جسے یاد کرنا اس کے لیے بے حد آسان ہوگا۔ اس کی مثال ایسے لیتے ہیں کہ آپ روزانہ ایک پارک میں جاتے ہیں، جہاں بہت ساری سیاہ بلیاں ہوتی ہیں، ایک دن آپ گئے تو بہت سی کالی بلیوں کے درمیان ایک سفید بلی دکھائی دی تو کیا اس سفید بلی کو آپ بھلا پائیں گے؟ کبھی نہیں، اسی طرح ہر وہ چیز جو منفرد ہوتی ہے، ہماری یادداشت میں جلد محفوظ ہوجاتی ہے اور ہمیشہ یاد رہتی ہے، اسی لیے اپنی پڑھائی یا جو معاملات ذہن نشین کرنے ہوں، انہیں منفرد بنانے کی کوشش کریں جس سے آپ اپنے پڑھنے کے عمل کو بھی منفرد بناسکتے ہیں۔

٭اپنے آپ کو پڑھائیے:

ہمارے دماغ کی ایک خاص چیز یہ ہے کہ وہ ہر اس چیز کو نکال دیتا ہے جو واضح نہیں ہوتی یا صحیح طور سے سمجھ میں نہیں آئی ہوتی۔ جو باتیں واضح ہوتی ہیں، وہ طویل مدتی یادداشت میں چلی جاتی ہیں، لیکن جو بے دلی سے یاد کی جاتی ہیں یا رٹی ہوئی ہوتی ہیں، وہ مختصر مدت کی یادداشت میں چلی جاتی ہیں اور کچھ دیر بعد وہاں سے ختم ہوجائیں گی۔

ہمارا موضوع اسی وقت واضح ہوتا ہے جب ہم کسی کو پڑھاتے ہیں۔ یقیناً پڑھانے کے لیے ہر وقت کوئی میسر نہیں ہوتا تو اپنے آپ کو پڑھائیں۔ لہٰذا جو پڑھا اور سمجھا ہو، اسے خود کو سمجھانا شروع کردیں۔ اس سے تمام نکات مزید واضح ہوکر ذہن نشیں ہوجائیں گے۔ جو طلبہ استاد کے پڑھنے کے بعد خود اپنے آپ کو پڑھاتے ہیں، ان کی خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

ہمارے اس چھوٹے سے دماغ میں لاکھوں کروڑوں نیورونز ہوتے ہیں تو جب آپ کسی چیز کو پڑھتے ہیں اور پھر خود کو پڑھاتے ہیں تو نیورونز کے کنکشنز بہت مضبوط اور طاقت ور ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں، اس لیے وہ چیز آپ کبھی نہیں بھول سکتے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اچھی طرح یاد ہونے کے باوجود انسان بھول جاتا ہے تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب آپ کوئی چیز بہت دن تک نہیں دہراتے تو نیورون کے آپس کے روابط کم زور پڑنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے آپ وہ چیز بھولنے لگتے ہیں، اسی لیے اگر طلبہ کوئی بھی موضوع پڑھنے کے تین ماہ کے اندر پانچ بار دہرائیں تو تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ایسے نیورونز کے روابط بن جاتے ہیں جو کبھی کم زور نہیں ہوںگے جس کی وجہ سے آپ وہ موضوع کبھی نہیں بھولیں گے۔

٭پڑھنے کے بعد سونا:

ہمارے دماغ کے بھی کچھ اصول و ضوابط (قوانین) ہیں۔ دماغ ہر وقت جزوقتی (محدود مدت کی یادداشت) کو طویل مدت کی یادداشت میں نہیں بھیجتا رہتا اور نہ ہی ہمہ وقت نیورون جڑتے رہتے ہیں، لیکن جب آپ سوجاتے ہیں تو اس وقت آپ کا دماغ یہ سارے کام کرتا ہے۔ اگر آسان لفظوں میں کہا جائے تو آپ سارا دن اپنے دماغ میں تمام باتیں، معلومات محدود مدت کی یادداشت میں رکھتے رہتے ہیں اور جب آپ سوجاتے ہیں تو آپ کا دماغ اس محدود مدتی یادداشت میں سے معلومات وغیرہ جو منفرد ہو اور اسے اچھی لگے جس کی وجہ سے نیورون مضبوطی سے جڑ جاتے ہیں، اس کو مختصر مدت کی یادداشت سے طویل مدتی یادداشت میں منتقل کردیتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے آپ کو یاد رہتی ہے۔

اس لیے طلبہ کے لیے پڑھائی کے بعد نیند یا آرام کو ضروری قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ اگر آپ کسی موضوع کو پڑھنے کے بعد سوتے نہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ وہ موضوع جلد بھول جائیں گے۔

اگر آپ ان سب ہدایات پر عمل کریں گے تو آپ بھی بہترین یادداشت کے مالک بن سکتے ہیں۔ بس یہ سمجھ لیں کہ اب بھولنا کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔