بیورو کریسی کا قبلہ کیسے درست ہو گا؟

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 9 ستمبر 2018
ملک کو اپنے شکنجے میں جکڑے نوکر شاہی میں اصلاحات کے امکانات پر خصوصی تحریر۔ فوٹو: فائل

ملک کو اپنے شکنجے میں جکڑے نوکر شاہی میں اصلاحات کے امکانات پر خصوصی تحریر۔ فوٹو: فائل

جمہوری حکومتوں میں کہا جا تا ہے کہ ریاست کے تین ستون یا ادارے اہم ترین ہو تے ہیں، ان میں ، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ شامل ہیں۔ انتظامیہ کی اعلیٰ سطح کو عام طور پر بیوروکریسی کہا جاتا ہے۔

چین میں سب سے پہلے 605 سنِ عیسوی میں زاہو اور اس کے بعد سیُو شاہی خاندانوں نے بیوروکریسی کا نظام اختیار کیا تھا، اس وقت پورے چین سے ذہین اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد کے درمیان مقابلے کے امتحانات کروائے جاتے، کامیاب افراد ایک خاص مدت تک مخصوص اکیڈمی میں تربیت مکمل کرتے تھے اس کے بعد انتظامی امور کے لیے ان بیوروکریٹ کو اضلاع میں تعینات کیا جاتا تھا۔

چین میں صدیوں تک اس بیوروکریسی کے اثرات انتظامی لحاظ سے بہت بہتر رہے ، اس کے بعد کے زمانوں میں اہل یورپ نے بیوروکریسی کے اس طریقہ کار کو اپنایا۔ برصغیرمیں انگریز پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد پر آیا تو اگرچہ کمپنی کی حکومت نے بھی انتظامیہ پر تو جہ دی تھی اور وہ بھی ہندوستانی کی روایتی انتظامیہ سے قدرے مختلف اور جدید تھی مگر جب جنگ آزادی 1857ء کے بعد تاج برطانیہ کے تحت ہندوستان میں برطانیہ کے باد شاہ کی حکومت قائم ہو گئی تو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ہندوستان میں انڈین امپریل سول سروس کا ایکٹ 1858ء منظور کیا ۔

جس کے سیکشن xxx11 آف انڈیا کے تحت آئی سی ایس کا سربراہ سیکرٹری آف اسٹیٹ انڈیا مقرر ہوا، اس وقت آج کے بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان یعنی برصغیر کی 30 کروڑ آبادی اور اس کے250 اضلاع میں ڈی سی سے لے کر گیا رہ صوبوں کے گورنروں تک آئی سی ایس افسران مقرر ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برطانیہ فوجی اور اقتصادی لحاظ سے دنیا کی سپر پاور تھا۔

انگریز ہندوستان میں اپنی انتہائی وفادار 540 ریاستوں کے راجائوں، مہا راجائوں، نوابین اور ہندوستانیوں پر مشتمل فوج کے ساتھ بڑی شان و شوکت سے حکومت کر رہا تھا۔ انگریز کی حکومت میں انتظامی اعتبار سے آئی سی ایس افسران ضلعی سطح سے صوبائی سطح تک بادشاہت کیا کرتے تھے لیکن یہ جوابدہ تھے اور اپنے فرائض بھی پوری طرح ادا کرتے تھے مگر یہ تلخ حقیقت ہمارے لیے تھی کہ ہم غلام تھے اور انگریز ہمارے آقا تھے۔

1905 تک کوئی انڈین آئی سی ایس افسر نہیں تھا، اس کے بعد نچلی سطح پر بنگال سے 5% آئی سی ایس افسران آنے لگے مگر ان کی مراعات بھی انگریزوں کے مقابلے میں کم تھیں۔ 1920تک 8000 آئی سی ایس افسران کی کل تنخواہیں 13930554 پونڈ تھی جب کے اس کے مقابلے میں 130000 عام سرکاری افسران اور اہلکاروں کی کل تنخواہیں 3248163 پونڈ تھی اس کے ساتھ ان کو نہ صرف سروس کے دوران شاہانہ انداز کی مراعات حاصل تھیں بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بڑی پینشن بھی ملتی تھی، یہی آئی سی ایس افسران انڈین پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے تحت عدلیہ میں بھی بطور جج پچاس فیصد کو ٹہ رکھتے تھے اور اس وقت یہ جج ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک نہ صرف تعینات ہوا کرتے تھے بلکہ یہاں ان کی سروس کی ریٹائرمنٹ عدلیہ کے قوانین کے تحت ہوا کرتی تھی۔

انتظامی شعبوں میں سیکرٹری ٹو گورنمنٹ آف انڈیا سمیت مختلف محکموں کے سیکرٹری کے اعلیٰ عہدوں پر آزادی سے ذرا پہلے تک یورپین ہی تعینات ہوتے تھے۔ انڈیا ایکٹ 1935 کے بعد مقامی افراد کا تناسب بیوروکریسی میں کچھ بڑھا لیکن یہ پھر بھی انگریزوں کے مقابلے میں بہت کم تھا اس کاندازہ ان اعداد و شمار سے کیا جا سکتا ہے، 1947ء میں آزادی کے وقت 980 آئی سی ایس افسران تھے جن میں سے 468 یورپین 352 ہندو101مسلمان 25 ہندوستانی عیسائی، 13 پارسی، 10سکھ، 5 اینگلو انڈ ین تھے مگر ان آئی سی ایس افسران میں انگریز ہی اعلیٰ ترین عہدوں جیسے گورنر،کمشنر، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج یہی انگریزتھے۔

یہ نہایت تلخ حقیقت ہے ہندوستان میں کانگریس نے قائد اعظم کا میثاق لکھنوکا فارمولہ رد کرکے برصغیر کی حصولِ آزادی کے بنیادی اصولوں کو نقصان پہنچا یا،کانگریس نہرو رپورٹ میں میثاق لکھنو کو رد نہ کرتی تو ہندو مسلم اتحاد قائم رہتا اور برصغیر کے چالیس کروڑ انسان انگریز سے آزادی چھین کر لیتے نہ کہ مانگ کر، اور 1935ء کے قانونِ ہند کے تحت بھارت اور پاکستان جب قائم ہو ئے تو یہ حقیقت ہے کہ انگریز نے یہاں پہلے سے مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ کا نہ صرف ایک مستحکم ڈھانچہ دیا تھا بلکہ ایک بڑی تعداد میں تربیت یافتہ لوگ بھی دیئے تھے ۔

جہاں تک تعلق مقننہ کا ہے تو انگر یز نے آزادی سے قبل کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کو اجازت تو دے رکھی تھی مگر انڈیا ایکٹ 1935ء جو آزدی سے قبل مشترکہ ہندوستان کا آئین تھا اسی قانون کے تحت غیرمنقسم ہندوستان میں 1937ء اور پھر 1945-46 کے موسم سرما میں ہونے والے انتخابات ہوئے ۔ انتخابات کی بنیاد پر ہی پاکستان قائم ہوا۔

یہ انڈیا ایکٹ 1935 ہند وستان کی مقننہ نے نہیں بنایا بلکہ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے بنایا تھا اور پھر جب آخری وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن نے 3 جون 1947 کو اعلانِ آ زادی کیا تو پھر اس اعلان پر عملدرآمد کے لیے قانون آزادیِ ہند کے عنوان سے ترمیم بھی برطانیہ کی مقننہ نے کی تھی۔ یو ں انگریز نے اپنے اقتدار میں ہند وستان میں انتخابات تو کروائے مگر آئین سازی کا اختیار حقیقت میں آزادی کے بعد بھی ایک سال تک نہیں دیا تھا اور ساتھ ہی انتظامیہ اور عدلیہ کا پورا نظام اور ماہر اور بااثر افراد میں بھی انگریز دئیے تھے۔

اگرچہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی کے رہنمائوں نے آزادی کا جذبہ اپنی اپنی قوم کے افراد میں بھر دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ہندوستانی آئی سی ایس افسران کے دو واضح گروپ بن چکے تھے ایک کانگریس کے حامی تھے اور ان میں سے کچھ مسلمان مسلم لیگ کے حامی تھے، یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان قائم ہوا تو باوجود قائد اعظم کی اپیل کے 101 مسلمان آئی سی ایس افسران میں سے ڈھائی تین درجن سے زیادہ بڑے ،چھوٹے آئی سی ایس افسران ہی پاکستان آئے، البتہ بھارت اور پاکستان دونوں میںگورنروں اور سیکرٹریوںاور عدلیہ کے ججوں پر آزادی کے بعد کافی عرصے تک انگریز آئی سی ایس افسران تعینات رہے۔

بھارت میں آخری آئی سی ایس انگریز افسر جسٹس پنجاب ہائی کورٹ 1966 میں اور آخری بیوروکریٹ نرمل کمار مکھر جی بطور کیبنٹ سیکرٹری 1980 میں ریٹائر ہوئے جبکہ اِس وقت بھارت میں آئی سی ایس کی آخری نشانی کے طور پر وی کے رائو 104 برس کی عمر میں زندہ ہیں، وہ 1914 میں پیدا ہوئے، 1937 میں آئی سی ایس افسر ہوئے، بطور چیف سیکرٹری آندھرا پردیش ریٹائر ہوئے۔ پاکستان میں آخری آئی سی ایس افسر آفتاب غلام نبی ذکی تھے جو بطور چیرمین پاکستان بورڈ آف انویسٹمنٹ 1994 میں ریٹائر ہوئے۔

پاکستان کی بد قسمتی یہ رہی کہ آزادی کے ایک سال29دن بعد قائد اعظم انتقال کر گئے اور پھر ہم 1956ء تک اپنا آئین بھی نہ بنا سکے اور اس وقت تک نہ صرف 1935ء کا انڈیا ایکٹ ہمارا آئین رہا بلکہ 1951 میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس آئین کی تشریح اور اس کے اختیارات استعمال کرنے والے بھی آئی سی ایس اعلیٰ افسران گورنر جنرل ملک غلام محمد،گورنر جنرل اور 1956 کے آئین کے بعد صدر مملکت اسکندر مرزا بھی آئی سی ایس افسر تھے اور پھر وزیر اعظم ہونے والے چوہدری محمد علی بھی آئی سی ایس افسر تھے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد ایک عرصے تک ہمارے ہاں سر فرانسس موڈی صوبہ پنجاب کے، سر فیڈرک برائون مشرقی پاکستان کے، سر جارج کونگینگ صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر رہے۔

ان کے علاوہ بھی سات سینئر تر ین بیوروکریٹ اور بہت سے انگریز افسران ساٹھ کی دہائی تک پاکستان میں تعینات رہے۔ جب کہ اگست1947 تافروری1948 سر جنرل فرینک میسری اور ان کے بعد فروری 1948 تا جنوری 1951 سر جنرل ڈگلس گریسی فوج کے آرمی چیف رہے۔ ان کے بعد جنرل ایوب خان پاکستان کی فوج کے کمانڈر انچیف ہوئے۔ اسی طرح اگست 1947 تا فروری1949 پاکستان فضائیہ کے سربراہ ائیر وائس مارشل پیری کین فروری، 1949 تا مئی 1951 ائیر وائس مارشل آر ایل امرلی، مئی 1951 تاجون1955ان کے بعد 1957 تک ائیر وائس مارشل اے ڈبلیو میکڈونلڈ پاک ٖفضا ئیہ کے چیف رہے اور ان کے بعد پہلے پاکستانی سربراہ ائیر مارشل اصغر خان تھے۔

اسی طرح پاکستان نیوی کے پہلے ایڈ مرل اگست 1947 تا فروری1953 جے جیمز ولفریڈ تھے اور ان کے بعد پہلے پاکستانی ایڈمرل ایچ ایم ایس چوہدری ہوئے۔ یہاں یہ بہت واضح ہے کہ اگر ہم بھی قیام پاکستان کے بعد ایک سال کے اندر اندر اپنا آئین بنا کر 1935 کے انڈیا ایکٹ کی جگہ نافذ کردیتے تو ہماری آزادی ’’داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر نہ کہلاتی‘‘۔ واضح رہے کہ بھارت میں نہرو نے آئینی جمہوریت کو اس کے باوقار کردار کے ساتھ مستحکم کرتے ہو ئے جرات مندانہ اقدامات کئے اور جب آزادی کے تھوڑے عرصے بعد فوج کے لیے اسلحہ کی خریداری پر بھارتی وزیر دفاع پر سینئر ترین فوجی افسران نے دبائو ڈالتے ہوئے استعفے پیش کئے تو وزیر اعظم نہرو نے استعفٰے فوراً قبول کر لیے اور کہا کہ مجھے یہ فیصلہ کرتے وقت تکلیف ہو رہی ہے مگر میںجمہوری حکومت اور جمہوریت کو بھارت میں طاقتور دیکھنا چاہتا ہوں۔

اس سب کے باوجود کہ ہندوستان کی بیوروکریسی ہماری بیوروکریسی کے مقابلے میں کانگریس سے ہم آہنگی بھی رکھتی تھی اور بھارت کے قومی مفادات کو عزیز رکھتی تھی، نہرو نے جلد ازجلد آئی سی ایس افسران کی قوت کو کمزور کیا، جبکہ ہمارے ہاں آزادی کے فورا بعد خصوصا قائد اعظم کے بعد آئی سی ایس افسران نے پاکستان اور اس کے تمام اداروں کو دبوچ لیا ۔1947 میں ہمارے پاس جو نمایاں آئی سی ایس مسلمان افسران آئے، ان میںآفتاب غلام علی،اے این جی قاضی،آغاشاہی، ایم ریاض الدین ، چوہدری محمد علی ، محمد اکرام اللہ جو ہمارے پہلے فارن سیکرٹری رہے، عزیز احمد جو پہلے مشرقی پاکستان کے چیف سیکرٹری اور پھر فارن سیکرٹری رہے، جے اے رحیم، مرزا سکندر علی بیگ، ایس کے دہلوی، اختر حسین جو پہلے چیف سیکرٹری پنجاب اور وزیر دفاع اور پھر گورنر مغربی پاکستان رہے۔

ان کے علاوہ پاکستان آنے والے آئی سی ایس افسران میں آغا ہلالی، سابق فارن سیکرٹری، اے ٹی نقوی، ایس غیاث الدین ، ایچ اے ماجد، سید فدا حسین ، ایچ آر کیانی، ایس ایچ رضا،عبدالمجید ،شیخ ناز الباقر، شہاب الدین ، محمد شعب، نصیر احمد فاروقی مرزا مظفر، ایم ایم احمد ،ایم ایم نیاز، قمر الاسلام اور قدرت اللہ شہاب شامل تھے۔ ان میں بہت سے باکمال اور قدرے محب وطن آئی سی ایس افسران بھی شامل تھے مگر یہ نہایت تلخ حقیقت ہے کہ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ان آئی سی ایس افسران نے آزادی کے بعد جب ان کے سینئر آئی سی ایس افسران نے پاکستان کو کمزرو کرنے کی کوشش کی جمہوریت کو پامال کیا تو کسی نے جرات کا مظاہرہ نہیں کیا۔

یہ درست ہے کہ چوہدری محمد علی نے بطور وزیر اعظم 1956 کا آئین دیا مگر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد نیشنل بنک کا عہدہ لے لیا اور جب سینئر بیورو بیوکریٹ سکندر مرزا نے اپنے اقدار کو بچانے کے لیے آئین اور جمہوریت کو قربان کرتے ہو ئے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو مارشل لاء نافذ کرنے کا حکم دیا اور ایوب خان نے مارشل لاء کے بعد صدر اسکندر مرزا کو فارغ کرد یا اور تو ا یوب کی 1969 تک تشکیل پانے والی تین کابینہ میں محمد شعیب،اختر حسین اور شہاب الدین جیسے آئی سی ایس افسران وفاقی وزرا رہے۔

قیام پاکستان کے بعد جو افراد سی ایس پی افسر بنے تو ان میں سے بھی بہت سے افسران نے نہ صرف غیر جمہوری حکومتوں کو مضبوط کیا بلکہ انتظامیہ کو بہت نقصان پہنچایا، مثلاً ایوبی دور میں یہی بیوروکریسی تھی جس نے متحرمہ فاطمہ جناح کو بطور اے سی اور ڈی سی بنیادی جمہوریت کے صدارتی انتخابات میں خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی سے ہروانے میں بنیادی کر دار ادا کیا۔

یہاں معرف سفر نامہ نگار بیگم اختر ریاض الدین کی کتاب دھنک پر قدم میں ہوائی کے سفر کی روداد کا حوالہ بہت اہم ہے جس میں امریکہ کی جانب سے سی آئی سی ایس اور پھر پی سی ایس افسران کے لیے لکھا ہے کہ ان افسران کے ایک اشارے پر بی ڈی ممبر بنتے اور جوڑ تے ہیں ان کے لیے ہوا ئی یو نیورسٹی میں اسکالر کہلانا کو ئی حیرانی کی بات نہیں لیکن ہمارے نیک اور اچھے بیوروکریٹ میںآئی سی ایس قدرت اللہ شہاب اور سی ایس پی کے پہلے بیج کے مختار مسعود نہ صرف بہت محب وطن بیوروکریٹ تھے بلکہ ان کا کمال یہ ہے کہ اردو ادب کے ان بے مثال ادیبوں نے نہ صرف ادب کی خدمت کی بلکہ اپنی تحریر وں میں ادبی چاشنی کے ساتھ پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی صورتحال کو ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس میں بیوروکریسی کا چہرہ بھی زیادہ واضح انداز میں نظر آتا ہے، پاکستان کے قیام کے فوراً بعد پشاور میں قا ئد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے بیوروکریسی سے کہا تھا کہ یہ آزاد ملک ہے اور اب آپ عوام کے حاکم نہیں خادم ہیں۔

یوں یہ دو ایک افسران توعوام کے خادم رہے لیکن اکثریت نے قوم وملک کو نقصان پہنچایا، البتہ چند آئی سی ایس اور کچھ پی سی ایس ا فسران ایسے تھے جنہو ں نے یہ افسری چھوڑ دی، ان میں خواجہ خورشید انور، سنتوش کمار اور بعد میں راحت کاظمی، ایاز امیر اور ڈاکٹر محیط پیرزادہ جیسے شامل ہیں، مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں، لیکن نمک کا ذائقہ رکھتے ہیں جو آٹے پر محیط ہوا کرتا ہے۔ صدر جنرل ایوب خان نے چونکہ ملک غلام محمد،اسکندر مرزا اور چوہدری محمد علی کے علاوہ بہت سے بیوروکریٹ کے ساتھ کام کیا تھا اس لیے انہوں نے ان میں سے ان کو جو ایوب خان کے ساتھ نہ چل سکتے تھے مجبور کیا کہ وہ اپنا راستہ الگ کر لیں۔

یوں 28 جون 1959ء کو 12 سی ایس پی سمیت 89 سینئر افسران نے استعفے دے دیئے، یہ بیوروکریسی کے خلاف ملک میں پہلا قدم تھا ، 1969ء میں صدر ایوب خان کی رخصتی اور صدر جنرل یحیٰ خان کی آمد کے وقت 303 سی ایس پی اور سینئر افسران کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا، انہی میں سے ایک مشہور شاعر مصطفٰی زیدی تھے جن کی ایک غزل کے دو اشعار یوں ہیں

ان ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
میری روح کی حقیقت مرے آنسووں سے پوچھو
میرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

مصطفی زید ی کی موت بہت پراسرا انداز میں 12اکتوبر1970 کو کراچی کے ایک ہو ٹل میں ہوئی جب وہ اپنی خاتون دوست کے ہمراہ ہوٹل کے کمرے میں تھے، وہ مردہ پائے گئے جب کہ خاتون شہناز گل مدہوشی کی حالت میں تھیں، قتل کا یہ کیس اس زمانے میں اخبارات کی شہ سرخیوں کے ساتھ بہت مشہور ہو ا کہ یہ قتل تھا یا خود کشی؟

اس کے بعد اگست 1973ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جے اے رحیم کے ساتھ مل کر بیوروکریسی میں اصلاحات کرتے ہوئے 1300 افسران کو فارغ کردیا۔اس دور سے بیوروکریسی عدم تحفظ کا شکار ہو گئی اور اعلیٰ سطح سے نچلی سطح تک مالی کرپشن کے رجحان کا آغاز ہوا، اسی دور میں جب یہ سی ایس پی سے سی ایس ایس ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو نے ڈائریکٹ انٹری کے تحت بغیر مقابلے کے امتحان کے بھی سینکڑوں افراد کو بیوروکریسی میں داخل کیا جن میں سے کچھ کو صدر جنرل ضیا الحق نے اقتدار میں آتے ہی فارغ کر دیا اور بعض شامل رہے۔

اگر چہ بیوروکریسی کے شعبے میں پہلا دور جو 1958 تک رہا، پورا اقتدار بیوروکریسی کے قابو میں تھا۔ صدرایوب خان کے دور میں بیوروکریسی کے نہ صرف اعلیٰ افسران کابینہ میں شامل رہے بلکہ نچلی سطح پر ایوبی اقتدار میں حکومت کی مضبوطی کی ضمانت تھے، اس لیے بیوروکریسی کی اہمیت طاقت کے اعتبار سے قائم رہی۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء میں غلام اسحاق خان سمیت بہت سے بیوروکریٹ اہمیت اختیار کر گئے اور غلام اسحاق خان تو چیرمین سینٹ اور اس کے بعد صدر کے عہد ے تک پہنچے۔ ان کے بعد اگر چہ سردار فاروق احمد لغاری بھی صدر ہوئے مگر یہ پہلے ڈی سی کے عہدے سے مستعفی ہوئے تھے۔

بھٹو کی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور بینظیر کے دور میں صدر ہو ئے اور پھر ان ہی کی حکومت کو برطرف بھی کیا، جنرل ضیا الحق کے دور میں سرد جنگ اپنی انتہا کو پہنچی اور اس کا سب سے بڑا محاذ ہماری سرحد پر افغانستان میں کھل گیا، اب مقامی اہم افراد بڑے سرمایہ دارافغانستان، مڈل ایسٹ اور پاکستان، سمیت بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں براہ راست انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے را بطے میں گئے وہاں بیوروکریسی کے بعض سینئر افراد بھی اس بگ گیم میں شامل ہو گئے، عام سطح پر مالی کرپشن کا بڑا حصہ یہی بیوروکریسی بن گئی۔

یوں پہلے بیوروکریسی ملک کی حکمران رہی پھر حکمران طبقے کے ساتھ کابینہ کے اراکین بن کر حکو متوں کا حصہ رہی اور پھر اب تک بیوروکریسی کا بڑا حصہ حکمرانوں کی کرپشن میں بنیادی ایجنٹوں کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس دوران صوبائی سطحوں پر تو پی سی ایس کے مقابلے کے امتحانات میں کر پشن، اقربا پرورری اور سیاسی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی بلکہ ایک دو مرتبہ تو فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے بھی سی ایس ایس کے مقابلے کے امتحانات کے پرچوں کے آئوٹ ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

دوسری جانب ملک بھر میں یو نیورسیٹوں کی سطح پر نقل،کرپشن اور اقربا پروری کے رجحانات کی وجہ سے تعلیم کا معیار انتہائی پست ہو گیا۔ اس کا اندازہ 2015 کے سی ایس ایس کے مقابلے کے امتحان کے نتیجے سے ہو سکتا ہے جو اب تک کا سب سے برا رزلٹ ہے، اس میں کل 12176 امیدواروں نے مقابلے کا امتحان دیا تھا اور رزلٹ صرف 3% رہا تھا۔

یوں اب جب کہ برسوں بعد ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت کی حکومت آئی ہے جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہر شعبے میں تبدیلی لانے کا دعوٰی کرتی ہے تو اس کے لیے بیورو کریسی کی اصلاح بہت بڑا چیلنج ہوگا،اگرچہ یہ حقائق بھی عوام کے سامنے ہیں کہ اس وقت 20 اور21 گریڈوں کے بعض سینئر ترین سی ایس ایس افسران کے خلاف ٹھوس ثبوتوں کی بنیادوں پر عدالتوں میں مقد مات چل رہے ہیں اور یہ مقدمات اتنے مضبوط ہیں کہ باوجود بہت بڑے وکلا کے ان کی ضمانتیں نہیں ہو پائی رہیں۔

اگر چہ ملک میںکرپشن ساٹھ کی دہا ئی کے آخر میں شروع ہو چکی تھی مگر اُ س وقت ایسی اندھیر نہیں مچا تھا اگر کسی سرکاری افسر یا اہلکار کے پاس زیادہ دولت کا گمان ہو تا تھا تو فوراً اُس کے خلاف تحقیقات شروع ہو جایا کرتی تھیں لیکن 80ء کی دہائی کے بعد یہ تصور ہی ختم ہو گیا کہ کوئی پوچھنے والا بھی ہے۔

1999ء میں جب ہمارے قومی بجٹ کا خسارہ پچاس فیصد تک پہنچ گیا تھا اور بیرونی قرضوںکی ادائیگی کے لیے قرضے لیئے جانے لگے تھے اور جب پرویز مشرف نے اقتدار حاصل کیا اور احتساب کا اعلان کرتے ہو ئے کاروائیاں بھی عمل میں لائیں تو عوام کی اکثریت خوش ہوئی مگر بعد میں جب ڈیل اور بارگیننگ کی اصطلا حات نیب اور حکومت کی جانب سے سامنے آئیں تو اس انداز سے کرپشن کے رجحانات کو کہیں زیادہ تقویت ملی اور یہ مثال بالکل درست ثابت ہو گئی کہ ’’کیسے پکڑے گئے تو جواب دیا رشوت لینے پر اور کیسے چھوٹے تو پیسے دیکر‘‘ ۔ پرویز مشرف کی حکومت کو گئے اب تقریباً گیارہ برس ہوچکے ہیں اس دوران مجموعی قرضے چھ ہزار ارب سے بڑھ کر اٹھائیس ہزار ارب روپے ہو چکے ہیں اور بیرونی قرضے چالیس ارب ڈالر سے بڑھ کر 95 ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ ملکی قوانین پر عملدر آمد کروانا سرکاری مشینری یعنی انتظامیہ کا کام ہے اور یہ چاہے پولیس ہو یا ڈسٹرکٹ مینجمنٹ، ایف بی آر،کسٹم، یا کوئی اور ادارہ یہاں سی ایس ایس یا پی سی ایس افسران ہی بنیادی کردار اداکرتے ہیں اور آج ہم بحیثیت قوم اخلاقی گراوٹ کی اُس پستی میں چلے گئے ہیں کہ ایک عام آدمی بھی رزق حرام کو برا یا گناہ تصور نہیں کرتا اور یہ بھی تاریخ کا ریکارڈ رہے گا کہ کسی سر براہ ِ حکومت نے سر عام یہ کہا کہ اگر کرپشن کو ختم کیا گیا تو قومی ترقی رک جائے گی۔

اب جہاں تک بیوروکریسی کا تعلق ہے تو اس کے پاس قانونی طور پر اختیار ہوتا ہے کہ وہ ہر اُس اجتماعی اور انفرادی اقدام کو روکے جس کی ملک کا قانون اجازت نہیںدیتا اور اس کے لیے اس وقت سی ایس ایس کے نظام کے تحت پورے ملک سے ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کا انتخاب مقابلے کے امتحان کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس سخت امتحان سے گزر کر کامیاب ہوئے افراد کو بارہ محکموں یا شعبوں میں اعلیٰ درجے کی ملا زمت دی جاتی ہے اور وہ ہر پانچ، سات سال بعد اگلے گریڈوں میں ترقی کرتے جاتے ہیں۔ اس وقت اگرچہ 18 ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے بہت سے محکموں کا کام مکمل صوبائی خودمختاری کی وجہ سے صوبوں کی ذمہ داری ہے اور پی سی ایس افسران بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔

لیکن جہاں تک تعلق سی ایس ایس افسران کا ہے تو ایک تو اس میں 7.5% میرٹ کے بعد آبادی کے تناسب سے صوبوں کا کوٹہ ہے اور یہ سی ایس ایس افسران پورے ملک کی سطح پر تعینات کئے جاتے ہیں اور پھر جو محکمے اب تک مرکز کے پاس ہیں وہاں صرف یہی سی ایس ایس افسران ہی تعینات ہوتے ہیں جیسے فارن گروپ کے دفتر خارجہ کے تحت اس دفتر کے علاوہ پوری دنیا میں جہا ں جہا ں ہمارے سفارت خانے ہیں وہاں سفیر کے عہدہ تک یہ سی ایس ایس افسران تعینات کئے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے اہم رکن اور سینئر سابق آئی سی ایس افسر جے اے رحیم کی تجاویز پر بیورو کریسی کے شعبے کے پورے ڈھانچے میں تبدیلیاں کی تھیں لیکن اس کے باوجود اس شعبے کے ایک پر موٹی افسر غلام اسحاق خان نے اپنا کمال دکھا دیا اس کے بعد انہی کی پیپلز پارٹی میں شامل ہو نے والے سابق ڈی سی صدر فاروق لغاری نے کمال دکھایا مگر دوسری جانب کچھ فاش غلطیاں اور کو ہتیاں خو د ان سیاسی لیڈروں کی بھی تھیں۔

بھٹو جو ذہانت اور اہلیت کے لحاظ سے اب تک اپنا ثانی نہیں رکھتے وہ بیوروکریسی کے سرکش گھوڑے کو قابو میں رکھ کر سواری کر نے کے ہنر سے واقف تھے اور شروع میں انہوں نے ایسا کیا بھی مگر ان کی پارٹی کا جو منشور تھا اور اس کے لیے جس پالیسی اور منصوبہ بندی کی ضرورت تھی غالباً اُس پر پوری طرح عملدر آمد کے لیے وہ خود بھی تیار نہیں تھے اور اُس عہد کی تصاویر اور فلمیں اس کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔ پی پی پی کے منشورکی بنیاد اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے۔

طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں اور پھر ہر شخص کے لیے بنیادی ضرورت روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا، بھٹو چین کے ماوزے تنگ سے متا ثر تھے اور اسی لیے ا نہوں نے بشمول خود چینی عوامی لباس کو اپنی کا بینہ کے تمام اراکین کو بعض مواقع پر پہنایا تھا۔ یہ لباس چینی عوام اور قیادت کے اسٹائل کا تو ضرور تھا مگر اس کا کپڑا اور سلائی اتنی ہی قیمت کی تھی جتنی بھٹو جیسے اپنے وقت کے دنیا کے خو ش پوش لیڈر کے دوسرے ان سوٹوں کی تھی جو فرانس اور برطانیہ سے سل کر آتے تھے جن کا ذکر قدرت اللہ شہاب نے بھی کیا ہے کہ بھٹو نے ان کو بھی کچھ سوٹ سلوا کر دئیے تھے۔

یوں اگر بھٹو واقعی سوشلزم کے پورے اور حقیقی فلسفے پر عمل کرتے اور اسی کی بنیاد پر بیوروکریسی کی اصلاح ہوتی تو یہ واقعی آ ج عوام کی خادم بیوروکریسی ہوتی، اس کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے پورے نظام کو بدلنے کی ایسی کو شش کی جس کے لیے پاکستان کی سماجی ساخت مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ انہوں نے 2000-2001 میں مقامی حکومتوں کا ضلعی نظام متعارف کروایا، اور ضلعی ناظم کو ڈی سی اور ایس پی کے اختیارت کے ساتھ بعض شعبوں میں ضلع کا تقریباً خود مختار حاکم بنا دیا پھر اس نظام کو مالی لحاظ سے مستحکم بنانے کے لیے صوبائی طرز پر ضلعی این ایف سی ایوارڈ کا منصوبہ بھی دیا مگر اس پر پوری طرح عملدر آمد نہ ہو سکا، کچھ عرصے بعد یہ شعبہ دانیال عزیز کے حوالے کردیا گیا تو انہوں نے پورے ملک سے صحافیوں، سماجی محققین اور دانشوروں کو مشورے کے لیے اسلام آباد بلوایا۔

بلو چستان سے معروف صحافی اور دانشور انور ساجدی اور مجھے بھی دانیال عزیزکی جانب سے دعوت ملی۔ راقم نے اس وقت دانیال عزیز کو یہی مشورہ دیا تھا کہ رفتار کو برقرار اور متوازن رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ گا ڑی بھی بہتر ہو اور سڑک بھی، نہ تو اچھی سڑک پر پرانی اور چھکڑا گاڑی بہتر رفتار اور توازن سے چل سکتی ہے اور نہ ہی ٹوٹی پھو ٹی سڑک پر نئی اور تیز رفتار گاڑی اچھی رفتار و توازن سے چل سکتی ہے، پھر ساتھ ہی پولیس آرڈر کے عنوان سے اس شعبے کی اصلاحات پر بھی نظر ڈالی گئی، صوبائی اور ضلعی سطحوں پر پبلک سیفٹی کمیشن بنائے گئے،ایف آئی آر کے اندرراج کو یقینی بنا نے کے لیے چند اچھی تجاویز پر عملدر آمد ہوا اور ساتھ ہی پولیس اور انتظامی اعتبار سے پرانے نظام کو بلوچستان اور دوسرے صوبوں میں اے ایریا اور بی ایریا پولیس اور لیویز کے ساتھ ساتھ قبائلی جرگہ کے نظام کو ختم کرنے کا عمل شروع ہوا، یوںبرسوں بلکہ تقریبا ڈیڑھ صدی کے قائم نظام کوچند مہینوں میں ختم کردیا گیا۔

اب اس کو اتفاق کہیں کہ اسی وقت نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور پھر اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یوٹرن کے ساتھ پاکستان کو ایک بار پھر افغانسان سے طویل سرحد کی بنیادوں پر فرنٹ لائن کا ملک بننے کے علاوہ کوئی چارہ دکھائی نہیں دیا، اور اس وقت انتظامی لحاظ سے بڑی بے بسی دکھائی دی ، جب ڈسٹرکٹ ناظم جو چار پانچ سال کی محدود مدت کے لیے منتخب ہوتا تھا امن و امان کی بہتری کے لیے کوئی جرات مندانہ اقدام یو ں نہیں لیتا تھا کہ اسے معلوم تھا کی اقتدر کے جانے کے بعد اسے تحفظ نہیں ہو گا اور اس صورتحال سے ہمیں اس وقت بہت نقصان ہوا تھا۔آج جب تحریک انصاف کی حکومت ہے تو اس حکو مت کو بیوروکریسی کی اصلاحات کرتے وقت اور بلد یاتی ادارورں کو اختیارات دیتے ہو ئے ماضی کے ان تجر با ت کو سامنے رکھنا چاہیے۔
جہاں تک بیوروکریسی کا تعلق ہے تو اس کے پورے نظام میں انتخاب اور تربیت سے لے کر اختیارات کے استعمال کے تمام مراحل میں تبدیلیوں کی فوری ضرورت ہے،اور پہلے مرحلے میں بڑے آپریشن کے ذریعے گریڈ 17 تا 22 پورے ملک میں تمام کرپٹ افسران کو چھان بین کے بعد ملازمتوں سے فوراً فارغ کر دینا چاہیے، نیک اور فرض شناس افسران کو سر آنکھوں پر بٹھا نا چاہیے اور ان کی ترقی اور ملازمت کے تحفظ کی آئینی ضمانت ہونی چاہیے۔ ضلعی سطحوں پر تعمیر وترقی عوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری کے لیے بلدیاتی نظام کے تحت ضلعی ناظم کو مالیاتی اور انتظامی اختیارات حاصل ہوں مگر یہ مدنظر ضرور ہو کہ ہم کو دہشت گردی کے اعتبار سے جن جنگی حالات کا سامنا ہے اس کے لیے تحصیل، سب ڈو یژن اور ضلع کی سطح پر بیوروکریسی کو ایسے اختیارات دینے ہو ں گے کہ جس پر مرحلہ وار ضلع، ڈویژن اور صوبے کی سطح پر ہی افسران جوابدہ ہوں، اگر چہ ملکی مسائل اتنے گھمبیر اور شدید ہو چکے ہیں کہ ان کی اصلاح اور حل کے لیے تیز رفتاری بہت ضروری ہے۔

مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے پہلے سے بیورو کریسی کی اصلاح اور ضلعی سطح پر بلدیاتی نظام کے تحت اختیارات کی منتقلی کا کوئی جامع منصوبہ تیار کر کے نہیں رکھا، تو نیا منصوبہ بہت سوچ سمجھ کر بنائے کیونکہ کرپشن کے خاتمے کے لیے بنیادی نوعیت کے یہی اقدامات ہوں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اس بار کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوا تو نہ صرف ان کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ میر ے منہ میں خا ک ،کہیں ملک کا خاتمہ نہ ہو جائے،کیونکہ جب جسم میں خون نہ ہو تو دل دھڑکنا بند ہو جاتا اور آخر میں کسی کا یہ شعر وزیر اعظم عمران خان اور ان کی نئی کا بینہ کی نذ ر ہے۔
دل دھڑکنے کی صدا ہے تو اِسے غور سے سن
یہ کوئی یاد دہانی تو نہیں ہوتی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔