خوفزدہ صدر

تنویر قیصر شاہد  پير 10 ستمبر 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

’’اگر دُنیا کا امن بچانا ہے تو اِس صدر سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ اگر عالمی تجارت کو مکمل تباہی سے محفوظ رکھنا ہے تو وائیٹ ہاؤس کے اِس مکین سے جان چھڑانا ہوگی۔ اگر دُنیا کو مستقبل کی ہلاکت خیز اور تباہ کن جنگوں سے دُور رکھنا ہے تو اِس صدر کو واپس بھیجنا ہوگا۔یہ صدر اپنے مختلف النوع خوف پر قابو پانے کی ناکام کوششوں میں ساری دُنیا کو خوف میں مبتلا کیے ہُوئے ہے۔‘‘

یہ الفاظ ممتاز ترین امریکی مصنف اور صحافی، باب وُڈ وارڈ، کی تازہ ترین کتاب کے ہیں۔ باب وُڈ وارڈ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور ایک مشہور امریکی اخبار کے ایسوسی ایڈیٹر بھی۔ اُن کی تحقیقی رپورٹوں اور انکشاف خیز کتابوں نے امریکا سمیت دُنیا بھر میں ہمیشہ تہلکہ مچایا ہے۔11ستمبر2018ء کو ایک بار پھر اُن کی ایک معرکہ آرا کتاب منظرِ عام پر آنے والی ہے۔ کسی بھی مصنف کی اِس سے بڑھ کر خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُس کی کتاب بازار میں آنے سے قبل ہی اتنی مقبول ومحبوب ہو جائے کہ ہر کوئی اُسے خریدنے اور پڑھنے کے لیے بیتاب نظر آ رہا ہو۔ یہ خوش بختی ایک بار پھر باب وُڈ وارڈ کے نصیب کا حصہ بنی ہے۔ اُن کی منصہ شہود پر آنے والی اِس کتاب کا نام ہے:FEAR  :  TRUMP  in the WHITE  HOUSEیہ تصنیف 448صفحات پر مشتمل ہے۔

مصنف نے امریکا میں سیکڑوں راز داروں اور معتبر ترین لوگوں کے انٹرویوز کرکے اور ہزاروں کلاسیفائیڈ دستاویزات کھنگالنے کے بعد دُنیا کے سامنے اِس کتاب کی شکل میں یہ حقیقت پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، ایک غیر متوازن، نفسیاتی امراض میں گھرا، خوف کا شکار اور خطرناک شخص ہے۔ کسی بھی وقت وہ امریکا سمیت دُنیا بھر کو ہلاکت میں ڈال سکتا ہے۔ لِیک ہو کر جتنی معلومات سامنے آئی ہیں، اُن کے مطابق کتاب مذکور کے مصنف نے تحقیقات سے ثابت کیا ہے صدرِ امریکا، ٹرمپ صاحب، اپنے ہی تخلیق کردہ خوف کے اتنے دائروں میں گھِر چکا ہے کہ اُس کا وجود کسی بھی وقت عالمی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔ وہ دُنیا کے لیے تباہی کا باعث تو بعد میں بنے گا لیکن سب سے پہلے امریکا اور امریکیوں کو لے ڈُوبے گا۔ کتاب کے مصنف، باب وُڈ وارڈ، نے انکشاف کیا ہے کہ’’ صدر ٹرمپ اس قدر خوفزدہ اور اتنے مغضوب الغضب ہیں کہ انھوں نے اپریل 2017ء میں پنٹاگان کے سربراہ کو اپنے ہاں بلایا اور اُسے حکم دیا کہ شامی صدر، بشار الاسد، کو قتل کر دیا جائے۔

یہ خطرناک حکم اُس وقت دیا گیا جب یہ خبریں آئی تھیں کہ شامی صدر نے اپنے مخالفین پر کیمیاوی بم استعمال کیے ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ پنٹا گان چیف (جس نے پہلے حکم کی تعمیل میں حامی بھر لی تھی) کسی طرح یہ حکم ٹالنے میں کامیاب رہے۔ اگر اِس پر فوری طور پر عمل درآمد کر دیا جاتا تو نجانے مشرقِ وسطیٰ میں کیا قیامت برپا ہو جاتی۔ شامی صدر، بشار الاسد، کا سب سے بڑا حمائتی، رُوس، یہ دہشتگردی کبھی برداشت نہ کرتا۔ کتاب میں مندرج جُونہی یہ راز منکشف ہُوا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سختی سے اس کی تردید کر دی ہے، یہ کہہ کر کہ ’’اِس بارے میں تو کبھی ذکر تک نہیں ہُوا۔‘‘ صدرِ امریکا نے یہ تازہ تردید اُس وقت کی ہے جب وہ امیرِ کویت سے ملاقات کرکے وائیٹ ہاؤس کے اووَل آفس میں صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔ مصنف مگر اپنے بیان کردہ واقعہ پر ڈٹا ہُوا ہے۔

باب وُڈ وارڈ کی یہ تہلکہ خیز اور طوفانی کتاب انکشاف کرتی ہے کہ خوف و حزن کے شکار صدر ٹرمپ کی وجہ سے سارا وائیٹ ہاؤس انتشار، افراتفری اور بدنظمی کا شکار بن چکا ہے۔ صدر اور امریکی میڈیا کے درمیان شدید تناؤ اور کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔ ٹرمپ صاحب کئی بار امریکی صحافیوں اور کئی میڈیا ہاؤسز سے جھگڑے کر چکے ہیں۔ کئی صحافیوں سے ذاتی ناراضی کی بِنا پر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکم صادر کررکھا ہے کہ انھیں وائٹ ہاؤس داخل نہ ہونے دیا جائے۔ کئی امریکی اخباروں اور نجی ٹی ویوں سے ٹرمپ اسقدر نالاں ہو چکے ہیں کہ پچھلے دنوں جب وہ میامی سے واپس واشنگٹن آ رہے تھے تو جہاز میں انھوں نے دیکھا کہ اُن کی اہلیہ، ملانیا ٹرمپ، ایک ایسا چینل دیکھ رہی ہیں جس سے ٹرمپ صاحب کو شدید نفرت ہے۔ وہ اپنی گھر والی پر اتنے ناراض ہُوئے کہ آگے بڑھ کر خود ٹی وی بند کر دیا۔

صدرِ امریکا نجی طور پر شدید تنہائی کا ہدف بن چکے ہیں۔ یہ خبر بھی آچکی ہے کہ اُن کی اہلیہ نے طلاق کا مطالبہ بھی کر رکھا ہے۔ ٹرمپ نے یہ مطالبہ دھمکی دے کر روک رکھا ہے: اگر طلاق لوگی تو تمہیں امریکا سے ڈی پورٹ کر دیا جائے گا!! صدرِ امریکا کے اقتدار کا جہاز بُری طرح ڈول رہا ہے۔ امریکی فضاؤں میں یہ احساس قوی ہونے لگا ہے کہ امریکا میں مِڈ ٹرم الیکشن ہونے والے ہیں اور صدر ٹرمپ کے اقتدار کا بوریا بستر گول ہونے والا ہے۔ اوپر سے باب وُڈ وارڈ کی نئی کتاب نے ٹرمپ صاحب پر ستم کی نئی بجلیاں گرا دی ہیں۔ صدرِ امریکا اور اُن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ کتاب خود ساختہ کہانیوں کا پلندہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو ٹرمپ صاحب ہتک عزت کے لیے عدالت کے دروازے پر دستک دینے سے کیوں شرما رہے ہیں؟ باطنی طور پر جانتے ہیں کہ کتاب کے حقائق اور موجودہ امریکی ہتک عزت کے قوانین کی موجودگی میں وہ کتاب اور صاحبِ کتاب کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

اِسی لیے تو عالمِ بیچارگی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے: ’’مجھے نہیں معلوم یہ ہماری کانگریس ہتک عزت کے مروجہ قوانین میں کیوں تبدیلیاں اور ترمیمات نہیں کرتی؟ اُسے یہ قوانین جَلد تبدیل کرنے چاہئیں۔ یہ امریکی سیاستدانوں کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘ پھر انھوں نے بڑے رسان سے کہا: ’’افسوس، باب وُڈ وارڈ کو میری شاندار کامیابیوں کا ادراک ہی نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب اِس شخص کی ایک اور بُری کتاب ثابت ہو گی۔‘‘ ممکن ہے بُری کتاب ہی ثابت ہو لیکن کتاب میں متعدد واقعات اور شہادتوں کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ’’بے خبر‘‘ اور ’’ذہنی و جذباتی طور پر ایک ڈانوا ڈول‘‘ شخص ہے۔ امریکی اخبار(واشنگٹن پوسٹ) کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ’’ٹرمپ کی صدارت نروس بریک ڈاؤن‘‘کا شکار ہو چکی ہے۔‘‘ کہا جارہا ہے کہ وہائیٹ ہاؤس کے اندر سے اُن کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ 5 ستمبر 2018ء کو مشہور امریکی اخبار کے ادارتی صفحے پر The Quiet Resistance Inside the Trump Administrationکے زیر عنوان جو بے نامی آرٹیکل شائع ہُوا ہے، اس نے تو امریکی صدر کے پرخچے اُڑا دئیے ہیں۔

اطلاعات یہ ہیں کہ وہائیٹ ہاؤس کے اندر ہی موجود کسی شخص کی یہ کارستانی ہے لیکن نائب امریکی صدر مائیک پِنس، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیؤ اور امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس بیک زبان کہہ رہے ہیں کہ یہ مضمون انھوں نے نہیں لکھا ہے۔امریکی صدر کے خلاف یہ آرٹیکل (جسے غداری پر محمول کیا جارہا ہے) پھر کس نے لکھا ہے؟ اخبار مذکور بھی اِس راز سے پردہ اُٹھانے پرتیار نہیں ہے۔ اس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے: ’’یہ آرٹیکل غداری ہے۔اگر لکھنے والے کا کوئی وجود ہے تو قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ اخبار اُسے فی الفور حکومت کے حوالے کرے۔‘‘ لیکن ٹرمپ صاحب کی کوئی سُن ہی نہیں رہا۔ ایسے میں باب وُڈ وارڈ کی کتاب(FEAR)پر لوگ کیوں نہ یقین کریں کہ امریکی صدر خوف کے گمبھیر سایوں میں گھِر چکے ہیں۔ شاید یہ انہی خوف کے سایوں کا شاخسانہ ہے کہ امریکی صدر نے بیک وقت شام، ترکی، روس، چین اور ایران سے تعلقات دانستہ بگاڑ رکھے ہیں۔ افغانستان سے بھی اُنہیں کوئی ٹھنڈی ہوا نہیں آرہی۔ افغان طالبان نے تو اُن کی ناک میں دَم کر رکھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔