پاک بھارت تعلقات ، برف پگھلنے لگی

ایڈیٹوریل  بدھ 29 مئ 2013
وزارت پانی و بجلی کے مطابق بھارتی رضامندی منموہن، نواز رابطوں کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

وزارت پانی و بجلی کے مطابق بھارتی رضامندی منموہن، نواز رابطوں کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

مسائل وآلام میں گرفتارعوام اپنا حق رائے دہی انتخابات میں استعمال کرنے کے بعد خاصے پرامید ہیں کہ نئی حکومت انھیں ریلیف مہیا کرے گی۔ دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر عالمی لیڈروں نے متوقع وزیراعظم میاں نوازشریف کو نہ صرف نیک خواہشات کے پیغامات دیے ہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی نوید بھی سنائی ہے ۔

اسی سلسلے میں ایک خوش آیند پیغام بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کی جانب سے بھی آیا ہے کہ وہ پاکستان بھارت رشتے میں بہتری کے لیے دہشت اور تشدد سے پاک ماحول میں بننے والی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے انتظار میں ہیں۔اس سے قبل نواز شریف الیکشن میں کامیابی کے فورا بعد بھارت سے بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں ۔نئے عالمی تناظر اور زمینی حقائق کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آتی اس وقت تک خطے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔

ماضی میں غیرریاستی عناصر کی متشددانہ کارروائیوں کے نتیجے میں مذاکرات کے عمل میں تعطل پیدا ہوگیا تھا ۔ لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کو اس بات کا ادارک ہوگیا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ، بلکہ امن دونوں ممالک کی فوری ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف خلوص نیت سے پیش قدمی نہیں کرتا خطے میں پائیدار امن کا خواب عبث ہے ۔ یہ صرف پاکستان کا موقف نہیں ہے بلکہ انقرہ میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس میں 60 ممالک کے 200 مندوبین نے قرارداد کے ذریعے ہندوستان سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت فراہم کرے۔

مزید تفصیلات کے مطابق قرارداد میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ ہندوستان کی 8 لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے،اس کو فوری طورپر بند کیا جائے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ اور اس کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے ۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کا متنازع وولر بیراج کی انسپکشن کا مطالبہ مان لیا ہے اور پاکستان کا 3 رکنی وفد مقبوضہ کشمیر روانہ ہوچکا ہے ۔

وزارت پانی و بجلی کے مطابق بھارتی رضامندی منموہن، نواز رابطوں کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ بھارت وولر جھیل پر بیراج بنا کر دریائے جہلم کا پانی کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی پانی کے بحران کا شکار ہے چہ جائیکہ بھارت مزید بیراج اور ڈیم بنا کر عالمی قوانین کی پامالی کرے اس سے بہتر ہے کہ پالیسی کا ازسرنوجائزہ لے کر پاکستان کے مطالبات پر کان دھرے جائیں ۔ادھر بھارتی ہائی کمشنر شرت سبھروال نے نوازشریف کے پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے بیان کو خوش آیند قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت ویزا معاملات کی ایک کے علاوہ تمام شقوں پر عملدرآمد ہو چکا ہے۔

گروپ ٹورسٹ ویزا پر عملدرآمد کے لیے دونوں ملکوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ پانچ سو میگاواٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچھانے پر بات چیت ہوئی ہے۔ مزید برآں بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ جامع مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے مگر اس کے لیے پاکستان کو ہمارے خدشات دور کرنا ہونگے۔ بیانات سے ہٹ کر بھارتی حکام کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دونوں ممالک کے عوام جنگ نہیں چاہتے بلکہ وہ اچھے ہمسایوں کی طرح مل جل کر رہنا چاہتے ہیں لہذا عوام کو ساتھ لے کر چلنے سے خطے میں حقیقی امن قائم ہوگا اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔