احتساب

نصرت جاوید  بدھ 29 مئ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میں اس بحث میں ہرگز اُلجھنے کو تیار نہیں کہ ریٹائرڈ ایڈمرل فصیح بخاری کی بطور چیئرمین احتساب بیورو تعیناتی اخلاقی یا قانونی حوالوں سے غلط تھی یا درست۔ سوال میرا تو صرف اتنا ہے کہ دُنیا میں اور کتنے جمہوری ممالک ہیں جہاں نام نہاد کرپشن کو ختم کرنے کے نام پر احتساب بیورو جیسے سفید ہاتھی کھڑے کیے جاتے ہیں۔

نواز شریف صاحب جب دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو سیف الرحمن نامی شخص کو اس ادارے کا سربراہ بنایا گیا۔ اپنے عہدے پر فائز ہوجانے کے بعد انھوں نے کئی بار مجھے اپنے دفتر بلوایا اور فائلوں کا ایک انبار لگاکر مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ کس جانفشانی سے انھوں نے دن رات محنت کرکے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی مبینہ کرپشن کے بارے میں ٹھوس ثبوت اکٹھے کرلیے ہیں۔ میرے ان سے بے تکلفانہ تعلقات ہرگز نہ تھے۔

ان کی جنونی گفتگو بڑے احترام سے سننے کے بعد صرف اتنا عرض کرتے ہوئے اُٹھ آتا کہ اگر کسی تفتیش کار کو کسی شخص کی کرپشن کے بارے میں ٹھوس ثبوت مل جائیں تو پھر رپورٹروں کے بجائے عدالتوں سے رجوع کرکے سزا دلوائیں۔ مگر وہ تو کوئی ایسی شے کرنا چاہ رہے ہیں جو میری لغت میں ’’میڈیا ٹرائل‘‘ کہلایا جاتا ہے۔

سیف الرحمن نے پھر بھی میری جان نہ چھوڑی۔ ایک مرتبہ مجھے پاکستان ٹیلی وژن کے اسلام آباد سینٹر میں بنے جنرل منیجر کے کمرے میں طلب کیا۔ وہاں پہنچا تو میرے بہت سارے محترم صحافی ساتھی پہلے سے موجود تھے۔ ہم سب کے سامنے انھوں نے بڑے جوش سے اعلان کیا کہ وہ روزانہ پاکستان ٹیلی وژن پر ایک شو کرنا چا ہتے ہیں جس کے ذریعے ان کے بیورو کے پاس ثبوتوں کی بنیاد پر بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی ’’کرپشن کہانیاں‘‘ بے نقاب کی جائیں گی۔

میری عمر کے لوگوں کو وہ دن اب بھی یاد ہیں جب لاہور کے لکشمی چوک میں کچھ ریستوران ہوا کرتے تھے جہاں کچھ لوگ فلموں کی کہانیاں بڑے ڈرامائی انداز میں اپنے منہ سے عجیب وغریب آوازیں نکال کر سنایا کرتے تھے۔ یہ فلمیں ایسے لوگ نہ صرف خود لکھنا بلکہ ڈائریکٹ بھی کرنا چاہتے تھے۔ چند ایک نے تو رانی، وحید مراد یا محمد علی وغیرہ کو اپنی فلم میں کردار ادا کرنے کے لیے دل ہی دل میں چن رکھا تھا۔ تلاش لیکن اس شخص کی تھی جو یہ فلم بنانے کے لیے سرمایہ فراہم کرسکے۔ میں برسوں ایسے کچھ لوگوں سے بہت ساری فلموں کی کہانیاں اول سے اختتام تک سین تا سین سنتا رہا۔

مگر ان بدنصیبوں کو سرمایہ کار نہ مل سکے۔ ان میں سے اکثر بعدازاں مختلف نشوں کی لت میں مبتلا ہوکر اگلے جہاں چلے گئے۔ پتہ نہیں کیوں سیف الرحمن صاحب کو اس دن PTVکے اسلام آباد مرکز میں دیکھ کر مجھے وہ لوگ ایک ایک کرکے یاد آنا شروع ہوگئے۔ اچانک ان کو خیال آیا کہ میں بھی وہاں موجود ہوں اور غالباََ ان کی باتوں کو غور سے نہیں سن رہا۔ سیف الرحمن نے مجھے اپنی رائے دینے پر مجبور کردیا۔ میں نے مصنوعی گرم جوشی سے انھیں بتانا شروع کردیا کہ وہ جو پروگرام کرنا چاہ رہے ہیں اس کا ٹائٹل بڑا ڈرامائی ہونا چاہیے۔

جس میں اندھیرا ہو، بھاری بوٹوں کی آوازیں اور پھر چھن سے اسکرین پر آسمان سے گرتی ہتھکڑی۔ سیف الرحمن میرا تجویز کردہ منظر نامہ سن کر عش عش کر اُٹھے۔ ان کے دائیں ہاتھ ایک صاحب بڑی رعونت سے بیٹھے ایک غیر ملکی اور کافی نایاب اور مہنگے سگریٹ کی ڈبیا سے سگریٹ کے بعد سگریٹ نکال کر پی رہے تھے۔ انھیں میرا رویہ پسند نہ آیا۔ انھوں نے میری تجویز کو ویٹو کردیا۔ میں بھی رہ نہ سکا۔ ان سے تعارف کی فرمائش کربیٹھا مگر ان کے بولنے سے پہلے سیف الرحمن نے خود ہی بڑے فخر سے انکشاف کیا کہ وہ صاحب ان کے ’’رائٹ ہینڈ مین‘‘ ہیں جن کا نام حسن وسیم افضل ہے۔

پھر اس شخص کے کہنے پر ایف آئی اے اور اسلام آباد پولیس کی ایک ٹیم نے اس گھر پر دشمن ملکوں کی افواج کی طرح چھاپہ مارا جہاں پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اپنے کم سن بچوں کے ساتھ اکیلی رہ رہی تھیں۔ مقصد ان کے شوہر ڈاکٹر ذوالفقارمرزا کو گرفتار کرنا اور اس گھر سے ان کے خلاف ثبوت اکٹھے کرناتھا۔ میں نے اس چھاپے کی داستان لکھ ڈالی۔

اس کے بعد ہر دوسرے تیسرے ہفتے مجھے کافی باعزت گھرانوں کی سرخ آنکھوں کے ساتھ روتی عورتوں سے ایسے مزید چھاپوں کی کہانیاں سننی اور لکھنا پڑتیں۔ ان کہانیوں سے تنگ آکر میں نے سیف الرحمن کو ’’احتساب الرحمن‘‘ لکھنا شروع کردیا۔ وہ میری گستاخیوں پر چراغ پا ہوگئے۔ مجھے سبق سکھانا چاہا۔ مجھے خوفزدہ کرنے کے لیے ایف آئی اے کی دو کرولا گاڑیاں میری بیوی اور مرحومہ ساس کا سائے کی طرح پیچھا کرتیں حتیٰ کہ جب وہ میری تین سالہ بچی کے لیے دوائیں وغیرہ لینے سوزوکی آلٹو میں بازار جارہی ہوتیں۔ خدا بھلا کرے مشاہد حسین سید کا جنہوں نے نواز شریف صاحب کو میری اذیت کے بارے میں بتایا۔ چوہدری نثار علی خان، خواجہ آصف اور شہباز شریف صاحب نے بھی اپنے اپنے انداز میں میری جاں بخشی کروائی۔

جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جنرل امجد کو جو اختیارات دیے تھے ان کا بے رحمانہ استعمال بھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ہاتھوں سے لکھا۔ ان دونوں حضرات کی پھرتیوں کا بالآخر نتیجہ کیا نکلا؟ نواز شریف صاحب نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے میثاقِ جمہوریت کیا اور جنرل مشرف نے دوبئی جاکر محترمہ سے NROکے لیے مذاکرات۔ میں ہرگز کرپشن کا حامی نہیں۔ ریاستی اقتدار کے بل بوتے پر حرام کھانے والوں کا عبرت ناک انجام ہونا چاہیے۔

مگر اس کے لیے ایک خاص ادارہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔FIAنام کا ادارہ پہلے ہی موجود ہے۔ اسے وزیرداخلہ کے بجائے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے آگے جوابدہ بنادیجیے۔ اس کمیٹی میں قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندے بیٹھے ہوتے ہیں ۔

ان نمایندوں کے سامنے آڈیٹر جنرل پر حکومتی ادارے میں ہونے والی ممکنہ بدعنوانیوں کا ریکارڈ پیش کرتے ہیں۔ اس ریکارڈ کی بنا پر ایف آئی اے کے لوگ آگے بڑھیں اور ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ بدعنوان سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو ہماری آزاد اور مستعد عدالتوں سے سخت سے سخت سزائیں دلوائیں۔ کرپشن روکنے کی نیت صاف ہوتو FIA اس کام کے لیے کافی ہے۔ احتساب بیورو کا روگ پالنے اور انتقامی تماشے دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔