ایک صدی کی آواز

مقتدا منصور  بدھ 29 مئ 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اس وقت میرے سامنے سندھ کے عظیم سپوت اور بے مثل دانشور سائیں ابراہیم جویو کی زندگی پر تحریر کردہ ضخیم کتاب ’’ ایک صدی کی آواز‘‘ رکھی ہوئی ہے، جو ہمارے محترم سید مظہر جمیل کی انتھک محنت اور عرق ریزی کا نتیجہ ہے۔

ہم لوگ جو اندرونِ سندھ سے تعلق اورترقی پسند فکری رجحانات سے وابستگی رکھتے ہیں، ہمارے سیاسی وسماجی شعورکے پروان چڑھنے میںجن محترم شخصیات کے گہرے اثرات ہیں،ان میں ابراہیم جویوکی ذات سرفہرست ہے۔ صرف ہماری اور ہم سے پچھلی نسل پر ہی موقوف نہیں ہے، بلکہ سندھ میں آباد اردو اور سندھی زبانوں کے ترقی پسند دانشوروں،قلمکاروں، صحافیوں اورسیاسی کارکنوں کی تین نسلوں کی فکری آبیاری میںکہیں بالواسطہ کہیں بلاواسطہ سائیں ابراہیم جویوکانمایاں کردار رہاہے اور یہ سلسلہ یقینی طورپر اگلی نسلوں تک منتقل ہوتا نظر آرہا ہے ۔

ہمارے لیے یہ بات باعث فخر اور طمانیت ہے کہ سید مظہر جمیل نے یہ سوانح تحریرکرکے سندھ کے ان تمام ترقی پسند اور قوم پرست دانشوروں کے سرفخر سے بلند کردیے ہیں، جو سائیں ابراہیم جویو کو اپنا فکری گرو اور رہنماء مانتے ہیں۔اس لیے سب سے پہلے تو مظہرجمیل کو مبارکباد کہ انھوں نے ایک ذمے داردانشور کے طورپر یہ کتاب لکھ کر سندھ کی علمی اور ادبی تاریخ میں اپنا حصہ ڈالاہے اورسندھ سے اپنی والہانہ وابستگی کا ثبوت دیا ہے۔

سید مظہرجمیل بائیں بازو سے کمٹ منٹ رکھنے والے ایک ایسے سچے اور کھرے قلمکار ہیں،جنہوں نے اردو کے علاوہ سندھی زبان و ادب کاگہرامطالعہ کیا ہے اور اپنی تحریروں سے ہمیشہ دونوں زبانوں کے قارئین کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی سنجیدہ اور پرخلوص کوشش کی ہے۔وہ ایک ایسے دانشور ہیں جنہوں نے نسل پرستی اور شاؤنسٹ رجحانات کا ڈٹ کرمقابلہ کیاہے اور ترقی پسندی پر مبنی قومی پرستی کوپروان چڑھانے میں اپناکردار اداکیاہے۔

ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق ’’ ایک دانشور کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کسی بحران، کشمکش اور انتشار کے زمانے میں اپنے سماج میں قومی شعور پیدا کرے اور بکھرے ہوئے سیاسی اداروں اور روایات کو ایک جگہ اکٹھا کرے،تاکہ وہ تاریخ کے رواں سفر میں اپناحصہ ڈال سکیں۔‘‘ ڈاکٹر فہمیدہ حسین کے مطابق ’’ سیدمظہر جمیل ہمارے عہد کے اردو داں دانشوروں میں سب سے بڑے سندھی داں ہیں۔انھوں نے سندھی ادب کے جدید ترقی پسند دور کی ایک نہایت وقیع اور مدبر شخصیت سائیں ابراہیم جویو پر کتاب لکھ کر ایک بار پھر سندھ کے علمی اور ادبی حلقوں میں خود کومنوانے کے علاوہ سندھ سے وابستگی کانیا رشتہ استوار کیا ہے۔‘‘

سندھ میںگزشتہ چند دہائیوں کے دوران خرد افروزی، روشن خیالی اورترقی پسندی پر مبنی قوم پرستی کا جو رجحان سامنے آیا ہے، اسے پروان چڑھانے میں جو کئی بڑے نام سامنے آتے ہیں،انھی میں ایک انتہائی قدآوراور محترم نام ابراہیم جویوکا ہے۔جنہوں نے خاموشی کے ساتھ اپنے قلم کی طاقت سے اس جذبے کی تعمیر وتربیت کی ہے۔تقسیم ہند سے قبل ان کی معرکۃ الآرا تصنیف Save Sindh-Save Continentنے سندھی نوجوانوںمیں قوم پرستی کو ترقی پسندانہ سوچ کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کا شعور پیدا کیا۔

یہ ان کی تحریروں ہی کا ثمر تھاکہ سندھی عوام قوم پرستی کے آدرش کو سمجھنے اور اس کے حصول کے لیے جدوجہدکی اہمیت سے آگاہ ہوئے۔یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ابراہیم جویو،ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں،جنہوں نے ایک بے مثل ادیب،روشن خیال دانشور اور ترقی پسند قوم پرست کے طورپر سندھی قوم پرستی کو تنگ نظری کے غار سے نکال کر اس میں وسیع القلبی کے جوہر کو شامل کیا۔سیکیولرازم کی سندھ اور ہند کے سماجی وثقافتی تناظر میں ازسرنو تعریف کی ہے۔ روشن خیالی، عقلیت پسندی اور دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی روایت کوایک نئی جہت عطا کی اورمنطقی استدلال کو فروغ دیا۔

اس کے علاوہ جویوصاحب سندھی ادب کو جدید عالمی ادبی رجحانات سے ہم آہنگ کرنے اور اس کے فکری میلانات میں وسعت لانے والے عظیم دانشور ہیں ۔انھوں نے اپنی 97 برس کی زندگی کا بیشتر حصہ انسان دوستی کے فروغ ،سندھی زبان کی ترویج اور سندھی ادب کے فروغ پرصرف کیا ہے۔

1940کے عشرے میں جب وہ سندھی ادبی بورڈ کے رکن منتخب ہوئے تو انھوں نے اس ادارے میں ہونے والے تحقیقی اور تخلیقی کام کومزید فعال بنانے کے لیے ایک سہ ماہی جریدے کے اجراء کی تجویز پیش کی،جو1946 میں مہران کے نام سے شروع ہوا۔لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب اس کی ادارت ابراہیم جویوصاحب کو ملی، تو انھوں نے اس جریدے کو سندھی زبان کاپہلا معیاری ادبی رسالہ بنادیا، جس میں سندھی زبان، ادب،تاریخ، تہذیب وثقافت اور معاشرت پر تحقیقی اور تخلیقی مضامین کے علاوہ ناول، افسانے،ڈرامے،تنقید ،شخصیت نگاری اور شاعری شایع ہوناشروع ہوئی ۔

چونکہ ان تمام مضامین اور شاعری کا انتخاب جویو صاحب خود کیا کرتے تھے،اس لیے اس جریدے کا معیار کسی بھی عالمی سطح کے ادبی رسالے سے کم نہ تھا۔ان کی اس کوشش کے نتیجے میں ایک طرف سندھی ادیبوں اور قلمکاروں کو طبع زاد ادب تخلیق کرنے کاموقع ملا اورنئے لکھنے والوں کے لیے گنجائش (Space)پیدا ہوئی۔جب کہ دوسری طرف مختلف زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کے سندھی میںترجمے کی وجہ سے سندھی زبان اور ادب کی وسعت میں اضافہ ہوا۔

سائیں ابراہیم جویو کا دوسرا اہم کارنامہ سندھی ادبی سنگت کا قیام تھا، جس نے نوجوان سندھی قلمکاروں کواپنی تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنے اور انھیں اپنی ادبی کاوشوں کو عوام تک پہنچانے کا موقع فراہم کیا۔اس طرح قیامِ پاکستان کے بعد ہمیں سندھی ادیبوں اور دانشوروں کی جو کھیپ نظر آتی ہے اور ان میں سے بیشتر جوبلند ترین مقام تک پہنچے ہیں ،ان کاکسی نہ کسی حوالے سے سندھی ادبی سنگت سے تعلق رہاہے۔لہٰذایہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سندھی نوجوانوں میں سندھی ادب وثقافت سے لگاؤاور ترقی پسندانہ قومی پرستی کاشعوربیدارکرنے میں ان کی کاوشوں اور محنت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔یہ ادارہ آج تک سندھی ادب کی ترویج میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔

سائیں ابراہیم جویو کے ادبی اور سیاسی رجحانات کو سمجھنے کے لیے سندھ کی بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدگی کی تحریک کو سمجھنا ضروری ہے۔1843میں سندھ پر قبضے کے بعدجب انگریز حکمرانوں نے اس سابقہ مملکت کو بمبئی پریذیڈنسی کا حصہ بنایا تو اہل سندھ سراپا احتجاج بن گئے اور انھوں نے اپنی علیحدہ شناخت کی بحالی کے لیے92برسوں پرمحیط پرامن تحریک چلائی،جو1935 میں اس وقت ختم ہوئی، جب انگریز حکومت نے سندھ کی سابقہ حیثیت بحال کردی۔

یہ جدید سندھی قومی پرستی کا آغاز تھااور برصغیر کی پہلی پرامن اور طویل ترین قومی تحریک تھی، جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔جس وقت یہ تحریک اپنے عروج پر تھی، سائیں ابراہیم جویو لڑکپن سے جوانی کی حدود میں قدم رکھ رہے تھے۔اس لیے ان کے ذہن رسا پر اس تحریک کے گہرے اثرات مرتب ہوئے اور ان میں قوم پرستانہ رجحانات کا پیدا ہونا فطری بات تھی۔ مگر چونکہ ابتدائی عمر ہی میں ان کا مطالعہ بہت وسیع ہوچکاتھا اور مارکسزم کے ان پر گہرے اثرات مرتب ہوچکے تھے،اس لیے ان کی قوم پرستی شاونزم سے بہت دور ایک جدید اور حقیقت پسندی پر مبنی قوم پرستی کی شکل اختیار کرگئی۔

انھوں نے محسوس کیا کہ قوم کی شناخت میں ادب کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ مضبوط ادبی اورثقافتی بنیادوں پر استوار قوم پرستی کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔اس لیے انھوں نے اپنی زندگی سندھی ادب وثقافت کے فروغ کے لیے وقف کردی۔آج سائیں ابراہیم جویو اس دھرتی پر بسنے والے تمام باشعوراہل دانش کے لیے انسان دوستی، قومی حقوق کی جدوجہد اور علم وادب کے فروغ کی علامت بن چکے ہیں،جن کے پیرانہ سالی کے باوجود حوصلے جواں ہیں اور وہ سندھ کی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کے لیے آج بھی کوشاں ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مختلف علاقائی زبان میں تخلیق پانے والے ادب اور ان کے تخلیق کاروں کی ادبی کاوشوں اور تخلیقات سے ناواقف رہتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نہیں،جو سندھی، پشتو، بلوچی، براہوئی ، سرائیکی،ہندکو اور پنجابی زبان میں تخلیق ہونے والے ادب کاترجمہ کرکے ملک کے طول وعرض میں پھیلانے کی کوشش کرتا ہو۔

بہر حال سید مظہر جمیل کوسلام ہے کہ انھوں نے سندھی دھرتی کے اس عظیم سپوت کی سوانح ’’ایک صدی کی آواز‘‘ اردوزبان میںلکھ کرصرف سندھی عوام پر احسان نہیں کیا ہے، بلکہ پورے پاکستان کے امن نوازاور ادب دوست حلقوں کو اس عظیم انسان کی97برس کی کاوشوں اور خدمات سے روشناس کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ 750صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب محکمہ ثقافت سندھ نے شایع کی ہے،جو ملک کے تمام کتاب گھروں میں دستیاب ہے اور محکمہ ثقافت حکومت سے براہ راست بھی منگوائی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔