حکومت اور معاشی چیلنجز

ایم آئی خلیل  بدھ 29 مئ 2013
ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

مسلم لیگ (ن) نے عندیہ دیا ہے کہ اس کی پہلی ترجیح معیشت دوسری ترجیح معیشت اور تیسری ترجیح بھی معیشت ہی ہو گی۔ کیونکہ نئی حکومت کو برسراقتدار آتے ہی سب سے پہلے بہت سے معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لوڈشیڈنگ کا دیو مزید مضبوط اور توانا ہو کر عوام پر ایسے مسلط ہوا کہ عوام گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور ہو گئے۔ کہیں ہنگامے، کہیں مظاہرے، کہیں پولیس مقابلہ، کہیں توڑ پھوڑ اس طرح کے مناظر ملک بھر میں نظر آنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی مختلف علاقوں میں گیس اور پانی کی قلت کا مصنوعی بحران پیدا کر کے بدامنی کی فضا کو کمک فراہم کر دی گئی۔ اس طرح مختلف اقسام کے معاشی چیلنجوں کے ساتھ نئی حکومت ایوان اقتدار میں داخل ہو رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کو قابو کرنے کے لیے جان لڑانی پڑے گی۔ ایک طرف معیشت ہے کہ نوحہ کناں ہے۔ بیروزگاری کا عفریت بے لگام ہو چکا ہے۔ غربت کی اتھاہ گہرائی میں عوام کا جم غفیر اس کھائی میں کودے چلا جا رہا ہے۔ بعض اعدادوشمار کے مطابق کہیں 60 فیصد آبادی نان شبینہ کی محتاج ہے اور کہیں 10 کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قرضوں کا بوجھ روز بروز بڑھ رہا ہے ہر شہری 75 ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ تجارتی خسارہ مجموعی برآمدی مالیت سے زیادہ ہو رہا ہے۔ کہاں دنیا بھر میں 15 ہزار ارب ڈالر سے زائد کی تجارت ہو رہی ہے وہاں دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹے بڑے ملک کی برآمدات محض 25 ارب ڈالر کی ہیں۔

توانائی کے مسائل کے باعث گزشتہ 5 سال میں مجموعی قومی پیداوار میں دو فیصد سالانہ کے حساب سے کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح ملک کو اقتصادی ترقی کی شرح میں 10 فیصد نقصان ہوا ہے، ایک اور اہم معاشی چیلنج جس کا سامنا نئی حکومت کو فوراً کرنا ہو گا کہ جون کے آخر تک آئی ایم ایف سے حاصل کردہ سود اور قرضوں کی قسط کے لیے ایک ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ البتہ یہ بات خوش آیند ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 6.37 فیصد اضافہ ہوا ہے، امید ہے کہ نواز شریف بیرون ملک پاکستانیوں کو اس طرف مزید راغب کر سکیں گے۔ ایک اور معاشی چیلنج حکومتی قرضوں سے متعلق ہے کہ انھیں کیسے کم کیا جائے؟ حکومت نے بجٹ سپورٹ پروگرام کے لیے ایک ہزار ارب روپے سے زائد قرضے لیے۔

نگراں حکومت نے کمرشل بینکوں سے اگر قرضے کم لیے ہیں تو دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے لیے گئے قرضوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں کمرشل بینکوں سے نگرانوں نے 12 فیصد قرضے کم لیے تو مرکزی بینک سے لیے گئے قرضوں میں 98 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ گزشتہ ہفتے تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس 6 ارب 38 کروڑ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 5 کروڑ ڈالر کے فارن ریزروز موجود تھے۔ جو انتہائی تشویش ناک صورت حال کی عکاسی ہے، اسی دوران جولائی 2012 تا اپریل 2013 ملک کے تجارتی خسارے کا تخمینہ 16 ارب 51 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا لگایا گیا ہے، اس طرح زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور تجارتی خسارے میں اضافے نے روپے کو انتہائی نحیف و ناتواں کر دیا ہے۔ معلوم نہیں ہوتا کہ روپیہ کی قدر اب کتنی رہ گئی ہے۔ اس کی قدر اب چند پیسوں کی بھی نہ رہی۔

نئی حکومت کے لیے روپے کی گرتی ہوئی قدر کو روکنا ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ اس کے لیے دیگر امور کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ رواں مالی سال توانائی بحران امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر جولائی 2012 تا اپریل 2013 محض 20 ارب 14 کروڑ ڈالر کی برآمدات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جب کہ غیر ضروری درآمدات اشیائے تعیش کی درآمدات کو روکنا بھی حکومتی امور میں داخل ہو گا۔ رواں مالی سال کے 10 ماہ کے دوران ملکی درآمدات کا حجم 36 ارب 66 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا لگایا گیا ہے۔

شکستہ توازن تجارت کا مسئلہ ہو یا روپے کی قدر کی کمزوری کا معاملہ یا سسکتی ہوئی معاشی ترقی کی بحالی کی بات ہو یا لوڈشیڈنگ کا عذاب یا امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال یا عالمی منڈی میں پاکستان پر اعتماد کا فقدان یا غیروں کی جنگ میں 80 ارب ڈالرز کا نقصان، برآمدات کی سست روی یا درآمدات کی تیزروی اس طرح کے بہت سے معاشی چیلنجز ہیں جن کا سامنا حکومت کو کرنا پڑے گا۔ ملک اس وقت جس معاشی بحرانی سے گزر رہا ہے اس میں سرمایہ کاروں کی اجارہ داریاں بھی درد سری کا باعث ہے۔ مزدوروں اور تنخواہ دار طبقے کی پست آمدنیاں غربت کا باعث ہیں، ایک طرف بجلی گیس کی بندش کے باعث کارخانوں کی تالہ بندیاں بھی ہیں۔ صنعتکاروں کا بیرون ملک فرار، غیر ملکی صنعتکاروں کا ملک میں آنے سے انکار۔

اس کے ساتھ ہی حکومت کی توجہ کی منتظر تعلیمی حالت زار بھی ہے کہ جہاں نہ اسکول نہ طالب علم نہ استاد۔ جنھیں گھوسٹ اسکول کہتے ہیں یا پھر استاد طالب علم دونوں غیر حاضر اور اسکول کی ٹپکتی ہوئی چھت اور گرتی ہوئی بوسیدہ دیوار تعلیم کی نوحہ گری کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے یا پھر اسکول احاطے میں با اثر افراد کے بندھے ہوئے جانور تعلیمی حالت کا راز فاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسمگلنگ عروج پر رہتی ہے۔ بلیک مارکیٹ زوروں پر رہتی ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کو من مانی کی کھلی چھوٹ ہے کہ جب چاہیں اور جتنی چاہیں اشیاء کی قیمت کا تعین کر دیں۔ کسی شے کی قلت کر کے مرضی سے قیمت میں اضافہ کر دینے کے بعد باوجود یہ کہ اشیاء کی قلت دور ہو جاتی ہے لیکن اس شے کی قیمت میں کمی نہیں ہوتی۔

بہر حال نواز شریف جیسے ہی کرسی اقتدار پر متمکن ہوں گے ان کے اردگرد پھیلے ہوئے بے شمار مسائل میں سے 90 فیصد کا تعلق معیشت سے ہو گا۔ ان معاشی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ماہر ترین وزراء کی ٹیم لائی جائے، اس کے علاوہ کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں کی بھی نمایندگی نمایاں نظر آنی چاہیے تا کہ بستی بستی، قریہ قریہ، شہر شہر کے مسائل کے حل کی ابتداء ہو جائے۔ یہاں پر شعبہ صحت کا ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ملک کے بیشتر سرکاری اسپتالوں کی حالت زار اور وہاں کے عملے کا رویہ ایسا ہے کہ اچھا خاصا صحت مند شخص بھی وہاں جا کر بیمار پڑ سکتا ہے۔

البتہ بعض اسپتالوں کا عملہ فرض شناس بھی ہے۔ بعض اوقات صحت سے متعلق ان اداروں کے مسائل اتنے گھمبیر نظر آتے ہیں کہ ایسا معلوم دیتا ہے کہ یہاں کے مسائل حل ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ یہاں جا کر مریض اپنی صحت کو بھی بھول جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں تو پھر بھی ٹھیک ہو جاؤں گا لیکن یہ ادارے شاید کہ کبھی ٹھیک ہو پائیں گے یا نہیں۔ لہٰذا اگر ان اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں گڈ گورننس قائم کر دی جاتی ہے تو اس سے عوام کی فلاح و بہبود میں اضافہ بھی ہو گا اور عوام کا معیار زندگی بھی بلند ہو گا۔ اس لیے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ معیار زندگی میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے کہ انسانی صحت کے مسائل حل ہوں۔

پاکستان میں ہر دور حکومت میں مختلف معاشی مسائل موجود ہیں۔ حکومتیں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی پالیسی وضع کرتی ہے۔ بعض اوقات یہ معاشی مسائل ملکی معیشت کے لیے عدم استحکام کا باعث بن جاتے ہیں۔ ملکی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنا حکومت کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔ معیشت میں استحکام کی خاطر مالیاتی پالیسی اور زرعی پالیسی دونوں سے مدد لی جاتی ہے۔ مالیاتی پالیسی کے ذریعے حکومت اپنے اخراجات کا تعین، ٹیکسوں کی وصولی اور بجٹ سازی کے امور بھی انجام دیتی ہے۔ نئی حکومت کو جہاں مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا وہیں فوری بجٹ پیش کرنے کا عمل بھی ہو گا۔ بجٹ پیش ہوتے ہی یہ معلوم ہو جائے گا کہ نئی حکومت پیش آمدہ کئی معاشی چیلنجز کو حل کرنے کی خاطر کیا طریقہ کار اپناتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔