ایک ٹانکہ بروقت لگا لیجیے

عدیل احمد  منگل 18 ستمبر 2018
عوام کو عزت دلانے کی جو آس آپ نے دی تھی اسے بروقت کارروائی یا لب کشائی سے پورا کرکے وقت پر ایک ٹانکہ لگا لیجیے۔ (فوٹو: فائل)

عوام کو عزت دلانے کی جو آس آپ نے دی تھی اسے بروقت کارروائی یا لب کشائی سے پورا کرکے وقت پر ایک ٹانکہ لگا لیجیے۔ (فوٹو: فائل)

میں اضطراب اور گومگو کی کیفیت میں ہوں، بلاگ لکھنا چاہ رہا ہوں لیکن شروع کرنے کو الفاظ ندارد ہیں۔ لکھنے کو موضوع ہے لیکن کہاں سے شروع کریں؟ سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ عجب کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت برسر اقتدار آچکی ہے۔ اتنا وقت ابھی آئے ہوئے ہوا نہیں کہ اس پر تنقید کا سلسلہ شروع کیا جائے کیونکہ کام تو ستر سال کا بگڑا ہے، سات دنوں یا ہفتوں میں تو سدھرنے والا نہیں۔ کچھ معاملات ہیں جو بظاہر معمولی ہیں لیکن بہت خطرناک دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک معروف تجزیہ نگار حسن نثار اکثر فرماتے ہیں کہ مسلمان حکمرانوں کو دولت اور طاقت ہضم نہیں ہوتی، انہیں بد ہضمی ہوجاتی ہے۔ تو بدہضمی کا یہ سلسلہ نئے پاکستان میں بھی شروع ہو چلا ہے۔

بدہضمی کہہ لیجیے یا بددماغی، نئے پاکستان میں پرانے کردار کھل کر سامنے آنے لگے ہیں اور ’’تبدیلی حکومت‘‘ کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ ٹھیک ہے جناب، ہم آپ سے ابھی نہیں پوچھتے کہ 200 ارب ڈالرز پاکستان میں واپس آرہے تھے وہ کیوں نہیں آئے؟ جابز کب ملیں گی؟ گھر بننا کب شروع ہوں گے؟ ایسا کوئی سوال ابھی ہم نہیں کرتے کیونکہ ہر ذی شعور کو یہ تو معلوم ہے کہ یہ دعوے ہاتھی کے دانت ہیں جو کھانے اور، دکھانے کے اور ہوا کرتے ہیں۔ ہم نے تو ان پر یقین ہی نہیں کیا چنانچہ امیدیں ٹوٹنے کا سوال ہی نہیں جو آپ سے سوال کرسکیں۔ لیکن کچھ کام ہیں جو ’’اوور نائٹ‘‘ کیے جاسکتے ہیں۔ جن میں سے کچھ اچھے کام آپ نے کیے بھی ہیں۔ صوابدیدی فنڈز کا خاتمہ، پروٹوکول لینے سے انکار اور اخراجات میں کمی، یہ کام آپ فوراً کرسکتے تھے، وہ کردیئے۔ بہت اچھا کیا۔ سوال یہ ہے کہ مزید بھی کچھ دعوے تھے جو اوور نائٹ ہی کیے جاسکتے ہیں، وہ کیوں نہ ہوئے؟

نواز شریف کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کے جواب میں آپ نے ’’ووٹر کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ آپ ہی کی جماعت کے ایک ایم پی اے عمران علی شاہ نے آزادی کے دن ووٹر کو اس کے رخساروں پر ایسی عزت دی کہ وہ سنبھال نہ سکا۔ شاید ہم بے عزتی کے اتنے عادی ہو چکے ہوں گے کہ ایم پی اے کی جانب سے دی گئی عزت راس نہ آئی ہوگی۔ پھراتنی عزت دینے کے بعد عمران علی شاہ کو معافی مانگنی پڑی اور پارٹی کو نمائشی اقدامات کرنے پڑے تاکہ اپنی عزت سنبھالی جاسکے۔

خاور مانیکا بھی پولیس افسر کوعزت دینے پاکپتن کی سڑکوں پر نکل پڑے تھے اور ڈی پی او کی عزت افزائی کرا دی۔ وزیر اطلاعات پنجاب وضاحتیں دیتے پھرے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔

وفاقی وزیر ریلوے اپنی دھاک جمانے کےلیے تضحیک آمیز لہجے میں افسران کو جھاڑ پلاتے رہے۔ جواباً ایک سینئر بیوروکریٹ نے ان کی بھی طبیعت صاف کی تو اسے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ موصوف کسی ہیرو کی طرح راولپنڈی کی سڑکوں پر گھومتے رہے اور موٹر سائیکلیں سڑک پر کھڑی دیکھ کر غصہ ہوگئے اور بیچارہ ٹریفک وارڈن اس غصے کو رام کرنے کے چکر میں نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نجانے آج کل مریخ پر رہنے لگے ہیں یا انہوں نے مبالغہ آرائی میں حالیہ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے کہ وہ عجیب عجیب باتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ ہیلی کاپٹر کا فی کلومیٹرخرچ پچپن روپے آتا ہے تو پاکستان کے شہروں کےلیے ہیلی کاپٹر رکشا سروس کب شروع کی جارہی ہے؟ کفایت شعاری کی جو مہم شروع کی گئی ہے اس میں اکیاون ارب روپے روز بچت ہو رہی ہے۔ کوئی محترم وزیر صاحب سے پوچھے کہ مریخ کے حالات بتانے لگے ہیں یا عوام کو بیوقوف بنانے کا ٹھیکا اب آپ کو دے دیا گیا ہے؟

محترم وزیراعظم جناب عمران خان، آپ کے ان مہروں کو عوام نے آپ کے بھروسے پر ووٹ دیا تھا۔ ان پٹے ہوئے مہروں کو عوام اچھی طرح جانتے تھے لیکن آپ کے دعووں کی بدولت، آپ ہی کے کہنے پر انہیں دوبارہ موقع دیا۔ انہیں لگام دینا، قابو میں رکھنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ ووٹر کو عزت دینے کا فرض اب آپ کے ہاتھوں پورا ہونا ہے۔ انہیں اور ان جیسے دیگر کے دماغوں کو سیدھا کیجیے۔ عوام کو عزت دلانے کی جو آس آپ نے دی تھی اسے ان واقعات پر کارروائی یا لب کشائی سے پورا کیجیے۔ وقت پر ایک ٹانکہ لگا لیجیے، بعد کے دس ٹانکے لگانے سے بہتر ہوگا۔ اگر یہی خاموشی رہی اور ابھی اس کا سدباب نہ کیا گیا تو آپ کے ووٹرز کا شعور بھی بیدار ہے اور اب وہ بھی ’’عوامی نمائندوں‘‘ کو ’’عزت‘‘ دینے کے ہنر سے آشنا ہوچکے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عدیل احمد

عدیل احمد

مصنف جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں جبکہ بین الاقوامی تعلقات میں بی اے کرچکے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے میں خصوصی دلچسپی ہے رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔