منٹو پہلے پاگل ہوا اور پھر مر گیا

نصرت جاوید  بدھ 15 اگست 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

مرنے والے صرف آپ کے تصور میں آ سکتے ہیں۔ بہت قریبی عزیز یا دوست رہے ہوں تو آپ کے پاس ان کی بے شمار یادیں ہوتی ہیں۔ سعادت حسن منٹو تو میرے پیدا ہونے سے کئی سال پہلے اس دُنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا جس کی ان سے قربت رہی ہو۔ میرے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے جو مجھے یہ سمجھنے میں مدد دے سکے کہ اپنی موت کے اتنے سالوں بعد حکومت ِپاکستان سے جشن آزادی کے روز نشان امتیاز پانے والوں کی صف میں اپنا نام دیکھ کر سعادت حسن منٹو کیا محسوس کر رہے ہوں گے۔

ناصر کاظمی نے جب لکھنا سیکھا تو ’’اس‘‘ کا نام لکھا تھا۔ میں نے نصاب کی کتابوں کے علاوہ پڑھنا ابن صفی سے شروع کیا تھا۔ پھر ایک دن لاہور کی پنجاب پبلک لائبریری میں منٹو کے افسانوں پر مشتمل ایک کتاب کوئی میز پر رکھ کر چلا گیا تھا۔ میں نے اسے کھولا تو ہکا بکا رہ گیا۔ ابھی تک اپنے جسم میں کانوں کو گرما دینے والی وہ سنسنی محسوس کر سکتا ہوں جو مجھے ’’پھاہا‘‘ پڑھتے ہوئے محسوس ہوئی تھی۔ ’’کالی شلوار‘‘ میں سمجھ ہی نہ پایا مگر منٹو کو پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ دنیا کے ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی طوائفیں اور دلالوں پر مشتمل گروہ ہوتے ہیں‘ وہ بھی انسان ہوتے ہیں‘ ان کے اپنے غم اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں۔

کسی بھی شہری متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے کی طرح مجھے بھی گھر اور اسکول والے ’’تمیز‘‘ سے بات کرنا سکھایا کرتے تھے۔ اپنے علاوہ ہر شخص مجھے نیک پاک اور مقدس سا محسوس ہوتا۔ میں ان سے خوفزدہ اور ڈرا ڈرا رہتا۔ منٹو کی تحریروں نے مجھے بتایا کہ انسانوں کا ایک چہرہ اور رویے وہ ہوتے ہیں جو ہمیں نظر آتے ہیں‘ ان سب کے پیچھے کئی چہرے اور رویے ہوتے ہیں جو اکثر خوش گوار نہیں ہوتے‘ غلاظت اور منافقت سے بھرے ہوتے ہیں‘ انھیں جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔

ادب کے کسی بھی تھوڑے سے سنجیدہ قاری کی طرح میں بالآخر منٹو تک محدود نہ رہا۔ آگے بڑھ گیا۔ کافی عرصے تک یہ سوچتا رہا کہ منٹو آپ کو بچپن کے سادہ ایام سے بلوغت کی اُلجھنوں تک سفر کرتے ہوئے متاثر کرتا ہے۔ وہ بہت ’’Loud‘‘ ہے۔ افسانہ لکھتے ہوئے بے ساختہ تخلیق کے بہائو کے ساتھ گم نہیں ہو جاتا‘ شعبدہ بازی کرتا ہے۔ بڑی کوشش سے اپنی کہانی کو ایک ڈرامائی موڑ پر ختم کر کے ہمیں چونکا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ عالمی ادب کے مشہور ناموں کو تھوڑا بہت پڑھنے کے بعد میں نے ایک حوالے سے منٹو کو Reject کر دیا۔

مگر پھر چند برس پہلے منٹو کی کلیات تین بھاری بھرکم جلدوں میں شایع ہوئیں۔ میری ادب نواز ساس نے انھیں بڑے چائو سے خرید کر اپنے بستر کے سرہانے بنے کتابوں کے شیلف پر بڑے اہتمام سے رکھ دیا۔ ان کے انتقال کے چند ماہ بعد میں گھر میں بالکل اکیلا تھا۔ ان کے بستر پر سو رہا تھا۔ صبح کرنا شام کا جوئے شیر لانے کے مترادف دکھ رہا تھا۔ اچانک میں نے کلیات میں سے ایک جلد اُٹھائی۔ ورق گردانی کرتے ہوئے ’’گنجے فرشتے‘‘ پر رُک گیا۔

منٹو کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ یہ ان کے افسانوں کا نہیں مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے اپنے زمانے کی بڑی مشہور شخصیات کے بارے میں لکھے تھے۔ میں بھی 1985ء سے اپنے زمانے کی کچھ مشہور شخصیات کے بارے میں کبھی کبھار لکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ آج تک پورا سچ لکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ ضیاء الحق بے نظیر بھٹو یا نواز شریف جیسی شخصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے احتیاط برتنا تو سمجھا جا سکتا ہے مگر شرم کا مقام یہ بھی ہے کہ میں لال حویلی یا لال ٹوپی والے مستند مسخروں کے بارے میں بھی پورا سچ لکھنے کی ہمت نہیں پا سکا۔

منٹو جیسے من کے سچے اور دنیاوی ضرورتوں سے محروم ہو جانے کا رسک لیتے ہوئے دیوانے ہی اپنے زمانے کے بڑے بڑے ناموں کا کچا چٹھہ کھول دینے کی جرأت کیا کرتے ہیں۔ بڑے لوگوں کے بارے میں لکھتے ہوئے میرے جیسے منشی ان میں سے دیوتا تراشنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ منٹو انھیں گوشت پوست کی چھوٹی چھوٹی کمینگیاں کرتے انسانی پتلوں کی صورت میں ہمارے سامنے عیاں کر کے رکھ دیتا تھا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ سب کرتے ہوئے وہ اخلاق کے کسی بلند ترین سنگھاسن پر بیٹھا ان کی تحقیر کرتا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ جو جیسا ہوتا ہے ویسا ہی اس کے بارے میں لکھ دیتا۔

مگر اصل سعادت حسن منٹو میں نے ان افسانوں میں دریافت کیا ہے جو اس نے 1947ء کے واقعات کے ذریعے انسانوں کے اندر موجود مکمل وحشت اور بربریت کے امڈ آنے کو بتانے کے لیے لکھے۔ یہ سب لکھتے ہوئے اس کے دماغ کی چولیں ہل گئیں۔ اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود وہ کبھی سمجھ ہی نہ پایا کہ کیسے فسادات میں اپنے خاندان سے بچھڑی عورت ہوس کاروں کے ہاتھوں ہوتی ہوئی اس مقام تک جا پہنچی ہے جہاں صرف ’’کھول دو‘‘ کی پکار اسے خود بخود بے بس خود سپردگی کو تیار کر دیتی ہے۔ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ تو وحشت سے اندھے ہوئے انسانوں سے شدید تر گھن محسوس کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ’’کھول دو‘‘ اور ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ جیسے افسانے نصابوں میں شامل کر کے ہمارے قیام پاکستان کے بعد جوان ہوتی نسلوں کے ذہنوں میں برداشت اور انسان دوستی کے جذبات کو پروان چڑھانے کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑھائے جاتے۔ ہوا اس کے بالکل برعکس۔ منٹو کو 1947ء میں قائم ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نچلی عدالتوں میں ’’فحاشی اور عریانی‘‘ پھیلانے کے الزامات کے تحت رگیدا گیا۔ اس وقت کے نام نہاد ترقی پسندوں نے اسے رجائیت کا دشمن قرار دے کر اپنے سے الگ کر دیا۔ ’’اسلام‘‘ اور ’’اخلاق‘‘ کے ٹھیکے داروں نے اس کے خلاف عدالتوں میں گواہیاں دیں۔ قدرت اللہ شہاب جیسے ’’روحانیت‘‘ کے علمبرداروں نے دیالو افسروں کی طرح اسے برف خانے الاٹ کرنا چاہے۔

نام نہاد ترقی پسندوں کے ٹھکرائے سعادت حسن منٹو کو امریکنوں نے بھی خریدنا چاہا۔ سرد جنگ کے اس ڈالروں بھرے موسم میں اس کو ایک نئے ملک کے ’’حقیقی دوست‘‘ کی حمایت میں مضامین لکھنے کے لیے کہا گیا۔ سعادت حسن منٹو نے ’’انکل سام کے نام خطوط‘‘ لکھ کر وہ سب کچھ بتا دیا جو ہم آج امریکا سے دوستی کے نام پر بھگت رہے ہیں۔

جب سے منٹو کے لیے اعزاز کا اعلان ہوا ہے میرے بہت سارے دوست اپنے مضامین، تبصروں اور کالموں کے ذریعے حکومت کے اس اقدام کو سراہا رہے ہیں۔ منٹو کا ایک خود ساختہ چیلا ہوتے ہوئے میں ہرگز خوش نہیں ہوں۔ کاش کہ اس کا نام نشانِ امتیاز حاصل کرنے والوں کی صف میں ڈالنے کے بجائے اس حکومت نے فیصلہ کر دیا ہوتا کہ گیارھویں اور بارھویں جماعت میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں اور نہ سہی ’’کھول دو‘‘ اور ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ ضرور شامل ہوں گے۔ شاید یہ فیصلہ منٹو کے لیے تحسین کا سب سے بڑا قدم ہوتا۔

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ منٹو کے خاندان ہی میں سے دُنیا بھر میں جانی پہچانی تاریخ دان ڈاکٹر عائشہ جلال کو کہا جائے کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کتابیں اور مضامین لکھتی چلی جائے۔ صرف یہ بتانے کہ منٹو کثرت شراب نوشی سے نہیں 1947ء کے فسادات میں شرمناک حد تک عیاں ہونے والی انسانوں کی جبلی وحشت کو دیکھنے کے بعد پہلے پاگل ہوا اور پھر مر گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔