پاک امریکا تعلقات

شکیل فاروقی  منگل 11 ستمبر 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے حالیہ مختصر دورہ پاکستان میں اسلام آباد میں پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور خطے کی صورتحال اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا۔

امریکی وفد میں جنرل جوزف ڈنفرڈ بھی شامل تھے۔ عمران خان کے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد کسی امریکی وفد کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔ پاکستان اور امریکا کے وزرائے خارجہ کی قیادت میں وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے جن کا دورانیہ 40 منٹ تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کو افغانستان میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کو کہا۔ اجلاس میں دو طرفہ تعلقات اور علاقہ کی سیکیورٹی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔ اس کے علاوہ افغانستان کے مسئلے پر بھی غور کیا گیا۔

امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کے بجائے دو ٹوک بات چیت کی اور امریکا پر واضح کردیا کہ پاکستان عسکریت پسندوں کے خلاف پہلے سے ہی کارروائی کرتا ہوا آرہا ہے لہٰذا اب ڈو مور کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا صاف صاف جواب تھا کہ ہم امریکا کا ہر مطالبہ پورا نہیں کرسکتے۔ پاکستان کی قیادت کی جانب سے امریکا کو یہ واضح پیغام ایسے وقت پر دیا گیا ہے جب پاک امریکا تعلقات ابتری کی نچلی ترین حدوں کو چھو رہے ہیں۔

اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ وطن عزیز کی سول اور عسکری قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ڈو مور کا مطالبہ دہرانے کے لیے پاکستان آئے تھے مگر نئے پاکستان کی قیادت نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور انھیں یہ باور کرادیا کہ تبدیلی آچکی ہے اور اب یہ وہ پہلے والا پاکستان نہیں ہے جس کی قیادت کو ڈرایا دھمکایا جاسکے۔ امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ اگر جنرل جوزف موجود تھے تو ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے شانہ بشانہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی موجود تھے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ملاقات کے دوران اسی جرأت مندی اور قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جو ان کی شناخت اور طرہ امتیاز ہے۔ انھوں نے انتہائی خود اعتمادی کے ساتھ پاکستان کا موقف پیش کیا اور امریکی وزیر خارجہ کو یہ باور کرادیا کہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ پاکستان کی اولین ترجیح رہے گی جس پر کسی قسم کی سودے بازی ہرگز نہیں کی جاسکتی۔ ہم اپنے قومی مفادات کو ہر حال میں اور ہمیشہ مقدم رکھیں گے اور اپنی غیرت اور حمیت پر کبھی بھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ملاقات کے دوران خطے میں استحکام کے لیے امن کے قیام کی ضرورت پر زور دیا اور امریکی وزیر خارجہ کو اس سلسلے میں پاکستان کے اصولی موقف سے آگاہ کیا۔

ملاقات کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دفتر خارجہ میں باقاعدہ بریفنگ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملاقات میں ڈو مور کا نہیں بلکہ آگے کی جانب قدم بڑھانے کا ماحول تھا۔ ان کے بقول اس ملاقات میں سردمہری ٹوٹی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بریفنگ کے دوران محتاط لب و لہجہ اختیار کیا۔ تاہم انھوں نے اس ملاقات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان کی جانب سے امریکیوں کے ساتھ مذاکرات میں ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کی پاسداری کے حوالے سے نہایت بولڈ موقف اختیار کیا گیا۔

اس طرح وطن عزیز کی نئی حکومت نے امریکی حکومت کو بالکل واضح عندیہ دے دیا ہے کہ اسے ذاتی مفادات کے بجائے ملکی اور قومی مفادات عزیز ہیں۔ لہٰذا اگر امریکا کو پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے ہیں تو اسے برابری کی سطح پر بات کرنا ہوگی اور پاکستان کو اب مزید ڈکٹیشن نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان کی جانب سے امریکا کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے اس جرأت مندانہ انداز کی ملک بھر کے عوامی حلقوں میں بڑی پذیرائی کی جا رہی ہے کیونکہ ماضی کی تمام حکومتیں امریکیوں کے ساتھ زیادہ تر معذرت خواہانہ انداز میں پیش آیا کرتی تھیں۔ پاکستانی عوام کے علاوہ پاکستانی میڈیا نے بھی نئی حکومت کے اس جرأت مندانہ انداز کو پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا ہے اور سراہا ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں بہت بری طرح سے پھنسا ہوا ہے اور اس کی حالت یہ ہے کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ 17 سال کی ہزیمت اٹھانے کے بعد اب امریکا افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ تلاش کرنا چاہتا ہے۔ ادھر اشرف غنی کی حکومت طالبان سے مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ دوسری جانب طالبان کابل حکومت پر اعتماد کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ اس لیے امریکا کو طالبان سے مذاکرات کے لیے اور معاملات طے کروانے کے لیے پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔

دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ افغانستان کی جنگ میں فرنٹ لائن امریکی اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان نے بڑی بھاری اور بے تحاشا جانی اور مالی قربانیاں پیش کرکے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ 17 سال کے عرصے میں پاکستان نے افغان جنگ میں 10374 ارب روپے کا مالی نقصان اٹھایا ہے جبکہ اس کے 80 ہزار فوجی، پولیس والے اور سویلین شہید ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود امریکا بار بار ڈو مور کا مطالبہ کر رہا ہے۔

پاکستان کی بے دریغ قربانیوں کی قدر کرنے کے بجائے امریکا کے صدر ٹرمپ نے اپنی 21 اگست 2017 کی تقریر میں پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ یہ ہے پاکستان کے ساتھ امریکا کا سلوک۔ امریکا کے اس رویے کے حوالے سے اس کے سوا بھلا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘۔ پاکستانیوں کی بے دریغ قربانیوں کے عوض کولیشن سپورٹ فنڈ سے امریکا نے پاکستان کو جو مالی امداد فراہم کی اسے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

ستم بالائے ستم یہ کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے پہلے ہی امریکی حکام نے سپورٹ فنڈز سے پاکستان کو فراہم کی جانے والی انتہائی قلیل اور نام نہاد گرانٹ بند کرنے کی نوید بھی سنادی۔ دراصل اس اقدام کا مقصد پاکستان کی نئی حکومت پر رعب ڈالنا اور دباؤ بڑھانا ہوگا۔ لیکن پاکستان کی نئی حکومت کی جرأت مندی کی وجہ سے امریکیوں کو مایوسی ہوئی ہے اور اب ان میں ہمت نہیں ہوگی کہ وہ اپنا ڈو مور کا مطالبہ دہرا سکیں۔ پاکستانی عوام کو اس بات پر بڑی خوشی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے زیر قیادت نئے پاکستان کی پرعزم حکومت نے امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے وزارت خارجہ کا قلم دان شاہ محمود قریشی کے حوالے کرکے بالکل درست فیصلہ کیا ہے۔ گویا حق بہ حق دار رسید۔ وسیع المطالعہ ہونے کے علاوہ شاہ محمود قریشی انتہائی ذہین اور باصلاحیت شخص ہیں۔ وہ ایک منجھے ہوئے تجربہ کار وزیر خارجہ ہیں۔ ان کا تقرر خالص میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ قوی امید ہے کہ ان کی قیادت میں وزارت خارجہ پاکستان کے حق میں سفارت کاری کی نئی منزلیں طے کرے گی اور کامیابی کے بہت سے سنگ میل عبور کرے گی۔ توقع یہ بھی ہے کہ ان کے آیندہ دورہ امریکا کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی اور ان تعلقات کو ایک نئی جہت ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔