جیکب آباد کے ہندوخاندان

رئیس فاطمہ  بدھ 15 اگست 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

ایک طویل عرصے سے اندرونِ سندھ کے شہروں میں ہندو برادری کے ساتھ ناروا سلوک کی خبریں تواتر سے آرہی ہیں۔ کبھی بھتّہ لینے کے حوالے سے، کبھی اغوا برائے تاوان کے حوالے سے اور کبھی ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرکے شادیاں کرنے کے حوالے سے۔ ایک لیڈی ڈاکٹر کا کیس پچھلے دنوں اخبارات کا موضوع بنا رہا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ایسی خبریں ہندو برادری کی لڑکیوں کے حوالے سے آتی رہیں جو خوش گوار نہیں تھیں۔ کئی دن سے میڈیا میں خبریں گشت کر رہی ہیں کہ 60 ہندو خاندان عدم تحفظ، اغوا برائے تاوان اور دیگر تکلیف دہ وجوہات سے تنگ آ کر بھارت نقل مکانی کے لیے مجبور ہو گئے اور بھارت جانے کے لیے جعفر ایکسپریس سے لاہور کے لیے روانہ ہو گئے جنھیں ان کے رشتے داروں نے روتی آنکھوں سے رخصت کیا۔

جن ہندو خاندانوں کی ہجرت کی بات سامنے آ رہی ہے وہ سندھ کے قدیم باشندے ہیں۔ اندرونِ سندھ کے بیشتر علاقوں خصوصاً جیکب آباد، لاڑکانہ، تھر اور میرپور خاص میں ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ سے آباد ہے۔ کراچی کے پرانے علاقوں جیسے لارنس روڈ، بھیم پورہ، نانک واڑہ اور کھارادر وغیرہ میں ہندو برادری کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ تقسیم کے وقت جس طرح ہزاروں مسلمان خاندانوں نے بھارت میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی اسی طرح بے شمار ہندو خاندانوں نے بھی اپنی زمین اور اپنی جنم بھومی چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا اور سکھ چین سے یہاں رہ رہے تھے۔ ہندوئوں کے علاوہ کراچی میں پارسیوں کی ایک کثیر تعداد آباد تھی، ان کے علاوہ پنجاب کے بہت سے شہروں میں عیسائی آبادی بھی تقسیم سے پہلے یہاں موجود تھی۔

البتہ یہ عیسائی آبادی زیادہ تر وہ تھی بلکہ ہے جنھیں عیسائی مشنریوں نے تبلیغ کے ذریعے عیسائی کیا تھا تاکہ وہ ذات پات کے چکر سے نکل سکیں۔ لیکن عیسائی مشنریوں کے ہاتھوں مذہب تبدیل کرنے والے ناموں کی حد تک تو ضرور بدل گئے کہ رام لعل ڈیوڈ بن گیا لیکن کام وہ وہی کرتے رہے جو عیسائی ہونے سے پہلے کر رہے تھے۔ البتہ اندرون سندھ اور کراچی میں رہنے والی ہندو آبادی مختلف تھی۔ یہ پڑھے لکھے اور مال دار تاجر تھے اس لیے انھیں مذہب تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ جیکب آباد کے جن 60 خاندانوں نے بھارت جانے کا فیصلہ کیا اور وہ جا بھی چکے ہیں، انھوں نے یہ فیصلہ دل سے نہیں کیا ہو گا۔

اپنی جنم بھومی کوئی بھی خوشی سے نہیں چھوڑتا۔ پاکستان بنانے کے لیے سب سے زیادہ ووٹ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے دیے تھے کیونکہ ان علاقوں میں تعصب، فساد اور آگ لگانے کے واقعات ہو رہے تھے۔ اے حمید نے اپنے بیشتر افسانوں میں ان ہولناکیوں کا ذکر کیا ہے جن کی بِنا پر وہاں کے مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ جنم بھومی کی چاہت اور کشش ہر انسان کے خمیر میں موجود ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ منیر نیازی اپنی بستی کو بھولے نہ انتظار حسین نہ اے حمید اور ان جیسے لاکھوں وہ لوگ جو اپنے بھرے پرے گھروں کو کھلا چھوڑ کر جان بچانے کے لیے پاکستان چلے آئے۔ اس ملک نے انھیں سب کچھ دیا لیکن جنم بھومی تو ایک ایسا رومانس ہے جو قبر تک ساتھ رہتا ہے۔

خواہ وہ کسی دور دراز علاقے میں ہو، کسی دوسرے ملک میں ہو یا یہیں کہیں پاکستان کے کسی گائوں میں، گوٹھ میں یا پہاڑوں میں۔ ہر خوشی کے موقع پر انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں عید منائے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں خوش حالی کی زندگی گزارنے والے بھی عید کوہاٹ، بنوں، لاڑکانہ، فیصل آباد اور رحیم یار خان میں منانا چاہتے ہیں اور لاہور میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والوں کو خوشاب، بیلی پور، ہری پور، ایبٹ آباد اور صادق آباد یاد آتے ہیں کہ یہ عین انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ لاکھوں پاکستانی تارکینِ وطن کو بھی ہر خوشی کے موقع پر کراچی، لاہور، پنڈی اور سرحد یاد آتے ہیں حالانکہ وہ یہاں سے گئے تو بدحال تھے لیکن جب جب وہ عید کا چاند دیکھتے ہیں تو کوئی ممتاز اور جاوید کی نہاری کو یاد کرتا ہے اور کوئی پھجے کے پائے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی مرضی سے کوئی اپنے مادرِ وطن سے دور نہیں جاتا‘ معاشی مجبوریاں اسے اپنی جائے پیدایش چھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں۔

8 اگست کو ہندو برادری کے 250 افراد کی خبر جب میڈیا کے ذریعے عام ہوئی تو ایک طرف وہ انتہا پسند تخریبی قوتیں خوش تھیں جو ضیاء الحق کا ورثہ ہیں جو سبزیوں اور پھلوں کو بھی ہندو اور مسلمان کہتے ہیں۔ لیکن ایک بڑا طبقہ ایسا تھا جس نے اس فعل کی مذمت کی۔ اہلِ دل یہ سوچ رہے تھے کہ اگر آج امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال سے تنگ آکر ہندو برادری کے بیشتر لوگ بھارت میں سیاسی پناہ کی درخواست دیتے ہیں تو اس امن کی کوششوں کا کیا ہو گا جس کے لیے دونوں طرف کی حکومتیں کوشاں ہیں۔ کیا دونوں ملکوں کے خیر سگالی کے پروگراموں پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟

وزیر داخلہ نے یہ تو اچھا کیا کہ فوری طور پر اس خبر کا نوٹس لے کر تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا دی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وزیر داخلہ یہ کام پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ ہمارے وزیر داخلہ ہر نازک ترین موقع پر بھی فوری بیان اور فوری کمیٹی بنانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں لیکن اس بار معاملہ دگر ہے۔ یہ اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس اگر کوئی اختیارات ہیں تو وہ چند ذمے دار اخباری نمایندوں کے ذریعے وہاں کے حقائق معلوم کریں اور جیکب آباد کی ہندو برادری کے مسائل سلجھانے کی طرف فوری توجہ دیں جن میں ان کی لڑکیوں کے ساتھ زبردستی، ہندو تاجروں سے زبردستی بھتہ وصولی اور اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا ازالہ جیسے معاملات شامل ہیں۔

کوئی وزیر اعلیٰ سندھ کو بتائے کہ یہ تھر میں مرنے والے حسین موروں کا معاملہ نہیں ہے جن کی ویکسین کے لیے آپ کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ یہ زندہ انسانوں کا معاملہ ہے۔ لیکن پھر بھی مور اس لحاظ سے خوش قسمت نکلے کہ ان کے علاج کی ذمے داری ایک این جی او نے لے لی لیکن بدقسمتی سے جیکب آباد کی ہندو برادری کا مسئلہ تو پیپلز پارٹی کے منتخب نمایندوں ہی کو حل کرنا ہے۔ اس ملک میں ہر سیاسی پارٹی، مذہبی، لسانی اور صوبائی تعصبات کو فروغ دے کر ووٹ حاصل کرتی ہے۔ ویسے تو موجودہ حکومت نے بھی اس مقصد کے لیے اپنے اپنے بت تراش رکھے ہیں جنھیں بوقت ضرورت وہ میدان میں لا کر مخالفین پر حملہ کرتی ہے لیکن ایک کریڈٹ بہرحال پیپلز پارٹی کو جاتا ہے کہ وہ کبھی مذہبی انتہا پسندی اور منافرت کے فروغ کا باعث نہیں بنی‘ نہ ہی کبھی ضیاء الحق کی باقیات کے فلسفے پر عمل پیرا ہوئی ہے۔

اسی لیے آصف زرداری صاحب کو چاہیے کہ وہ خود اس تکلیف دہ صورتِ حال کا نوٹس لیں، اپنے وزیر داخلہ اور قائم علی شاہ سے سوال کریں کہ جیکب آباد میں صورت حال اتنی کیسے بگڑی کہ ہندو برادری اپنا آبائی وطن روتی آنکھوں سے چھوڑنے پر مجبور ہوئی، وہ کون لوگ ہیں جو انھیں مسلسل تنگ کر رہے ہیں؟ کون سے مذہبی انتہا پسند عناصر ان کی بیٹیوں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر رہے ہیں؟ پس پردہ ان کے کیا مقاصد ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کارروائیوں کے پیچھے وہی لوگ ہوں جو نہیں چاہتے کہ بھارت اور پاکستان اچھے ہمسایوں کی طرح مل جل کر رہیں، دونوں کے درمیان آزادانہ تجارت ہو، لوگ باآسانی ایک دوسرے سے ملنے اور سیاست کرنے آجا سکیں۔

اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ سندھ پر ہندوئوں کے بڑے احسانات ہیں۔ کراچی کو 1729 میں ایک ہندو سیٹھ بھوجومل نے بسایا تھا۔ اس سے پہلے یہ صرف ایک مچھیروں کی بستی تھی۔ سندھ میں پہلا کالج بھی ایک مخیر، ہمدرد اور شریف النفس ہندو سیٹھ دیا رام جیٹھامل کے عطیے سے قائم ہوا تھا، جو آج بھی کراچی کا ایک نامور کالج ہے اور ڈی جے سائنس کالج کہلاتا ہے۔ اسلام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے لیکن بعض عناصر اسلام کے اصلی پُرامن چہرے کو مسخ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسے میں زرداری صاحب کو اس صورت حال کا خود نوٹس لینا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔