نئی حکومت پر تنقید یا احساسِ محرومی کا ازالہ؟

محمد اعظم عظیم اعظم  بدھ 12 ستمبر 2018
ناقدین کا حکومت کے ساتھ بے رحمانہ رویہ  اِن کے حکومت مخالف عزائم کا عکاس ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ناقدین کا حکومت کے ساتھ بے رحمانہ رویہ اِن کے حکومت مخالف عزائم کا عکاس ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ابھی تو دنیا بھر سے نومنتخب حکومت کو مبارکبادی کے پیغامات ہی مل رہے ہیں، اور ابھی تو حکومت کا جیت کا خمار بھی نوبیاہتا دُلہن کے ہاتھوں کی مہندی کی طرح نہیں اُترا ہے کہ اِس نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے تھوڑہ ہی عرصے میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ حالانکہ ہماری ماضی کی حکومتوں کی روایت رہی ہے کہ یہ اپنے اقتدارکے ابتدائی ایام کو ہنی مون پیریڈ میں گزاردیا کرتی تھیں۔ مگر نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے اپنا وقت ہنی مون پیریڈ میں ضائع کرنا کچھ مناسب نہیں سمجھا۔ اِسی لیے اپنے وژن کے اہداف کو جلد از جلد حاصل کرنے کیلئے وزیراعظم اپنی کابینہ کے ہمراہ دن رات اور چھٹیوں کے ایام میں بھی اپنے کفایت شعاری اور خود انحصاری کے اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کے ساتھ ساتھ مُلک سے کرپشن کے ناسور و دہشت گردی کے خاتمے، قومی اداروں اور سول ملٹری تعلقات کی بہتری اور یورپی ممالک بالخصوص امریکا اور خطے کے بھارت اور افغانستان جیسے دیگر ممالک سے بھی خارجہ پالیسی کے حوالوں سے برابری کی سطح پر مذاکرات کرنے سمیت اچھے تعلقات استوار کیلئے کمر بستہ ہیں۔

مگر افسوس کہ آج نومولود، چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے بھرپور، رینگتی کھسکتی، گرتی سنبھلتی حکومت پر اپوزیشن اور سیاسی ناقدین کی بہت بڑی تعداد کی جانب سے تنقید کے تیر چلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ناقدین نئی حکومت کے پروٹوکول اور ہیلی کاپٹرکے معاملے میں 55 اور 65 روپے فی کلومیٹر کے تنازع میں قوم کو نہ اُلجھائیں۔

البتہ، ناقدین کا حکومت کے ساتھ بے رحمانہ رویہ جہاں اِن کے حکومت مخالف عزائم کا عکاس ہے، وہیں یہ بھی واضح کررہا ہے کہ اِن کا کام تو بس حکومت کے ہر اچھے کام میں رخنہ ڈالنا ہی رہ گیا ہے جو آج کرپشن سے پاک راہ پر گامزن پاکستان، قرضوں کے بوجھ تلے مُلک کیلئے اِس کی ترقی و خوشحالی سے دُشمنی کے مترادف ہے۔

اگرچہ پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں آئے دو ہفتے سے کچھ زیادہ ہوچکے ہیں، وفاق میں وزیراعظم کے انتخاب اور وفاقی کابینہ کے کچھ وزراء کے چناؤ سمیت چاروں صوبائی حکومتوں میں بھی حکومتی تبدیلی تکمیل کو پہنچ چکی ہے۔ مزید یہ کہ صدارتی انتخابات میں فاتح قرار پانے کے بعد ڈاکٹر عارف علوی ایوانِ صدر میں براجمان ہوچکے ہیں۔ ایسے میں کیا تبدیلی کے پیاسوں کو بامقصد تبدیلی مل گئی ہے؟ یا آنے والے برسوں میں تبدیلی کے تشنہ لبوں کو تبدیلی کے ثمرات مل جا ئیں گے کہ جس تبدیلی کے خواہاں ستر سال سے متلاشی تھے۔ آج یہ سوالات ہر اُس پاکستانی کی زبان پرمحورقص ہیں جو 2013 سے تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران خان اور پی ٹی آئی کے پیچھے چل دیا تھا اور 25 جولائی کو ووٹ کی پرچی سے تبدیلی لانے کا ذمہ دار ٹھہرا ہے۔

آج جب یہی ووٹر پی ٹی آئی اور عمران خان کی دو ہفتوں کی حکومت کا بغور جا ئزہ لے رہا ہے تو اِس میں شدت سے یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ جس تبدیلی کیلئے اِس نے اپنا ووٹ عمران خان اور پی ٹی آئی کے وژن کو دیا تھا، کیا اُس تبدیلی کے ثمرات نظر آرہے ہیں۔ اور تبدیلی کے آثار عوام الناس تک پہنچ بھی رہے ہیں؟ تو پی ٹی آئی کے ووٹرز کو ایک لمحے کو یہ تسکین ضرور محسوس ہوجاتی ہے اور اُس کی زبان سے خود بخود یہ نکل جاتا ہے کہ ہاں! البتہ عمران خان کی حکومت میں زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ سوالیہ نشانات کے ساتھ مثبت تبدیلی کے ثمرات ضرور سا منے آرہے ہیں۔

عمران خان کا ووٹر یہ بھی سوچ رہا ہے کہ ابھی حکومت کو آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں، ماضی کی حکومتیں تو اِس عرصے میں اپنا ہنی مون پیریڈ ہی گزارا کرتی تھیں۔ پھر سربراہان مملکت کے پورے پانچ سال ہنی مون منانے اور بیرونِ ممالک دوروں میں ہی گزر جایاکرتے تھے۔ مگر جب انتخابات کو ایک دو سال باقی رہ جاتے یا انتخابات سر پر آجاتے تھے تو اُن کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوتا تھا۔ پھر وہ حکومتیں عوامی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات اور منصوبے شروع کیا کرتی تھیں۔ درحقیقت اِس طرح اُن حکومتوں کے اقدامات اور منصوبے عملی اعتبار سے تو صفر مگر اشتہارات اور خبروں میں تکمیل کو پہنچ جایا کرتے تھے، جن کی ماضی میں بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اَب اگر اِنہیں وہ جھٹلائیں تو یہ اُن کا فعل ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔

آج عمران خان کی حکومت اپنا ہنی مون پیریڈ منائے بغیر، اپنے اعلان کے مطابق اپنے ابتدائی سو دن کے اہداف کے حصول میں مصروف ہے۔ راقم الحروف کی نظر میں یہ سو دن عمران خان کی حکومت کیلئے آزمائشی ایام ہیں۔ اَب جیسے جیسے یہ آگے بڑھتے جا ئیں گے، حکومتی اقدامات اور اعلانات واضح ہوتے جائیں گے کہ اگلے پانچ سال میں حکومت ایسے مزید کیا اور کتنے اقدامات کرے گی جن میں کفایت شعاری اور خود انحصاری کے عناصر سامنے آئیں گے؛ اور خالی ہوجانے والا قومی خزانہ حکومت کے ’’بچتی اقدامات‘‘ اور ’’بچتی پالیسیوں‘‘ سے بھر جائے گا جس سے درپیش مسائل حل کرنے اور وسائل پید اکرنے کیلئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے مالیاتی اداروں سے حکومت چلانے اور مُلکی ترقی و عوامی خوشحالی کیلئے اُتنی مقدار میں قرضے نہیں لینے ہوں گے جتنے ہماری ماضی کی حکومتیں اِن حوالوں سے جتنی مقدار میں لیا کرتی تھیں۔

ہاں! البتہ نومنتخب وزیراعظم اور اِن کی کا بینہ کی اب تک کی چھوٹی موٹی یا ہلکی پھلکی غلطیوں کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کفایت شعاری اور خود انحصاری کیلئے کیے گئے اقدامات اپنی جگہ کچھ اچھے اور کچھ بُرے تو ضرور ہیں مگر مجموعی طور پر بعض سیاسی ناقدین حکومت کے اِن بچتی اقدامات اور اعلانات کو اپنے زہریلے نشترسے گہرے چیرے لگا کر جگہ جگہ سے گھائل کرنے میں مصروف ہیں۔

آج ایسا کرنا اُن کے نزدیک تو کارِ ثواب ہوسکتا ہے مگر درحقیقت اِس طرح اِن کی جانبداری اور اِن کے اندر کے احساس برتری سے کہیں زیادہ ان کا احساسِ محرومی سامنے آرہا ہے حالانکہ ماضی کی حکومتیں بھی اپنے شروع کے ایام میں ایسی بہت سی بڑی چھوٹی غلطیوں کی مرتکب ہوتی رہی ہیں۔ مگر تب اُن کی غلطیوں کو تو کبھی کسی نے اِس طرح سے نہیں اُچھالا تھا جیسا کہ آج اکثر سیاسی ناقدین روزانہ سرکاری اور نجی نیلے پیلے ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر عمران خان اور اِن کی وفاقی کابینہ و صوبائی حکومتوں کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو کھود کھود کر نکال رہے ہیں۔ دراصل اِس طرح یہ سب اپنے ایک خاص مقصد کے تحت تنقید برائے اصلاح کے نام پر تحریکِ انصاف کی حکومت پر تنقید برائے تنقید کرکے حکومت کے کفایت شعاری اور خود انحصاری اقدامات پر وہ نشتر زنی کررہے ہیں جو کم از کم اس مرحلے پر انہیں زیب نہیں دیتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔