سابق دور حکومت میں 2 ہزار بلیو پاسپورٹس کی اربوں روپے میں فروخت

عارف رانا  جمعرات 30 مئ 2013
وفاقی وزیر اور اعلیٰ حکام پر مشتمل طاقتور گینگ نے فی پاسپورٹ 15 سے 20 لاکھ وصول کیے فوٹو: فائل

وفاقی وزیر اور اعلیٰ حکام پر مشتمل طاقتور گینگ نے فی پاسپورٹ 15 سے 20 لاکھ وصول کیے فوٹو: فائل

اسلام آباد: جولائی 2010ء سے فروری 2013ء کے دوران کم از کم دو ہزار بلیو پاسپورٹس 15 لاکھ سے 20 لاکھ روپے فی پاسپورٹ کے عوض فروخت کیے گئے یا کم درجے کے سرکاری افسران کو جاری کیے گئے۔

ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو ذرائع نے بتایا کہ ایک وفاقی وزیر، وزارت داخلہ، ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کے اعلیٰ حکام پر مشتمل طاقتور گینگ نے بلیو پاسپورٹس کی ہول سیل سے اربوں روپے کمائے۔ گینگ اتنا طاقتور تھا کہ 2012 ء میں ایک کیس سامنے آنے کے بعد بھی اس نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ وزارت داخلہ کے اعلیٰ حکام کے ملوث ہونے کے باعث ایف آئی اے کیس کی تفتیش بھی نہ کرسکی۔ سرکاری پاسپورٹس کی ہول سیل 2011 سے 2013 تک بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہی۔ 2013 میں لاہور ائیرپورٹ پر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے 3 افراد کے ایک گروہ کو گرفتار کیا گیا جو این اوسی نہ دکھا سکے۔

لاہور ائیرپورٹ پر ابتدائی تفتیش کے دوران گرفتار افراد نے بتایا کہ وہ سرکاری حکام نہیں ہیں بلکہ انھوں نے بلیو پاسپورٹ 20 لاکھ روپے فی پاسپورٹ کے حساب سے خریدے ہیں۔ امیگریشن حکام نے فوری طور پر اسلام آباد میں اعلیٰ حکام کو معاملے کی اطلاع دی اور معاملہ ایف آئی اے کو ریفر کردیا گیا مگر وہاں کوئی تفتیش نہ ہوسکی کیونکہ طاقتور لابی حرکت میں آچکی تھی اور انھوں نے کیس پر کوئی بھی کارروائی نہیں ہونے دی۔ تاہم 2013 میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹس کے گارڈ کی تبدیلی سے معاملہ کھل گیا۔

جب ڈی جی ڈائریکٹویٹ جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹس ذوالفقار چیمہ نے رابطہ کیا گیا توانھوں نے تصدیق کی کہ اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ داخلہ ڈویژن کو تحریری طور پر پی پی دور میں غیر متعلقہ افراد کو جاری ہونیوالے 2000 بلیو پاسپورٹس کینسل کرنے کی درخواست دی جاچکی ہے۔ ذوالفقار چیمہ نے مختلف گریڈز کے 12 افسران کو اس معاملہ میں ملوث ہونے پر معطل کردیا ہے۔ ریکارڈ چیک کرنے کیلئے مختلف ریجنل دفاتر پر بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ مگر یہ سارے اقدامات بہت تاخیر سے کئے جا رہے ہیں اور ممکن ہے کہ اس کے مطلوبہ نتائج بھی نہ نکلیں کیونکہ عام خیال ہے کہ جن افراد نے بھاری معاوضہ ادا کرکے بلیو پاسپورٹس خریدے تھے وہ بیرون ملک جا چکے ہیں اور ان پاسپورٹس کے کینسل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

امیگریشن ڈائریکٹوریٹ بھی اربوں روپے کمانے والے طاقتور افراد کی نشاندہی نہیں کرسکا۔ بطور ڈی جی ذوالفقار چیمہ بھی داخلہ ڈویژن کو رپورٹ میں طاقتور افراد کی نشاندہی نہیں کرسکے مگر امیگریشن ڈائریکٹوریٹ کی رپورٹ میں تمام کہانی موجود ہے کہ کس نے غیر مستحق افراد کو بلیو پاسپورٹ تجویز کیا۔ تحقیقات میں شریک پاسپورٹ آفس کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ امیگریشن ڈائریکٹوریٹ کا ریکارڈ ہی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ اس معاملے میں کون کون سے لوگ ملوث تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔