انتباہ

سردار قریشی  بدھ 12 ستمبر 2018
sardarqureshi1944@gmail.com

[email protected]

نیویارک ٹائمز نے پاکستان کے بارے میں صفحہ اول پر شایع ہونے والی اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ترقی اور اصلاحات کا ایک ولولہ انگیز ایجنڈا تیارکیا ہے اور انھوں نے اونچے طبقے کے لوگوں کی کرپشن کو روکنے نیز صحت، تعلیم اور خواتین کی بہبود پر خرچ ہونے والی رقم بڑھانے کا عزم کر رکھا ہے۔

یہ اہم سماجی پروگرام شروع کرنے کے لیے انھیں پاکستانی سول سوسائٹی کی مدد و حمایت کی ضرورت ہے۔ وہ اس کے گروپوں کو سابقہ حکومت کی طرف سے عائدکردہ پابندیوں سے نجات دلانا اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر موثر طور پر کام کرسکیں۔

اخبار نے  لکھا ہے کہ عمران خان ماضی میں مختلف مواقعے پر رجعت پرستانہ موقف اختیارکرتے رہے ہیں جن میں لبرل سوچ پر حملے، پریس پر تنقید اور طالبان  کی شورش کو افغانستان میں قابض فوجوں کے خلاف جائز ’’جہاد‘‘ قرار دینا خاص طور پر قابل ذکر ہیں،  مگر اب صفحہ پلٹنے کا موقع ملنے کے بعد وہ ملک کے لیے ایک نئے اور ترقی پسندانہ ویژن کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔

انسانی ترقی کے بین الاقوامی نقشوں میں پاکستان ہمیشہ بہت ہی نیچے رہتا آیا ہے۔ یہاں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات بد ترین ہے۔اقوام متحدہ، چلڈرن فنڈزکے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق آئس لینڈ میں ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے ایک بچے کے مرنے کا امکان ہوتا ہے جب کہ پاکستان میں یہ شرح ہر 22 بچوں میں سے ایک ہے۔ 2 کروڑ 30 لاکھ پاکستانی بچے اسکولوں سے باہر ہیں جب کہ سرکاری اور نجی اسکولوں میں داخل لاکھوں بچے بمشکل پڑھ اور لکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ مدد کی ضرورت ہے ۔

عمران خان کو ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پیسوں کے علاوہ مہارت بھی چاہیے جب کہ ان کی حکومت کو بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے فنڈزکی شدید قلت اور محصولات خواہ برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں بے تحاشہ کمی کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ کئی ایک غیر منافع بخش بین الاقوامی گروپوں نے برسوں پاکستان میں کام کیا ہے۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں سیلاب جیسے قومی بحرانوں، دور افتادہ دیہی علاقوں میں تعلیم کو فروغ دینے جیسے کاموں میں مدد کرنے کے علاوہ مسیحی اور ہندو اقلیتی گروپوں کے ساتھ ملکرکام کرتی رہی ہیں جنھیں اخبار کے مطابق ریاست نے نظرانداز کر رکھا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی مدد کرنے کی بجائے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ان گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔ پچھلی حکومت اور فوج نے ان کے کام کا دائرہ کم کرنے کی کوشش کی اور ملک میں کام کرنے والے سول سوسائٹی کے کئی بین الاقوامی گروپوں کو نکال باہرکیا۔ دائیں بازو نے الٹا ان بین الاقوامی این جی اوز کے خلاف مہم چلائی اور ان پر جاسوسی اور حکومت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے۔

گزشتہ برس حکومت نے21 بین الاقوامی این جی اوز کو اپنی رجسٹریشن کی تجدید کرانے کا حکم دیا مگر جب انھوں نے دسمبر میں نئی درخواستیں دیں تو وہ نہ صرف منظور نہیں کی گئیں بلکہ اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ یہ این جی اوز اب تک اپنی اپیل کے جواب کی منتظر ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان کے مستقبل کے بارے میں پیدا کردہ غیر  یقینی صورتحال کے باعث وہ سارے پروگرام سال بھر سے بند پڑے ہیں جو یہ گروپ چلا رہے تھے۔ علاوہ ازیں ان این جی اوزکے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں پاکستانیوں کے بیروزگار ہو جانے کا خطرہ ہے۔ مغربی ممالک کی حکومتیں بھی عطیات دینے سے ہچکچا رہی ہیں۔

پاکستانی غیر سرکاری تنظیمیں اور بھی زیادہ مشکل حالات کا سامنا کر رہی ہیں کیونکہ ان کے پاس نہ تو ملک چھوڑکر چلے جانے کا آپشن ہے نہ ہی وہ ریاستی اقدامات کو موثر طور پر چیلنج کر سکتی ہیں۔ سول سوسائٹی کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ہزاروں پاکستانی گروپوں کو اپنی رجسٹریشن کی تجدید کرانے اور ذاتی نوعیت کے سوال نامے کا جواب دینے کے لیے کہا گیا ہے۔ ان تنظیموں کی غیر ملکی فنڈنگ بھی معطل کر دی گئی ہے۔

اخبارکے مطابق عمران خان اصلاحات کے اپنے ایجنڈے پر اس وقت تک کوئی حقیقی پیشرفت نہیں کرسکتے جب تک وہ سول سوسائٹی پر عائد پابندیاں ختم نہیں کرتے اور ان گروپوں کو بہتر پاکستان کی تعمیرکے لیے آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اخبار لکھتا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ اسلام آباد نے ایک طرف غیر سرکاری گروپوں کو دباؤ میں لے رکھا ہے تو دوسری جانب انتہا پسند گروپوں اور ان سے وابستہ تنظیموں کی سیاسی اور سماجی لحاظ سے سرپرستی کی جا رہی ہے۔کئی انتہا پسند گروپوں کو حالیہ عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی تاکہ ان گروپوں کو انتخابی عمل میں شریک کرکے قومی دھارے میں لا نے کی کوشش کر رہی ہے۔

نہ تو ان گروپوں سے انتہا پسندانہ سوچ ترک کرانے کا کوئی پروگرام شروع کیا گیا ہے نہ انھیں اپنے ہزاروں پیروکاروں کو غیر مسلح کرنے اور انتہا پسند نظریے سے لاتعلقی اختیارکرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ جمہوری عمل کا حصہ بننے کا اعلان کیے بغیر انتخاب لڑنے کی اجازت ملنے سے انھیں صرف اپنی حمایت بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان انتہا پسند گروپوں نے انتخابات میں تقریباً 1500 امیدوارکھڑے کیے تھے۔

ایسے میں جب پاکستان کو دہشتگرد سرگرمیوں کا سد باب کرنے میں ناکام رہنے والے دیگر ممالک کی طرح فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں شامل کیے جانے کا خطرہ درپیش ہے، عمران خان کو اس امریکی اخبار کی رائے میں ان غلطیوں کو سدھارنے پر توجہ دینے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ مغربی سفارتکاروں کے مطابق ایف اے ٹی ایف کے اگست میں لیے گئے جائزے میں پاکستان کی کارکردگی کو اطمینان بخش نہیں پایا گیا۔ اس نے انتہا پسند گروپوں کو، جنھیں اقوام متحدہ دہشتگرد گروپوں کی فہرست میں شامل کرچکا ہے، پاکستان میں خیراتی کاموں میں حصہ لینے کی اجازت دیے جانے پر تشویش ظاہر کی۔

اخبار نے لکھا ہے کہ اکتوبر تک پاکستان کو شمالی کوریا اور ایران کی طرح ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں، اگر  پاکستان نے اپنا رویہ نہ بدلا تو، وہ بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں آسکتا ہے۔ ایسا ہوا تو اس کے نہ صرف براہ راست سیاسی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ ایف اے ٹی ایف کے معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے عطیات دینے والے ممالک بھی دو طرفہ فنڈنگ روکنے پر مجبور ہوں گے جو غیر منافع بخش گروپوں کے لیے ہوتی ہے ۔

اخبار مزید لکھتا ہے کہ فی الحال عمران خان کے لیے زبردست خیرسگالی پائی جاتی ہے، لیکن یہ صورتحال کب تک جاری رہے گی اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا وہ ان پالیسیوں کو جاری رکھتے ہیں یا نہیں جو واضح طور پر پاکستان کے عالمی امیج خواہ سول سوسائٹی کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور این جی اوز کو کام نہیں کرنے دے رہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو ان کی سابقہ پوزیشنوں پر واپس لانے، ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے اور اسلامی انتہا پسند گروپوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے فوری طور پر پالیسی فیصلے کیے جائیں کیونکہ پاکستان کا جمہوری مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔

غیر ملکی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں شایع ہونے والے مواد پر یقینا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی میڈیا میں جو کچھ پاکستان کے بارے میں شایع ہو رہا ہے اسے غیر ملکی سازش یا پروپیگنڈا قرار دے کر رد کرنا دراصل خود کو حالات سے غافل رکھنے کے مترادف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔