دو خط

زاہدہ حنا  بدھ 12 ستمبر 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

وہ ایک خوبرو ، شاندار اور ذہین نوجوان تھا ۔ نواب محسن الملک کا پوتا ، قابل رشک تعلیمی پس منظر رکھنے والے اس حیدرآبادی نوجوان کو پڑھنے کے لیے آکسفورڈ بھیجا گیا ۔ کون سوچ سکتا تھا کہ وہاں وہ بائیں بازوکے رحجانات رکھنے والوں کے اس طرح زیر اثر آئے گا کہ پھر زندگی غریبوں اور مزدوروں کے لیے تج دے گا ۔

یہ حسن ناصر کا قصہ ہے جو سالہا سال سے پاکستان میں زیر زمین زندگی گزار رہے تھے۔انھیں 13ستمبر 1960ء کو کراچی سے اپنے چند ’’مہربانوں ‘‘کی مخبری کے سبب گرفتارکیا گیا اور لاہور بھیج دیا گیا ، ان کی منزل لاہورکا قلعہ تھا جہاں کے عقوبت خانوں میں ان کی چیخیں اور کراہیں جذب ہوتی رہیں اور آخرکار 13نومبر 1960ء کو وہ آواز بجھ گئی جو پاکستان میں بائیں بازو کی سب سے بلند اور محترم آواز تھی ۔

حسن ناصر نے زندگی کے آخری دنوں میں کہا تھا کہ ’’میں ہندوستان چلا گیا تھا لیکن اپنی جلاوطنی کے بعد واپس آگیا ۔ میرے خاندان کی زمینیں اور دولت مجھے وہاں روک نہیں سکی ۔ میری پارٹی (انڈین کمیونسٹ پارٹی) بھی مجھے نہ روک سکی، میرے خاندان والوں نے ان سے کہا تھا کہ میں وہیں کام کروں۔ میں وہاں رہنا کیوں نہیں چاہتا تھا؟ یہ بات نہیں ہے کہ میں انڈیا کو پسند نہیں کرتا۔ آخر میں وہیں پیدا ہوا تھا اور اس کی زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کو کھاکر بڑا ہوا تھا ۔ ایسی جگہ سے میں کس طرح نفرت کرسکتا ہوں ؟ لیکن یہ وہ جگہ نہیں ہے جہاں مجھے جدوجہد کرنا ہے ۔ یہاں وہ مزدور نہیں ہیں جن کے ساتھ میں رہتا ، سہتا اور جنھیں سوشلزم پڑھاتا تھا ۔ وہ سب یہاں ہیں،کراچی میں۔ وہ ہندوستان میں نہیں ہیں ۔ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے میں واپس آیا ہوں کیونکہ میں یہاں رہوں گا اور آپ بھی ایساکریں گے ۔ ہماری قبریں بھی اسی زمین پر بنیں گی۔‘‘

حسن ناصرکا زخموں سے چور بدن لاہور میں کسی نامعلوم قبرکا نوالہ بنا ۔ ان کی ماں زہرا علمبردار حسین جو ان کی شہادت کی خبر سن کر بیٹے کو ساتھ لے جانے کے لیے آئی تھیں ، وہ بے نیل و مرام اس سیاہ تابوت کو خالی واپس لے گئیں ، جو وہ اپنے ساتھ لائی تھیں ۔ انھیں قبرکشائی کے بعد جو خستہ تن لاش دکھائی گئی تھی اسے انھوں نے پہچاننے سے انکارکردیا تھا ۔ ستمبر سے نومبر کی تاریخوں کے درمیان حسن ناصر بار بار یاد کیے جاتے ہیں ۔ یہاں وہ دو خط نقل کیے جارہے ہیں جو حسن ناصرکی شہادت سے چند دنوں پہلے لکھے گئے تھے ان میں سے ایک حسن ناصرکا اور دوسرا ان کی والدہ زہرا علمبردار حسین کا ہے ۔

لاہور فورٹ

14اکتوبر 1960ء

پیاری امی ! آپ ہمیشہ کہتی ہیں کہ میں صرف اس وقت آپ کو خط لکھتا ہوں جب میں جیل میں ہوتا ہوں ۔ اب میں یہاں ایک مرتبہ دوبارہ پہنچ گیا ہوں ۔ اب تک آپ کو میری گرفتاری کی اطلاع مل گئی ہوگی ۔ مجھے سیکیورٹی ایکٹ کے تحت قید میں ڈالا گیا ہے ۔ یہ ان ہی قوانین کی تازہ ترین مثال ہے جن کے تحت مجھے ماضی میں بھی گرفتارکیا گیا تھا ۔ اس بار یہ واقعہ 6اگست 1960ء کو وقوع پذیر ہوا لیکن اب یہ ایک سال کے لیے ہے ۔ میری صحت اچھی ہے اور آپ میری وجہ سے پریشان نہ ہوں ۔

آپ مجھے اوپر دیے گئے پتے پر خط بھیج سکتی ہیں۔ آپ کے لیے اگر ممکن ہو تو ذرا ازراہ کرم مجھے امریکی رسالے ٹائم ، ’’نیشنل جیاگرافک‘‘ اور اسی طرح کی دیگر مطبوعات ارسال کردیں ۔ سنسر کرنے کے بعد جیل کے حکام انھیں مجھ تک پہنچادیں گے ۔ آپ کو شاید یاد ہوگا کہ میں جب 1952ء میں لاہور قلعے میں قید کیا گیا تھا تو آپ نے یہ جرائد بھیجے تھے ۔

مجھے امید ہے کہ آپ نے اپنے آپریشن کرا لیے  ہوں گے ۔ پچھلی مرتبہ جب آپ مختصر وقت کے لیے کراچی میں رکی تھیں تو میں آپ کی صحت کے بارے میں بہت فکر مند تھا ۔ میں آپ سے معافی کا طلب گار ہوں کہ میری وجہ سے آپ تشویش اور صدمے کی کیفیت میں رہتی ہیں ۔ میں آپ کے عذابوں میں اضافہ ہی کرتا رہتا ہوں ۔

مہربانی فرماکر مجھے آگاہ کریں کہ آپ کے جبڑے کے آپریشن کیسے ہوئے ہیں ؟

ابا ، ممتاز اور بڑے بھائی کو میرا آداب کہیں ۔

منہاج اور اس کی ننھی خوبصورت بہن اور دوسروں کو پیار

وہ جو آپ سے محبت کرتا ہے

ناصر

قیدی ۔۔۔۔۔ سیکیورٹی آف پاکستان ایکٹ

لاہور فورٹ

بیگم علم بردار حسین ، معرفت ڈاکٹر جعفر حسین

دھوپ چھاؤں ، بنجارہ ہلز

حیدرآباد ۔ آندھرا پردیش (انڈیا)

19اکتوبر 1960ء

وحید منزل 405،14-5

ریڈیل ، حیدرآباد

پیارے ناصر !

تمہیں بہت سارا پیار ۔ تمہارا لاہور سے روانہ کیا گیا خط مجھے آج ملا ہے ۔ اس نے آنے میں صرف چار دن لگائے۔ میں بہتر نہیں محسوس کررہی تھی لہٰذا جواب روانہ کرنے میں مجھ سے تاخیر ہوگئی ہے ۔

میں نے تمہاری گرفتاری کے بارے میں سنا تھا لیکن اس کے بعد مجھے تمہاری طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی جس کی وجہ سے میں پریشان تھی ۔ مجھے کچھ نہیں معلوم ہے کہ تمہیں کس طرح اورکہاں سے گرفتار کیا گیا تھا ۔

کم از کم تمہارے خطوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوئی صورت تو نکلی ہے اور تمہارے بارے میں ہمیں کچھ معلوم ہوا ہے ۔ تم نے لکھا ہے کہ تمہاری صحت اچھی ہے ۔ اللہ کے کرم سے تمہاری یہ بات درست ہو اور تم اچھے ہو ۔

تم نے میری صحت کے بارے میں دریافت کیا ہے۔ یہ حادثہ اس جگہ کے اوپر ہوا جہاں گزشتہ سال میرے بلیڈر کا آپریشن ہوا تھا۔ اب ہر دن میں کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتی ہوں ، یہ سب تو مجھے برداشت کرنا ہی ہے ۔ جبڑے کا درد بدستور جاری ہے۔ ایک دوسرا بڑا آپریشن اب ممکن نہیں حالانکہ وہ میرے جوڑوں میں انجکشن لگا رہے ہیں ۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ میری گرتی صحت کے باعث وہ کسی مزید مداخلت کا خطرہ اس وقت تک مول نہیں لے سکتے جب تک میری صحت کچھ بہتر نہ ہوجائے ۔ واقعی میں جس طرح کی جذباتی اور جسمانی پریشانیوں میں مبتلا ہوں اس کے بعد میری صحت کہاں بہتر ہوسکتی ہے ۔

سید صاحب کی صحت پہلے جیسی ہی ہے ۔ ان کی ذہنی صحت انتہائی خراب ہوچکی ہے ، وہ کسی کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی پانی اور خوراک مانگ سکتے ہیں۔ چار مہینے کے کسی بچے کی طرح ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال کا دباؤ بھی صحت پر پڑتا ہے ۔ گھر کی دیکھ بھال کے لیے نوکر تو موجود ہیں لیکن اس کے باوجود مجھے ہر چیز دیکھنی ہوتی ہے ۔

منہاج اور اس کی بہن ٹھیک ہیں ۔ وہ بہترین دوست ہیں ۔ سبک آراء اپنے بھائی سے خوب لطف اندوز ہوتی ہے۔ منہاج اس سے دل بھر کر کھیلتا ہے ، لیکن جب وہ رونے لگتی ہے تو اس کے پاس کوئی نہ کوئی بہانہ (صفائی پیش کرنے کا ) ضرور موجود ہوتا ہے ۔ وہ ایک ذہین بچہ ہے اور اسکول میں اچھی کارکردگی دکھاتا ہے ۔ وہ دنیا کے بارے میں خاصی معلومات رکھتا ہے ۔ وہ باتونی ہے لیکن فضول گفتگو نہیں کرتا ۔ تمہاری گرفتاری کے بعد وہ اکثر تمہیں یاد کرتا ہے اور ہمیشہ تمہارے بارے میں پوچھتا ہے … ہم چاچا سے ملنے کب جائیں گے ؟

والدہ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے، لیکن وہ خود کو مصروف رکھتی ہیں ۔ وہ تمہارے لیے پیار اور شفقت کا اظہار کررہی ہیں ۔

میں تمہیں کچھ رسالے روانہ کررہی ہوں ۔ جب وہ تمہیں مل جائیں تو مجھے اطلاع کردینا اور ہاں اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور لکھنا ۔ (جو چیز تم وصول کرسکو)۔ تمہاری بھابھی تمہیں پیارکہہ رہی ہیں ۔ یہاں سب لوگ ٹھیک ہیں ۔

بہت ساری محبتیں

زہرا

پاکستانی خفیہ اداروں کے بڑوں کا کہنا تھا کہ اپنی والدہ کے خط کو پڑھ کر اور والد کی شدید علالت سے آگاہ ہوکر حسن ناصر شدید ڈپریشن میں چلے گئے اور آخر کار انھوں نے خودکشی کرلی ۔       (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔